محرم الحرام میں امن و امان یقینی بنانے کیلئے رواداری کو فروغ دینا ہوگا

تمام مسالک کے علماء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

فوٹو : وسیم نیاز

محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مسالک کے علماء کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی
(چیئرمین پاکستان علماء کونسل )

پاکستان علماء کونسل نے محرم الحرام میں امن و امان کے قیام ، بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کیلئے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کی مشاورت سے پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق جاری کیاہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ ، خطبائ، ذاکرین ، واعظین ، پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق کی مکمل پابندی کریں گے۔ کسی بھی خطیب ، ذاکر یا واعظ کے ضابطہ اخلاق کے خلاف عمل کی تائید و حمایت نہیں کی جائے گی۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ ہر سطح پر تعاون کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں پاکستان علماء کونسل نے رابطہ کمیٹی اور رابطہ آفس بھی تشکیل دے دیا ہے۔

ضابطہ اخلاق کے نکات درج ذیل ہیں:

1)فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اسلامیہ کے احکام کے منافی ، فسادفی الارض اور ایک قومی و ملی جرم ہے۔

2)تمام مسالک کے علماء و مشائخ اور مفتیان پاکستان، انتہا پسند انہ سوچ اور شدت پسندی کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔

3)انبیاء کرامؑ، صحابہ کرام ؓ ،خلفائے راشدینؓ، ازواج مطہراتؓاور اہل ِبیت اطہارؓکے تقدس کو ملحوظ رکھنا ایک فریضہ ہے۔ جو شخص ان مقدسات کی توہین و تکفیر کرے گا تمام مکاتب فکر اس سے برات کرتے ہیں اور ایسے شخص کے خلاف قانون کو فوری حرکت میں آنا چاہیے۔

4)علماء و مشائخ اور مفتیان عظام کا فریضہ ہے کہ درست اور غلط نظریات میں امتیاز کرنے کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دیں جبکہ کسی کو کافر قرار دینا (تکفیر) ریاست کا دائرہ اختیار ہے جو ریاست شریعت اسلامیہ کی رو سے طے کرے گی۔

5)پاکستان کے تمام غیر مسلم شہر یوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہواروں کے موقع پر اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور جو حق غیر مسلم شہریوں کو آئین پاکستان نے دئیے ہیں ان کو کوئی فرد ، گروہ یا جماعت سلب نہیں کر سکتی۔

6)جو غیر مسلم اسلامی ریاست میں امن کے ساتھ رہتے ہیں انہیں قتل کرنا جائز نہیں بلکہ گناہ ہے اور جو آئین پاکستان اور قوانین پاکستان کی خلاف ورزی کرے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسے قانون کے دائرے میں سزا دے۔

7)اسلام کی رو سے خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنا سب کے لئے ضروری ہے۔خواتین کو وراثت میں حق دینا اور خواتین کی تعلیم کا حکم شریعت اسلامیہ نے دیا ہے۔

8)محرم الحرام ، صفر المظفر کے ایام عزا میں پاکستان کے تمام شہریوں اور مسلمانوں کو مقررہ مجالس ، کانفرنسز ، اجتماعات منعقد کرنے کی حسب قانون آزادی ہو گی ، نیز قانون کے دائرے میں چادر و چار دیواری کے تقدس کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔

9)تمام اہل محلہ اور محبان اہل بیت علیہم السلام اور عاشقان صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ باہمی برداشت کے ساتھ وطن اور اسلام دشمنوں کی سازشوں پر پوری نظر رکھیں۔ تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کے ساتھ ان کے نظریہ اور عقیدہ کے مطابق قانونی اور آئینی طور پر ایام کربلا منانے کیلئے بھرپور مدد کریں گے۔

10)تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ، ذاکرین عظام ، خطباء امت کو جوڑنے کا فریضہ ادا کریں گے۔ مفسدین اور تخریب کاروں پر نظر رکھ کر موقعہ پر انتظامیہ کے حوالے کریں گے۔

11)یہ امر پہلے سے طے شدہ ہے کہ ہر مسلک کے عالم ، واعظ ، خطیب ، ذاکر کو اپنے مسلک کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے عقائد ، اصول و فروع کو بیان کرے۔ انداز بیان میں اس بات کا خیال رکھے کہ تمام عالم اسلام کی مذہبی و دینی شخصیات کی توہین نہ ہو اور دوسروں کے عقائد و نظریات کو طعن تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں۔

میں ملک کے تمام سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ سے اپیل کرتا ہوںکہ وہ محرم الحرام سے قبل ، بعد اور دوران پیغام پاکستان کی روشنی میں مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کی مکمل تشہیر کریں اور وحدت اور اتحاد کے پیغام کو عام کرنے میں معاون بنیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا پر کسی بھی ایسی تحریر و تقریر جس سے اشتعال پیدا ہو ، کے خلاف متعلقہ حکومتی اداروں کو فوری طور پر کارروائی کرنی چاہیے۔

