تاریخ پاکستان کے گم شدہ اوراق
ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب کئی حوالوں سے اہم ہے جو ہماری سیاسی اور قانونی یا اسٹیبلیشمنٹ کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے
پاکستان کی سیاسی، سماجی، معاشی یا قانونی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں ان تاریخی واقعات، تجربات اور مشاہدات سے عملی طور پربہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ کیونکہ ہم نے بطور قوم یا ریاست کوئی منظم انداز میں اپنے معاملات کو چلانے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ ہم نے ایک ہجوم کے طور پر یا اپنے ذاتی مفادات یا خواہشات کی بنیاد پر فیصلے کیے ہیں۔
ماضی میں گم ہونا کوئی عقلمندی نہیں بلکہ ماضی کے تجربات سے سیکھ کر اور سمجھ کر ہی آگے بڑھنا دانش کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ مجموعی طور پر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے پرانی ہی غلطیوں کو اور زیادہ خرابی کے ساتھ ہی آگے بڑھایا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج بطور ریاست ہمیں مجموعی طور پر کئی طرح کے سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہماری سیاسی تنہائی کا سفر بھی جاری ہے او ربطور ریاست ہم اپنی قومی بقا کی جنگ کے لڑنے کے عمل سے گزررہے ہیں ۔
ڈاکٹر فاروق عادل پاکستان کے سیاسی , صحافتی اور علمی وفکری حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ علم دوست ہیں کتابوں اور قلم سے ان کا رشتہ کافی گہرا ہے ۔کئی دہائیوں سے صحافت سے تعلق ہے۔ اعتدال پسند ہیں او رجذباتیت کی بنیاد پر مکالمہ کے حامی نہیں اور سب سے بڑھ کر اپنی بات کو بہت ہی آسان انداز میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
ان کی تحریریں ہمیشہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں او رسیاست، ادب، مذہب اور سماجیات سمیت تاریخ سے ان دلچسپی کافی گہری ہے او ران کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے ۔ ان کی حالیہ کتاب '' ہم نے جو بھلادیا'' ) تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق(سامنے آئی ہے ۔ یہ کتاب قلم فاونڈیش نے شایع کی ہے ۔
ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب کی خاص بات یہ تحقیق کے ساتھ لکھی گئی ہے او رجو بات بھی ماضی کے تناظر میں کئی گئی ہے اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان کی یہ تحقیقی مضامین ہمیں ماضی کے بار ے میں نہ صرف آگاہی دیتے ہیں بلکہ کئی جگہ وہ اپنے حوالہ جات یا انکشافات سے ایک نئے زوایے کو سامنے لاتے ہیں ۔ بعض اوقات اپ کے اپنے اندر جو فکر یا سوچ کارفرما ہوتی ہے اسے بھی نئے بیانیہ کے ساتھ دستک دے کر جنجھوڑتے ہیں۔
بقول پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین کے '' تاریخ کا جبر یہ ہے کہ ایک بار رونما ہونے والا واقعہ پتھر پر لکیر بن جاتا ہے او رپھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۔لیکن یہ بھی تاریخ ہی کا کمال ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد کبھی نہ بدلنے والے حالات پر نگاہ ڈالیں تو ان کی کوئی نہ کوئی توضیح اور تعبیر سامنے آجاتی ہے ۔یہ ہی تعبیر اور توضیح ہے جو مستقبل کے لیے راستوں کا تعین کرتی ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ پر پلٹ کر نگاہ ڈالنے کا عمل اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس کے لیے اکسیجن کا۔''
اسی طرح خود ڈاکٹر فاروق عادل کے بقول '' اصل میں بی بی سی کی خواہش تھی کہ پاکستان کی تاریخ کے کچھ گوشوں کو ازسر نو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔میں جب اس میدان میں اترا تو سچ جانئے کہ حیرت کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑے ۔میں حیرت زدہ ہوا ضرور لیکن جیسے جیسے حیرت بڑھتی گئی، قلم محتاط ہوتا گیا ۔ادارہ چاہتا تھا کہ کوئی بات بے حوالہ نہ لکھی جائے ۔میں نے یہ سوچا کہ اگر یہ اصول متاثر ہوگیا تو گویا میرا عقید ہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ۔یوں یہ مضامین محض پیشہ وارانہ سرگرمی نہ رہے , واردات قلبی میں بدل گئے ۔''
ڈاکٹر فاروق عادل نے اپنی اس کتاب کے بیانیہ سے ہمارے سامنے '' تاریخ کے گمشدہ اوراق '' رکھے ہیں ۔ جو بھی تاریخ کا طالب علم ہوگا وہ ان واقعات سے اتفاق کرے گا یا اختلاف, لیکن جو بھی اختلاف کرے گا اس کی بنیاد بھی علمی اور شواہد کی بنیاد پر ہوگا۔کم ازکم اس کتاب کی سطح پر آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود خیالات کے مقابلے میں ایک متبادل خیال سامنے لائے گاجو آپ کو ایک اور نئے زاویہ سے سوچ کی دعوت بھی دے گا۔
