ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
زندگی میں ہم کسی کو کوئی سکھ دیں یا نہ دیں، اس کے مرنے کے بعد اس کی روح کے سکھ کے لیے ہم بہت کوشش کرتے ہیں
دونوں خاندانوں کی خواتین آپس میں لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں... میت والا گھر تھا، چند لمحے پہلے تک وہاں خاموشی تھی، ہولے سے کوئی عورت سسکی لیتی، کوئی سوال کرتی اور گھر کی خاتون آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیتی۔
پھر عورتوں کا ایک جتھا سا اکٹھے اس آنگن میں داخل ہوا اور فضا تبدیل ہو گئی۔ گھر کی عورتیں حیرت زدہ ہوئیں اور پھر اپنی اپنی جگہ پر اٹھ کر کھڑی ہو گئیں ۔ آنے والی آگے بڑھیں اور جس کو جو قریب پڑی ، وہ اس سے لپٹ گئی ۔
ہم باقی لوگ اس منظر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے، ایسی انہونی کب کسی نے سوچی تھی۔ مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ ان دو خاندانوں میں اختلافات کب اور کس وجہ سے ہوئے تھے مگر ہم نے ہمیشہ ان دونوں خاندانوں میں کھنچاؤ دیکھا، آپس میں بول چال نہ تھی اورتو اور شادی اور غمی پر بھی ملنا جلنا نہ تھا۔
آپس میں تو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا مگر کسی موقع پر برادری کے کسی گھر میں غمی یا خوشی کا موقع ہوتا تو دونوں خاندانوں کو جانا پڑتا تھا، جانے وہ کس طرح غیر محسوس طریقے سے آپس میں منصوبہ بندی کر لیتے تھے کہ کہیں بھی دونوں ایک وقت میں اکٹھے نہ ہو جائیں۔
اصل مسئلہ یہ تھاکہ ان دو خاندانوں میں آپس میں وٹہ سٹہ کی کافی شادیاں ہوئی تھیں جس کے باعث کئی قریبی رشتہ داروں کو آپس میں ملنے کی اجازت نہ تھی، اس میں سگے بھائی، کئی باپ اور بیٹیاں، کئی خالہ بھانجیاں اور کئی بھتیجے اور بھانجے شامل تھے۔
شاید جی چاہتا بھی ہو گا مگر خاندان کے بڑوں کی انا کی ناک اتنی اونچی اور اکڑ والی تھی کہ اس میں جھکنے یا مڑنے کی خاصیت ہی نہ تھی۔ مرحومہ اس خاندان کی ایک نہایت سمجھ دار اور بزرگ خاتون تھیں، ہر اختلاف کے باوجود وہ ہر کسی سے ملتیں اور اس بات کی پروا نہ کرتیں کہ کون ان سے ناراض ہوتا ہے اور کون راضی۔ حتی کہ اپنے گھر میں بھی وہ کسی کی پابندی کو خاطر میں نہ لاتیں اور ہمیشہ کہتیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے قطعء رحمی کو گناہ کہا گیا ہے۔
میں اس کی رضا کے لیے سب کو ملتی ہوں۔ سوچیں کہ یوں آپ سب خونی رشتے آپس میں ناراض ہو کر کتنے سالوں سے آپس میں نہیں ملتے، اللہ تعالی کا امر ہے کہ تین دن سے زائد آپ اپنے بھائی سے ناراض نہیں رہ سکتے۔ میں اس بات کی پروا نہیں کرتی کہ میرا کون سا رشتہ دار مجھ سے ناراض ہوتا ہے کیونکہ مجھے اللہ کی رضا مقصود ہے۔
مرحومہ نے سارے خاندان میں اپنی عزت بنا کر رکھی اور حتی الامکان کوشش کی کہ اس خاندان کے اختلافات پر بیٹھ کر بات کی جائے اور انھیں رفع کر دیا جائے، بہت زیادہ نہ سہی مگر آپس میں اتنا میل جول رکھیں کہ ناراضی ختم ہو جائے۔ان کی ساری کوششیں بے کار گئیں اور اسی کوشش کو وہ اپنی آخری سانس تک جاری رکھتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔
وہ ان دونوں خاندانوں کے لیے ایک جیسی اہم تھیں سو اس خاندان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ دونوں خاندانوں نے یہ سوچے بغیر کہ وہاں اس وقت دوسرا خاندان ہو گا، ان کے گھر کی راہ لی۔ کوئی صلح نامہ نہیں ہوا، کسی نے کوشش نہیں کی کہ ان کے مابین اختلافات کو ختم کیا جائے۔
