کراچی میں گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی ستو کی فروخت عروج پر پہنچ گئی
جابجا ستو فروخت کرنے والوں کے ٹھیلے نظر آ رہے ہیں، گرمی سے بچنے اور جسم کو ٹھنڈا رکھنے کیلیے شہری ستو شوق سے پیتے ہیں
کراچی میں گرمی کے موسم کا آغاز ہوتے ہی ستو کی فروخت کا سیزن عروج پر پہنچ گیا ہے، شہر میں جابجا ستو فروخت کرنیوالوں کے ٹھیلے نظر آ رہے ہیں۔
ان ٹھیلوں پر شہریوں کی بڑی تعداد گرمی سے بچنے اور جسم کو ٹھنڈک فراہم کرنے کیلیے ستو شوق سے پیتی ہے، پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد کراچی آکر ستو فروخت کرنے کے کام سے وابستہ ہو گئی ہے اور ان لوگوں کے علاوہ مقامی افراد نے بھی سیزن کمانے کے لیے ستو کی فروخت کا کام شروع کر دیا ہے، ایکسپریس نے کراچی میں ستو کی فروخت کرنے والوں پر ایک سروے کیا، سروے کے دوران لیاقت آباد10نمبر پر ستو فروخت کرنیوالے کاریگر محمد سرور نے بتایا کہ ستو کا سیزن اپریل کے مہینے میں شروع ہوتا ہے اور یہ اگست تک جاری رہتا ہے، ستو کا سیزن کمانے کے لیے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سرائیکی کمیونٹی کی اکثریت مارچ کے آخری ہفتے میں کراچی پہنچ جاتی ہے۔
یہ لوگ سیزن میں روزگار کمانے کے لیے5 مہینے تک شہر کے مختلف علاقوں میں ستو فروخت کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ستو بازاروں، مارکیٹوں، چورنگیوں اور اہم شاہراہوں سمیت تفریح گاہوں کے اطراف میں فروخت کیا جاتا ہے، جہاں عوام کا مجمع زیادہ ہوتا ہے ، وہاں ستو کی فروخت عروج پر ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ ستو کے کام سے70 فیصد سرائیکی کمیونٹی اور30 فیصد دیگر کمیونٹی کے لوگ وابستہ ہیں، 3ہزار روپے سے ستو کی فروخت کا کام شروع کیا جا سکتا ہے، جو لوگ ستو ٹھیلوں پر فروخت کرتے ہیں ان میں سے90 فیصد ٹھیلے ماہانہ 1500 روپے کرائے پر حاصل کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اندرون ملک کے علاوہ ہیئر ڈریسر اور چنگ چی رکشہ چلانے والے سرائیکی افراد کی بڑی تعداد بھی ستو کی فروخت کے کام سے وابستہ ہو جاتی ہے، اس کام کا آغاز صبح 8 بجے کیا جاتا ہے جو رات 8 بجے تک جاری رہتا ہے، سخت محنت کے بعد اچھی بچت ہو جاتی ہے، بعض مرتبہ 1000 سے 1200 اور کبھی 500 روپے تک بچت ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ اندرون ملک سے کراچی آکر ستو فروخت کرنے والے افراد یہ سیزن کما کر واپس اپنے آبائی علاقوں میں لوٹ جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی کے عوام بہت شوق سے ستو پیتے ہیں اسی لیے یہ کام بے روزگار افراد کو 5 مہینے تک روزگار فراہم کرتا ہے، اس کام سے نہ صرف ان کے خاندانوں کی کفالت ہو جاتی ہے بلکہ سیزن کے دوران اتنی بچت کر لیتے ہیں کہ3 ماہ تک گھر بیٹھے روز مرہ کا خرچہ چل جاتا ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں ستو کے سیزن کے دوران 3 سے 4 ہزار افراد اس کی فروخت کا کام کرتے ہیں اور زیادہ تر افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہوتا ہے۔
کراچی میں گندم، چنے اور جو کا ستو فروخت ہوتا ہے، مقامی ستو فروش کا کہنا ہے کہ ستو کی فروخت سے قبل جوڑیا بازار، لیاقت آباد اور دیگر اشیائے خور و نوش کی بڑی مارکیٹوں سے جو، گندم اور چنے ہول سیل ریٹ پر خریدے جاتے ہیں، جو55 روپے کلو، گندم 60 روپے اور چنے 220 روپے کلو پر خریدے جاتے ہیں، ان کو چکی کا آٹا بنانے والی چھوٹی چکیوں پر پسوایا جاتا ہے، فی کلو پسوائی 5 سے10روپے دیے جاتے ہیں، پسوائی کے بڑے مراکز لیاقت آباد، ناظم آباد، کورنگی، لانڈھی، ملیر، رنچھور لائن، جوڑیا