علمی و فکری معیار کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ یہاں مکالمہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے او رمحض اپنے ہی سچ کو مکمل سچ تسلیم کرنا کوئی دانش مندی نہیں ۔اسی کتاب میں ہمیں سندھی مہاجر کشمکش کی کہانی کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ کیسے یہ کشمکش شروع ہوئی او ر کون اس کے اصل ذمے دار تھے۔
اسی کتاب میں کراچی جو کبھی بیک وقت مرکزی اور صوبائی حکومت کا دارلحکومت تھا اسے کیسے سندھ سے لے کر مرکزی حکومت کے سپردکرنا تھا کہ تناظر میں کئی انکشافات سننے کو ملتے ہیں جن میں ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کی کتاب کے'' محمد ایوب کھوڑو اے لائف آف کریج ان پالیٹکس '' کے حوالہ جات بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر فاروق عادل نے پاکستان میں امریکی امداد کے تناظر میں ایک حوالہ دیا ہے جو کافی دلچسپ ہے ۔ امریکی امداد کیا ہوتی ہے؟ فیروز احمد نے اپنے مقالہ میں اسی سلسلے میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کا ایک بیان درج کیا ہے , امریکی صدر کہتے ہیں '' امریکی طریقہ کار کے اس پہلو پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ امریکا سامان او رمہارت کی صورت میں نئے ابھرتے ہوئے ملکوں کو جو امداد مہیا کرتا ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں اس کی مصنوعات او رٹیکنالوجی سے اہم اہنگی او رمستقل ضرورت کو پیدا ہو جائے تاکہ امدادی معاہدوں کا دورانیہ ختم ہوجانے کے بعد بھی ان مصنوعات کی مانگ برقرار رہے ۔''
اسی نقطہ کی بنیاد پر ہمیں امریکا سمیت دیگر ممالک کے امداد کو دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی امداد کے پیچھے دینے والے ملکوں کے سیاسی او رمعاشی مفادات یا امداد لینے والے ملکوں کو اپنے ماتحت کرنا یا ان پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہی ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی ملک ان کے حصار سے باہر نہ نکل سکے ۔
'' انصاف کا قتل'' شامل مضمون میں ہمیں پاکستان کی عدالتی تاریخ او ران کے فیصلوں کی جھلک ملتی ہے۔کتاب میں معروف قانون دان حامد خان کی کتاب '' پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ'' کے مختلف حوالہ جات شامل ہیں لیکن دو بیان کافی اہم ہیں ۔ اول بطور جج جسٹس منیر کی قابلیت او رعلمی حیثیت شک و شبہ سے بالا ہے , لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے ۔ دوئم آئین او رجمہور کی حکمرانی او رطاقت ور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی لیکن یہ ادار ہ بھی ان ہی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کشمکش میں حصہ دار بن گیا۔
یہ مضمون پاکستان میں حالیہ جاری عدالتی بحران او راس کے سیاسی مضمرات کو بھی سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کیسے ہمارا عدالتی نظام انصاف کے نظام سے دورچلا گیا ہے او راس کا نتیجہ سیاسی ,جمہوری اور آئینی یا قانونی کمزوریوں کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔
پاکستا ن میں فوجی مارشل لا لگانے یا فوجی مداخلتوں کے حوالے سے بھی ایک بحث موجود ہے ۔ اس کتاب میںپی این اے لیڈر اصغر خان کا وہ خط بھی شامل ہے جس میں انھوں نے فوجی قیادت کو بھٹو حکومت کے خاتمہ پر لکھا تھا او ریہ خط کئی ہزار فوجیوں میں تقسیم کیا گیا، لیکن جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور کے بقول اصغر خان کا یہ خط اتحاد کی قیاد ت کو اعتماد میں لیے بغیر لکھا گیا او ریہ عمل ان کا انفرادی تھا ۔جب کہ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول اس وقت حزب اختلاف کے راہنماوں نے فوج کے سربراہ سے ملاقات کی کوشش بھی کی او ربراہ راست یا بلاواسط دباو بھی ڈالا۔
اتحادی راہنماؤں اور کارکنوں نے بڑے تعداد میں آرمی چیف کو ٹیلی گرام، خطوط لکھے اور ان سے مطالبہ کیا وہ بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیں۔یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں مارشل لا ہوں یا فوجی مداخلتوں کی کہانی ان میں سیاست دانوں اور سیاسی سطح پر موجود جماعتوں کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ اور سہولت کاری بھی کھیل کا حصہ تھا او رہے۔
ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب کئی حوالوں سے اہم ہے جو ہماری سیاسی اور قانونی یا اسٹیبلیشمنٹ کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے ۔نوجوان نسل اور سیاست یا قانون یا ریاستی نظام کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے , او رمصنف مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
ماضی میں گم ہونا کوئی عقلمندی نہیں بلکہ ماضی کے تجربات سے سیکھ کر اور سمجھ کر ہی آگے بڑھنا دانش کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ مجموعی طور پر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے پرانی ہی غلطیوں کو اور زیادہ خرابی کے ساتھ ہی آگے بڑھایا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج بطور ریاست ہمیں مجموعی طور پر کئی طرح کے سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہماری سیاسی تنہائی کا سفر بھی جاری ہے او ربطور ریاست ہم اپنی قومی بقا کی جنگ کے لڑنے کے عمل سے گزررہے ہیں ۔
ڈاکٹر فاروق عادل پاکستان کے سیاسی , صحافتی اور علمی وفکری حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ علم دوست ہیں کتابوں اور قلم سے ان کا رشتہ کافی گہرا ہے ۔کئی دہائیوں سے صحافت سے تعلق ہے۔ اعتدال پسند ہیں او رجذباتیت کی بنیاد پر مکالمہ کے حامی نہیں اور سب سے بڑھ کر اپنی بات کو بہت ہی آسان انداز میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
ان کی تحریریں ہمیشہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں او رسیاست، ادب، مذہب اور سماجیات سمیت تاریخ سے ان دلچسپی کافی گہری ہے او ران کی جھلک ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے ۔ ان کی حالیہ کتاب '' ہم نے جو بھلادیا'' ) تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق(سامنے آئی ہے ۔ یہ کتاب قلم فاونڈیش نے شایع کی ہے ۔
ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب کی خاص بات یہ تحقیق کے ساتھ لکھی گئی ہے او رجو بات بھی ماضی کے تناظر میں کئی گئی ہے اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان کی یہ تحقیقی مضامین ہمیں ماضی کے بار ے میں نہ صرف آگاہی دیتے ہیں بلکہ کئی جگہ وہ اپنے حوالہ جات یا انکشافات سے ایک نئے زوایے کو سامنے لاتے ہیں ۔ بعض اوقات اپ کے اپنے اندر جو فکر یا سوچ کارفرما ہوتی ہے اسے بھی نئے بیانیہ کے ساتھ دستک دے کر جنجھوڑتے ہیں۔
بقول پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین کے '' تاریخ کا جبر یہ ہے کہ ایک بار رونما ہونے والا واقعہ پتھر پر لکیر بن جاتا ہے او رپھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۔لیکن یہ بھی تاریخ ہی کا کمال ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد کبھی نہ بدلنے والے حالات پر نگاہ ڈالیں تو ان کی کوئی نہ کوئی توضیح اور تعبیر سامنے آجاتی ہے ۔یہ ہی تعبیر اور توضیح ہے جو مستقبل کے لیے راستوں کا تعین کرتی ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ پر پلٹ کر نگاہ ڈالنے کا عمل اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس کے لیے اکسیجن کا۔''
اسی طرح خود ڈاکٹر فاروق عادل کے بقول '' اصل میں بی بی سی کی خواہش تھی کہ پاکستان کی تاریخ کے کچھ گوشوں کو ازسر نو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔میں جب اس میدان میں اترا تو سچ جانئے کہ حیرت کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑے ۔میں حیرت زدہ ہوا ضرور لیکن جیسے جیسے حیرت بڑھتی گئی، قلم محتاط ہوتا گیا ۔ادارہ چاہتا تھا کہ کوئی بات بے حوالہ نہ لکھی جائے ۔میں نے یہ سوچا کہ اگر یہ اصول متاثر ہوگیا تو گویا میرا عقید ہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ۔یوں یہ مضامین محض پیشہ وارانہ سرگرمی نہ رہے , واردات قلبی میں بدل گئے ۔''
ڈاکٹر فاروق عادل نے اپنی اس کتاب کے بیانیہ سے ہمارے سامنے '' تاریخ کے گمشدہ اوراق '' رکھے ہیں ۔ جو بھی تاریخ کا طالب علم ہوگا وہ ان واقعات سے اتفاق کرے گا یا اختلاف, لیکن جو بھی اختلاف کرے گا اس کی بنیاد بھی علمی اور شواہد کی بنیاد پر ہوگا۔کم ازکم اس کتاب کی سطح پر آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود خیالات کے مقابلے میں ایک متبادل خیال سامنے لائے گاجو آپ کو ایک اور نئے زاویہ سے سوچ کی دعوت بھی دے گا۔