مفتی رمضان سیالوی
(خطیب داتا دربار لاہور)

اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم نے ہر انسان کی آزمائش کرنی ہے۔ اس کے ایمان اور استقامت کا امتحان لینا ہے۔ یہ آزمائش مختلف طریقوں سے ہے جس میں جان ، مال، اولاد، بھوک، پیاس،دشمن و دیگر طرح کا ڈر شامل ہے۔ حضور نبی ﷺ کی حدیث پاک ہے کہ مومنوں میں سے جو انبیاء ؑ کے جتنا زیادہ مشابہ ہوتا ہے، اس کے ایمان کا اتنا زیادہ امتحان ہوتا ہے۔

انبیاء ؑ سے مشابہت کا مطلب ہے کہ نبوت، تبلیغ اور اسلام کی اشاعت کی ذمہ داریوں،علم، اس پر عمل اور اس کے ابلاغ اورا سلام کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے جدوجہد کرنا، انبیاء ؑ کے مشن اور کام کو آگے لے کر چلنا ہے۔ جو انبیاء ؑ کے ساتھ ان کے کام میں جتنی زیادہ مشابہت رکھے گا اس کا امتحان اتنا ہی سخت ہوگا۔

اگر ہم امام عالی مقام سید الشہداء حضرت امام حسینؓ کاذکر کریں تو اللہ تعالیٰ نے دشمن، مسافت، جان، مال، اولاد ، ہر چیز کے ذریعے سے انؓ کی آزمائش کی۔ آپؓ چونکہ نبی پاکؐ، حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ کی تربیت کا ثمر ہیں، اس لیے ہر امتحان میں 100 فیصد پورے اترے۔


امام حسینؓ صرف نبی پاکﷺ کے مشن کے ہی مشابہ نہیں بلکہ صورت، سیرت، ظاہر اور باطن ، ہر اوصاف حمیدہ میں سوائے نبوت کے ، حضورﷺ کا عکس ہیں۔امام حسینؓ نے حق و باطل کا عجب معیار مقرر فرمایا۔ دنیا کے معیارات کے مطابق یزیدیوں نے سمجھا کہ وہ فتح یاب ہوئے لیکن آپؓ اپنی جان اور اپنے پورے خاندان کو اللہ کے راستے میں قربان کرکے قیامت تک کیلئے فاتح اور سید الشہداء قرار پائے۔

امام حسینؓ قیامت تک حق، فتح، عبادت، تقویٰ، کامیابی، محبت، قرآن پڑھنے، سمجھنے، پڑھانے اور اسلام کو بلند کرنے کا معیار ٹہرے۔ اسلام کو زندہ کرنے اور اسلام کو عزت و وقار دینے والے قرار پائے۔

حافظ زبیر احمد ظہیر
(امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)

اسلامی سال کی ابتداء محرم الحرام کے مہینے سے شروع ہوتی ہے۔ اس مقدس ماہ کی عظمت، ادب و احترام ابتدائے آفرینش سے ہے۔کتاب اللہ میں مہینوں کی گنتی 12کی ہے۔ ان میں 4 حرمت و ادب والے مہینے ہیں جن میں سے ایک محرم الحرام ہے۔ یکم محرم الحرم کو سیدناعمر فاروق اعظمؓ کی شہادت کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا۔

یکم محرم الحرام کو ہی سیدنا عثمان غنیؓ کی خلافت آغاز ہوا۔ محرم الحرام کا مہینہ ادب، احترام اور امن و سلامتی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ترین روزہ محرم کا ہے۔

تمام مسلمانوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس مبارک اور مقدس مہینے کا احترام اور ادب یقینی بنائیں اور تمام انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی عزت، احترام اور توقیر اپنے لیے واجب قرار دیں، دوسروں کے جذبات مجروح کرنے سے گریز کریں۔ سب سے محبت اور پیار کا مظاہرہ کریں، نفرت اور تعصب، قدورت اور کینہ کو قریب نہ آنے دیں۔

روئے زمین کے مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ اتحاد امت پیدا کریں اور مسلمانوں میں ہر طرح کی تفرقہ بازی اور اختلافات پھیلانے سے گریز کریں۔ علماء کرام، مشائخ عظام کے ساتھ ساتھ عوام الناس بالخصوص ایسے افراد جو مجالس، محافل ، کانفرنسز اور سیمینارز منعقد کرتے ہیں، کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شرپسندوں پر خصوصی نظر رکھیں تاکہ فرقہ واریت کا ناسور ہمارے امن و سلامتی کیلئے خطرہ نہ بنے۔ منبر و محراب سے امن و ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔

محرم الحرام میں تمام فریقین کو مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے۔ امن و سلامتی یقینی بنانے کیلئے تمام اداروں، انتظامیہ اور پولیس سے تعاون کیا جائے۔ خلفائے راشدینؓ ، گھرانہ رسولﷺاور اہل بیتؓسے عقیدت اور محبت کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ ان کا سیرت و کردار ہمارے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کی سیرت، کردار اور زندگیوں کا مطالعہ کریںاور عمل پیرا ہوں۔