سامنے آتے ہی دونوں خاندان نمک کی ڈلی کی طرح گھل گئے، دلوں میں محبت تھی اور خون کے رشتوں میں سالوں کی دوری تھی، کسی ثالث کی ضرورت نہ پڑی اور دونوں خاندان کی خواتین اور مرد بھی آپس میں گلے مل مل کر رو رہے تھے، دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے لوگ، اس عظیم خاتون کی وفات پر نہیں بلکہ اپنی اناؤں کو لے کر رو رہے تھے اور وہ جو ساری عمر انھیں ملانے کی کوشش کرتی رہیں، اس وقت وہ ایک جیتی جاگتی خاتون کی بجائے ، میت بنی ہوئی تھیں۔
جتنی کوششیں انھوں نے اس خاندان کے مرد وزن کو سمجھانے کی کی تھیں، اتنی کوششیں کی جاتیں تو پاکستان اور ہندوستان کشمیر کے مسئلے کو حل کر لیتے۔ سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ کسی کو یہ تک علم نہیں تھا کہ دو خاندانوں کے بیچ اختلاف تھا کس بات پر اور کب ہوا تھا، وہ تو بس نسل در نسل اپنے بزرگوں کی میراث کی ناراضی کو نبھا رہے تھے۔
کہیں جو کسی کا آمنا سامنا ہو جاتا تو ایک دوسرے کو گھوری مارنا ہر فریق کا فرض تھا۔اب وہ سب گلے مل رہے تھے جن کے ہاتھ تک ملانے کے لیے یہ بے چاری دعائیں اور کوششیں کرتی رہی تھیں۔ وہاں بیٹھے کچھ لوگ اس پر تبصرہ کر رہے تھے کہ آج مرحومہ کی روح خوش ہو رہی ہو گی کہ ان کے دونوں خاندان آج یکجا ہو کر بیٹھے ہیں اور آپس میں صلح ہو گئی ہے۔
زندگی میں ہم کسی کو کوئی سکھ دیں یا نہ دیں، اس کے مرنے کے بعد اس کی روح کے سکھ کے لیے ہم بہت کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کہ ہمارے ہاں غریب بھوک سے مر جائے مگر اس کے مرنے، قل، دسویں اور چہلم کے کھانے بہت فراغ دلی سے بنائے اور کھائے جاتے ہیں۔ جنھوں نے اس بزرگ خاتون کو زندگی میں عزت نہ دی اور مل بیٹھنے کی خوش خبری سے محروم رکھا وہ اس وقت خوش تھے کہ انھوں نے ان کی روح کو خوش کردیا تھا۔
کسے معلوم کہ ان کی روح اس وقت کہاں تھی اور ان کی میت کے سرہانے وہ لوگ صلح کر کے کسے خوش کر رہے تھے۔ہم سب ایسے ہی انتہا پسند ہیں، اپنی اناؤں کے پرچم بلند سے بلند رکھنے کے لیے کوشاں ۔ ناک نیچی نہ ہو، سلام میں پہل کرنا بھی اپنی ہتک لگتا ہے اور کوئی ناراض ہو تو اس سے ہم دس گنا زیادہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ غلطی کر کے بھی معافی مانگنا ہمیں کوئی مشکل چوٹی سر کرنے جیسا لگتا ہے۔
عام طور پر ہم ناراض ہوتے ہیں تو اعلان کرتے ہیں کہ فلاں خاندان کے ساتھ ہمارا جینا مرنا ختم۔ دلوں میں فاصلے اور دماغوں میں کدورت بڑھ جاتی ہے، اتنی انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ کوئی امید اور لچک نہیں ہوتی ہمارے رویوں میں۔ رشتوں کے بیچ جالے لگ جاتے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ خاندان میں کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ناراضی کس بات کی ہے اور کب سے ہے۔ بس خاندان کی روایت کے طور پر نسل در نسل ان ناراضی کو نبھانا ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے ہم انسانوں کو رشتوں کی ڈور میں باندھا اور تعلقات کو بہتر بنانے اور اجتماعی زندگیوں کے گزارنے کے اصول ہمیں بتائے مگر جب ہم لڑنے جھگڑنے پر آتے ہیں تو سارے اصول ایک طرف رکھ کر لڑتے ہیں اور لکیریں کھینچتے ہیں تو قریبی ترین رشتوں کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔دنیا کتنا عارضی ٹھکانہ ہے، پلک جھپکتے میں زندگی شروع ہو کر تمام ہو جاتی ہے۔
بیچ کے وقت میں اگر کچھ پیچھے رہ جاتا ہے تو وہ ہے ہمارا زندگی گزارنے کا انداز، اپنی شخصیت کے جو اثرات ہم پیچھے چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ یاد رہتے ہیں۔ میں اس خاتون کی میت کے گرد بیٹھ کر نسلوں کے بعد آپس میں مل بیٹھنے والے خاندان کو دیکھ رہی تھی، اب بھی مل گئے تو اچھا ہے مگر کیا تھا جو وہ ان کی زندگی میں، ان کی بات مان کر آپس میں صلح کر لیتے۔ دل میں یہی شعر آ رہا تھا۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!!