علمی و فکری معیار کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ یہاں مکالمہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے او رمحض اپنے ہی سچ کو مکمل سچ تسلیم کرنا کوئی دانش مندی نہیں ۔اسی کتاب میں ہمیں سندھی مہاجر کشمکش کی کہانی کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ کیسے یہ کشمکش شروع ہوئی او ر کون اس کے اصل ذمے دار تھے۔
اسی کتاب میں کراچی جو کبھی بیک وقت مرکزی اور صوبائی حکومت کا دارلحکومت تھا اسے کیسے سندھ سے لے کر مرکزی حکومت کے سپردکرنا تھا کہ تناظر میں کئی انکشافات سننے کو ملتے ہیں جن میں ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کی کتاب کے'' محمد ایوب کھوڑو اے لائف آف کریج ان پالیٹکس '' کے حوالہ جات بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر فاروق عادل نے پاکستان میں امریکی امداد کے تناظر میں ایک حوالہ دیا ہے جو کافی دلچسپ ہے ۔ امریکی امداد کیا ہوتی ہے؟ فیروز احمد نے اپنے مقالہ میں اسی سلسلے میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کا ایک بیان درج کیا ہے , امریکی صدر کہتے ہیں '' امریکی طریقہ کار کے اس پہلو پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ امریکا سامان او رمہارت کی صورت میں نئے ابھرتے ہوئے ملکوں کو جو امداد مہیا کرتا ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں اس کی مصنوعات او رٹیکنالوجی سے اہم اہنگی او رمستقل ضرورت کو پیدا ہو جائے تاکہ امدادی معاہدوں کا دورانیہ ختم ہوجانے کے بعد بھی ان مصنوعات کی مانگ برقرار رہے ۔''
اسی نقطہ کی بنیاد پر ہمیں امریکا سمیت دیگر ممالک کے امداد کو دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی امداد کے پیچھے دینے والے ملکوں کے سیاسی او رمعاشی مفادات یا امداد لینے والے ملکوں کو اپنے ماتحت کرنا یا ان پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہی ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی ملک ان کے حصار سے باہر نہ نکل سکے ۔
'' انصاف کا قتل'' شامل مضمون میں ہمیں پاکستان کی عدالتی تاریخ او ران کے فیصلوں کی جھلک ملتی ہے۔کتاب میں معروف قانون دان حامد خان کی کتاب '' پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ'' کے مختلف حوالہ جات شامل ہیں لیکن دو بیان کافی اہم ہیں ۔ اول بطور جج جسٹس منیر کی قابلیت او رعلمی حیثیت شک و شبہ سے بالا ہے , لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے ۔ دوئم آئین او رجمہور کی حکمرانی او رطاقت ور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی لیکن یہ ادار ہ بھی ان ہی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کشمکش میں حصہ دار بن گیا۔
یہ مضمون پاکستان میں حالیہ جاری عدالتی بحران او راس کے سیاسی مضمرات کو بھی سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کیسے ہمارا عدالتی نظام انصاف کے نظام سے دورچلا گیا ہے او راس کا نتیجہ سیاسی ,جمہوری اور آئینی یا قانونی کمزوریوں کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔
پاکستا ن میں فوجی مارشل لا لگانے یا فوجی مداخلتوں کے حوالے سے بھی ایک بحث موجود ہے ۔ اس کتاب میںپی این اے لیڈر اصغر خان کا وہ خط بھی شامل ہے جس میں انھوں نے فوجی قیادت کو بھٹو حکومت کے خاتمہ پر لکھا تھا او ریہ خط کئی ہزار فوجیوں میں تقسیم کیا گیا، لیکن جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور کے بقول اصغر خان کا یہ خط اتحاد کی قیاد ت کو اعتماد میں لیے بغیر لکھا گیا او ریہ عمل ان کا انفرادی تھا ۔جب کہ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول اس وقت حزب اختلاف کے راہنماوں نے فوج کے سربراہ سے ملاقات کی کوشش بھی کی او ربراہ راست یا بلاواسط دباو بھی ڈالا۔
اتحادی راہنماؤں اور کارکنوں نے بڑے تعداد میں آرمی چیف کو ٹیلی گرام، خطوط لکھے اور ان سے مطالبہ کیا وہ بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیں۔یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں مارشل لا ہوں یا فوجی مداخلتوں کی کہانی ان میں سیاست دانوں اور سیاسی سطح پر موجود جماعتوں کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ اور سہولت کاری بھی کھیل کا حصہ تھا او رہے۔
ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب کئی حوالوں سے اہم ہے جو ہماری سیاسی اور قانونی یا اسٹیبلیشمنٹ کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے ۔نوجوان نسل اور سیاست یا قانون یا ریاستی نظام کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے , او رمصنف مبارکباد کے مستحق ہیں ۔