سیدنا عمر فاروق اعظمؓ ، عثمان غنیؓ، شہدائے کربلاؓ، نواسئہ رسول جوانان جنت کے سردار حضرت حسین ابن علیؓ ، سب نے دین اسلام ، قرآن کی حفاظت اور امن و امان کے قیام کیلئے ہر طرح کے ظلم و جبر کا خاتمہ کرنے کیلئے قربانیاں دیں۔ ہمیں ان عظیم قربانیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ہمیں ان کی پیروی کرتے ہوئے چاہیے کہ اللہ کے قرآن اور رسول اللہﷺ کی احادیث کے مطابق عین دین اسلام پر عمل پیرا ہوں اور پوری دنیا کو امن و سلامتی اور محبت کا گہوارہ بنا دیں۔

حافظ کاظم رضا نقوی
(مرکزی رہنما شیعہ علماء کونسل)

امام حسینؓ امن کی خاطر کربلا گئے لہٰذا ان کے ماننے والوں کو چاہیے کہ فساد سے بچیں اور امن کو فروغ دیں۔ بین المسالک ہم آہنگی میں شیعہ سنی اکابرین کے ساتھ ساتھ دیگر مسالک کے اکابرین بھی کام کر رہے ہیں اورامن و محبت کا پیغام دے رہے ہیں۔ انسان سے محبت ہی دراصل انسانیت ہے۔

مولا علیؓ نے اپنی آخری وصیت میں ظالم سے نفرت اور مظلوم سے محبت کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ہمیشہ ظالم کے خلاف رہنا چاہے کوئی بھی ہو اور مظلوم کے حق میں رہنا چاہے کوئی بھی ہو، یہ میرا حکم نہیں وصیت ہے۔ کوئی بھی ہو سے مراد تمام انسان بغیر رنگ و نسل، مذہب کی تفریق کے ہیں، اس میں شیعہ، سنی، ہندو ، مسیحی تمام انسان شامل ہیں۔ یہی قرآن پاک اور رسول پاکﷺ کا پیغام ہے۔ یہی شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے بھی کہا کہ

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں امن کی جتنی ضرورت اب ہے، پہلے کبھی نہیں تھی لہٰذا تمام مسالک کے علماء کو متحد ہونا ہوگا۔ یہی علامہ اقبالؒکی فکر تھی۔ انہوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ ایک ہوجاؤ، تم خود ایک بڑی طاقت ہو۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی زندگی میں ہی اشارہ دے دیا تھا کہ

طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

آج عالم اسلام اکٹھا ہو رہا ہے۔ سعودی عرب، ایران، ترکی، سب متحد ہو رہے ہیں، مسلمان ممالک ایک طاقت کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں تمام مسالک کے ماننے والوں کو چاہیے کہ آپس کے معمولی اختلافات بھلا کر پاکستان کی خاطر اکٹھے ہوجائیں۔ بہت عرصہ پہلے عراق کے ایک بڑے عالم پاکستان آئے تو انہوں نے یہاں اپنے خطاب میں کہا کہ دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنے کو تیار ہے اور تم ہاتھ باندھنے اور کھولنے پر لڑ رہے ہو۔ سب ہی اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہمیں دشمن اسلام اور دشمن پاکستان کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔

اس حوالے سے بزرگ علماء نے بہترین فارمولا دیا ہے کہ اپنا مذہب چھوڑو نہ، دوسرے کے مذہب کو چھیڑو نہ۔ میرے نزدیک جو کوئی اپنے عقیدے کے مطابق کرنا چاہتا ہے، اسے آزادی ہونی چاہیے۔ پاکستان اسی لیے آزاد کرایا گیا تھا کہ یہاں سب مل کر رہیں اور سب کو آزادی حاصل ہو۔ ہمیں چاہیے کہ امام حسینؓ کے امن کے پیغام کو پھیلاتے ہوئے آپس میں محبت پیدا کریں۔ ایک دوسرے سے پیار و محبت، اسلام اور ہمارے ایمان کی نشانی ہے۔ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اسے کہتے ہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے اجلاس بلایا جس میں ہم نے بھی شرکت کی۔ اسی طرح آئی جی پنجاب کے ساتھ بھی ہماری میٹنگ ہوئی ہے جس میں یوم عاشور پر سکیورٹی انتظامات پر گفتگو ہوئی۔ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے اگرچہ اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر اس میں ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔ کوئی کہیں دور سے شکایت کر دے تو ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حکومت نے دہشت گردی پر قابو پالیا ہے، ہمیں یقین ہے کہ اس مرتبہ کوئی افسوسناک واقعہ نہیں ہوگا۔ وزیرداخلہ نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ سکیورٹی کے بہترین انتظامات کیے جائیں گے ۔ ہمارے خطیب، ذاکر اور واعظ فساد پھیلانے والوں کو خود ہی روکتے ہیں اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ تمام مسالک کے اکابرین بھی فساد پھیلانے والوں کو روکیں، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
Load Next Story