کراچی ڈیفنس کریک مرینہ منصوبے میں اربوں کی منی لانڈرنگ کا انکشاف
ملزمان نے جعلی بینک اکاؤنٹ کھولا، الاٹیز سے اربوں لے کر منی لانڈرنگ کی،20 برس بعد بھی انہیں قبضہ نہیں ملا، ایف آئی اے
کراچی ڈیفنس فیز 8 میں کریک مرینہ منصوبے کی آڑ میں خطیر رقم کی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے، ایف آئی اے نے اسکینڈل کی تحقیقات شروع کردیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان نے ڈیفنس فیز 8 میں کریک مرینہ کے نام سے ایک رہائشی منصوبے کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے بٹورے، بینک عملے کے ساتھ ملی بھگت کرکے جعلی اکاؤنٹ کھولا اور تین ارب روپے سے زائد کی رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان سے بھیجی۔
ایف آئی اے کے اینٹی منی لانڈرنگ ونگ کو متعدد الاٹیز کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی تھیں کہ انھوں نے ڈیفنس فیز 8 میں واقع کریک مرینہ منصوبے میں فلیٹس بک کرائے تھے، رقوم کی ادائیگی کے باوجود انہیں 20 سال گزرنے کے باوجود بلڈر مائن ہارٹ سنگاپور نامی کمپنی نے منصوبہ مکمل کرکے فلیٹس حوالے نہیں کیے۔
متاثرین نے معاملے پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کو بھی شکایت بھیجی جس پر کمیٹی میں بھی نوٹس ہوا اور اب الاٹیز کی شکایات پر ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔
ایف آئی اے کے انسداد منی لانڈرنگ ونگ کی اب تک کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوچکا کہ مائن ہارٹ سنگاپور نامی کمپنی نے کریک مرینہ منصوبے کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے بٹورے، بورڈ آف انویسٹمنٹ سے رجسٹریشن کرائے بغیر ہی بینک عملے کی ملی بھگت سے بینک اکاؤنٹ کھولا اور تین ارب روپے سے زائد کی رقم بیرون ملک منتقل کی۔
ایف آئی اے حکام نے بینکنگ کرائم کے تحت شہزاد نسیم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف الگ مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔ منی لانڈرنگ میں شہزاد نسیم اور عمر شہزاد کے ساتھ ندرت مند اور عائشہ وارثی بھی نامزد ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق مذکورہ ملزمان نے پاکستان سے بھاری رقوم بیرون ملک منتقلی میں منی لانڈرنگ کے تناظر میں سہولت کاری کی، کمپنی مالکان نسیم شہزاد اور ان کے بیٹے عمر شہزاد کا نام واچ لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان نے ڈیفنس فیز 8 میں کریک مرینہ کے نام سے ایک رہائشی منصوبے کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے بٹورے، بینک عملے کے ساتھ ملی بھگت کرکے جعلی اکاؤنٹ کھولا اور تین ارب روپے سے زائد کی رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان سے بھیجی۔
ایف آئی اے کے اینٹی منی لانڈرنگ ونگ کو متعدد الاٹیز کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی تھیں کہ انھوں نے ڈیفنس فیز 8 میں واقع کریک مرینہ منصوبے میں فلیٹس بک کرائے تھے، رقوم کی ادائیگی کے باوجود انہیں 20 سال گزرنے کے باوجود بلڈر مائن ہارٹ سنگاپور نامی کمپنی نے منصوبہ مکمل کرکے فلیٹس حوالے نہیں کیے۔
متاثرین نے معاملے پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کو بھی شکایت بھیجی جس پر کمیٹی میں بھی نوٹس ہوا اور اب الاٹیز کی شکایات پر ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔
ایف آئی اے کے انسداد منی لانڈرنگ ونگ کی اب تک کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوچکا کہ مائن ہارٹ سنگاپور نامی کمپنی نے کریک مرینہ منصوبے کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے بٹورے، بورڈ آف انویسٹمنٹ سے رجسٹریشن کرائے بغیر ہی بینک عملے کی ملی بھگت سے بینک اکاؤنٹ کھولا اور تین ارب روپے سے زائد کی رقم بیرون ملک منتقل کی۔
ایف آئی اے حکام نے بینکنگ کرائم کے تحت شہزاد نسیم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف الگ مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔ منی لانڈرنگ میں شہزاد نسیم اور عمر شہزاد کے ساتھ ندرت مند اور عائشہ وارثی بھی نامزد ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق مذکورہ ملزمان نے پاکستان سے بھاری رقوم بیرون ملک منتقلی میں منی لانڈرنگ کے تناظر میں سہولت کاری کی، کمپنی مالکان نسیم شہزاد اور ان کے بیٹے عمر شہزاد کا نام واچ لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