ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ نہ ہونے پر پاکستانی آم کی ایران ایکسپورٹ خطرے سے دوچار

پاکستان ایران کو سالانہ30ہزار ٹن آم ایکسپورٹ کرتاہے، پابندی کی صورت میں پاکستان کو 1 کروڑ 65 لاکھ ڈالر نقصان ہوسکتا ہے

پاکستان میں ایک کمپنی میں کوالٹی کے اعتبار سے آم کی درجہ بندی کا منظر (فوٹو : انٹرنیٹ)

ایکسپورٹرز کی جانب سے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ نہ کیے جانے کی وجہ سے پاکستانی آم کی ایران کو ایکسپورٹ خطرے میں پڑگئی، ایران نے پاکستانی آموں کی کنسائمنٹ پر اعتراض عائد کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایرانی پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستانی قرنطینہ کو ارسال کردہ خط میں آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان سے ایران آنے والے آم کی کنسائنمنٹ کے معائنے سے پتا چل رہا ہے کہ پاکستان بغیر ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ ایران کو آم ایکسپورٹ کررہا ہے۔

ایرانی حکام کے مطابق پاکستانی آم مضر حشرات سے پاک کرنے کے ٹریٹمنٹ سے نہیں گزارے جارہے، حشرات کی موجودگی سے محفوظ بنانے کے لیے آم کی ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ نہیں ہورہی، ایران کو ایکسپورٹ کیے جانے والے آم کے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کو یقینی بنایا جائے۔

ایرانی حکام نے کہا ہے کہ پاکستانی پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ فائیٹو سینٹری سرٹیفکیٹ کے ساتھ ہر کنسائمنٹ کے ٹریٹمنٹ کے لیے بھی علیحدہ سرٹیفکیٹ جاری کرے ورنہ پاکستانی کنسائمنٹ قبول نہیں کریں گے۔

آم میں پھلوں کی مکھی کی موجودگی کے تدارک کے لیے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ سے گزارا جاتا ہے تاہم بعض پلانٹس آم کو پراسیس کیے بغیر ٹریٹمنٹ ہونے کے جعلی سرٹیفکیٹ جاری کردیتے ہیں جس سے ملک کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ایکسپورٹ کنسائمنٹ میں زندہ مکھیاں نکلنے کی صورت میں پاکستانی آم پر پابندی عائد ہونے کا خدشہ ہے۔


ایرانی حکام نے جولائی کے پہلے ہفتے میں ارسال کردہ مکتوب میں واضح کیا ہے کہ جولائی کے آخری ہفتے تک کے دوران پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ ہر کنسائمنٹ کے لیے ٹریٹمنٹ کے علیحدہ تصدیقی سرٹیفکیٹ پر عمل درآمد یقینی بنائے۔

ادھر آم کے ایکسپورٹرز کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی پلانٹ پروٹیکشن ڈپارمنٹ نے آم کی ایکسپورٹ کے سیزن کے عروج پر سخت ایس او پیز نافذ کردیے ہیں جن پر عمل درآمد دشوار ہے اور ایس او پیز پر پورا نہ اترنے والے پلانٹس کو کام کرنے سے روک دیا گیا جس سے پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہورہی ہے اور رواں ماہ کے دوران ایکسپورٹ میں 90 فیصد تک کمی آئی ہے۔

اس بارے میں رابطہ کرنے پر پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل عابد اللہ دتہ نے ایکسپورٹرز کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے 2015ء میں طے پانے والے تکنیکی پراسیجر پر ہی عمل درآمد کیا جارہا ہے یہ معیارات نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر رائج ہیں اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں ٹریٹمنٹ کرنے والے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو بھی ان معیارات اور پراسیجر پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ ایران پاکستانی آم کی بڑی مارکیٹ ہے، 20 ہزار ٹن کی ایکسپورٹ مارکیٹ کے اعتراضات دور نہ کیے جانے کی صورت میں ایران کو ایکسپورٹ بند ہونے سے پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ کا ہدف پورا کرنا دشوار ہوگا۔

پاکستان سے ایران کو 30 ہزار ٹن آم ایکسپورٹ کیا جاتا ہے معیارات پر عمل درآمد نہ ہونے اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں ایک کروڑ 65 لاکھ ڈالر کے نقصان کا سامنا ہوگا۔
Load Next Story