بازاراور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، ستو والے 3 روز کے لیے ان تینوں اشیا کو پسوا کر اپنے پاس ذخیرہ کر لیتے ہیں، پھر انھیں ستو کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ان ٹھیلوں پر شہریوں کی بڑی تعداد گرمی سے بچنے اور جسم کو ٹھنڈک فراہم کرنے کیلیے ستو شوق سے پیتی ہے، پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد کراچی آکر ستو فروخت کرنے کے کام سے وابستہ ہو گئی ہے اور ان لوگوں کے علاوہ مقامی افراد نے بھی سیزن کمانے کے لیے ستو کی فروخت کا کام شروع کر دیا ہے، ایکسپریس نے کراچی میں ستو کی فروخت کرنے والوں پر ایک سروے کیا، سروے کے دوران لیاقت آباد10نمبر پر ستو فروخت کرنیوالے کاریگر محمد سرور نے بتایا کہ ستو کا سیزن اپریل کے مہینے میں شروع ہوتا ہے اور یہ اگست تک جاری رہتا ہے، ستو کا سیزن کمانے کے لیے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سرائیکی کمیونٹی کی اکثریت مارچ کے آخری ہفتے میں کراچی پہنچ جاتی ہے۔
یہ لوگ سیزن میں روزگار کمانے کے لیے5 مہینے تک شہر کے مختلف علاقوں میں ستو فروخت کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ستو بازاروں، مارکیٹوں، چورنگیوں اور اہم شاہراہوں سمیت تفریح گاہوں کے اطراف میں فروخت کیا جاتا ہے، جہاں عوام کا مجمع زیادہ ہوتا ہے ، وہاں ستو کی فروخت عروج پر ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ ستو کے کام سے70 فیصد سرائیکی کمیونٹی اور30 فیصد دیگر کمیونٹی کے لوگ وابستہ ہیں، 3ہزار روپے سے ستو کی فروخت کا کام شروع کیا جا سکتا ہے، جو لوگ ستو ٹھیلوں پر فروخت کرتے ہیں ان میں سے90 فیصد ٹھیلے ماہانہ 1500 روپے کرائے پر حاصل کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اندرون ملک کے علاوہ ہیئر ڈریسر اور چنگ چی رکشہ چلانے والے سرائیکی افراد کی بڑی تعداد بھی ستو کی فروخت کے کام سے وابستہ ہو جاتی ہے، اس کام کا آغاز صبح 8 بجے کیا جاتا ہے جو رات 8 بجے تک جاری رہتا ہے، سخت محنت کے بعد اچھی بچت ہو جاتی ہے، بعض مرتبہ 1000 سے 1200 اور کبھی 500 روپے تک بچت ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ اندرون ملک سے کراچی آکر ستو فروخت کرنے والے افراد یہ سیزن کما کر واپس اپنے آبائی علاقوں میں لوٹ جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی کے عوام بہت شوق سے ستو پیتے ہیں اسی لیے یہ کام بے روزگار افراد کو 5 مہینے تک روزگار فراہم کرتا ہے، اس کام سے نہ صرف ان کے خاندانوں کی کفالت ہو جاتی ہے بلکہ سیزن کے دوران اتنی بچت کر لیتے ہیں کہ3 ماہ تک گھر بیٹھے روز مرہ کا خرچہ چل جاتا ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں ستو کے سیزن کے دوران 3 سے 4 ہزار افراد اس کی فروخت کا کام کرتے ہیں اور زیادہ تر افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہوتا ہے۔
کراچی میں گندم، چنے اور جو کا ستو فروخت ہوتا ہے، مقامی ستو فروش کا کہنا ہے کہ ستو کی فروخت سے قبل جوڑیا بازار، لیاقت آباد اور دیگر اشیائے خور و نوش کی بڑی مارکیٹوں سے جو، گندم اور چنے ہول سیل ریٹ پر خریدے جاتے ہیں، جو55 روپے کلو، گندم 60 روپے اور چنے 220 روپے کلو پر خریدے جاتے ہیں، ان کو چکی کا آٹا بنانے والی چھوٹی چکیوں پر پسوایا جاتا ہے، فی کلو پسوائی 5 سے10روپے دیے جاتے ہیں، پسوائی کے بڑے مراکز لیاقت آباد، ناظم آباد، کورنگی، لانڈھی، ملیر، رنچھور لائن، جوڑیا بازاراور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، ستو والے 3 روز کے لیے ان تینوں اشیا کو پسوا کر اپنے پاس ذخیرہ کر لیتے ہیں، پھر انھیں ستو کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