اسکول لوگو والی کاپیاں والدین پر اضافی مالی بوجھ

اسکول لوگو والی کاپیوں پر لکھنے سے کیا طلبا کی ذہنی استعداد، تعلیمی کارکردگی اور دیگر مہارتوں میں زیادہ بہتری آتی ہے؟


زین الملوک July 27, 2023
پرائیوٹ اسکول اپنے لوگو والی کاپیاں خریدنے کےلیے والدین کو مجبور کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

تعلیم افراد اور معاشروں کے مستقبل کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اسکول کے طلبا کےلیے تجویز کردہ کتابوں اور اسٹیشنری کا استعمال ان کے سیکھنے اور تعلیمی کارکردگی کو آسان بنانے کےلیے ضروری ہے۔ تاہم! پاکستان کے اسکولوں میں والدین اور طلبا کو مخصوص کتابوں کی دکانوں پر جاکر اسکول لوگو (school logo) اور اسکولوں کے ناموں کے ساتھ والی کاپیاں خریدنے کے عمل نے والدین پر مالی بوجھ اور طلبا کی تعلیمی ترقی پر اس کے اثرات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔


راقم کے دو بچے الگ الگ اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ایسے کتنے ہی والدین ہوں گے جن کے بچے ایک ہی اسکول کے بجائے متعدد اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہوں گے۔ ذرا تصور کیجیے کہ الگ الگ اسکولوں سے بچوں کی کتابوں اور اسٹیشنری کی الگ الگ فہرستیں موصول ہوں اور پھر کہا جائے کہ شہر کی مختلف سمتوں میں موجود مخصوص دکانوں پر ہی مجوزہ کتب اور کاپیاں دستیاب ہوں گی اور آپ ان 'منتخب کردہ دکانوں' سے ہی یہ اشیا خریدنے کے پابند ہیں۔ والدین کےلیے یہ کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔


راقم نے اپنے ایک بچے کے اسکول کے ایک اعلیٰ افسر سے مؤدبانہ اور عاجزانہ طور پر دریافت کیا کہ کیا مارکیٹ میں موجود عام کاپیوں کی نسبت ان کے اسکول کی لوگو والی کاپیوں پر لکھنے سے طلبا کی ذہنی استعداد، تعلیمی کارکردگی اور دیگر مہارتوں میں زیادہ بہتری آتی ہے؟ یہ بے وقت کی راگنی اور غیر متوقع سوال اُن کے ذوقِ سماعت پر گراں گزرا، وہ ششدر رہ گئے اور ان سے کوئی منطقی جواب نہیں بن پایا۔


تجویز کردہ کتب اور اسٹیشنری کی اہمیت


تجویز کردہ کتابوں اور اسٹیشنری کو نصاب اور سیکھنے کے مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کےلیے احتیاط سے تیار کیا جاتا ہے۔ انھیں متعلقہ شعبوں کے ماہرین نے جامع مواد فراہم کرنے کےلیے مرتب کیا ہے جو کمرۂ جماعت میں تدریس و تعلم کی تکمیل میں مددگار ہیں۔ یہ وسائل طلبا کی مضامین کی سمجھ میں اضافہ، خود سے مطالعہ کی حوصلہ افزائی، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ تجویز کردہ مواد کو استعمال کرتے ہوئے طلبا سیکھنے کےلیے ایک منظم انداز اپنا سکتے ہیں جس سے تعلیمی کارکردگی میں بہتری متوقع ہے۔


اسکول لوگو والی مہنگی کاپیاں


پاکستانی تعلیمی منظرنامے میں بہت سے اسکولوں نے کتابوں کی مخصوص دکانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے، جو اسکول کے لوگو اور ناموں والی کاپیاں اور اسٹیشنری کی دیگر اشیا فروخت کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ عمل اکثر مارکیٹ میں دستیاب دیگر اسی طرح کی اشیا کے مقابلے میں بہت زیادہ قیمت والی مصنوعات کا باعث بنتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، والدین ان لوگو برانڈ والی کاپیوں پر نمایاں طور پر زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں، جس سے غریب خاندانوں پر غیر ضروری مالی دباؤ پڑتا ہے۔


طلبا کے سیکھنے اور تعلیمی کارکردگی پر اسکول لوگو والی کاپیوں کا اثر


اسکول لوگو والی مہنگی کاپیوں کا استعمال طلبا کے سیکھنے یا تعلیمی کارکردگی میں خاطر خواہ بہتری کی ضمانت نہیں دیتا۔ تعلیم بنیادی طور پر تدریس کے معیار، سیکھنے کے عمل میں فعال شرکت اور تعلیمی میدان میں معیاری علم و ہنر حاصل کرنے کی ترغیب سے متعلق ہے۔ مہنگی اسٹیشنری ان عوامل کے حصول میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ اس کے بجائے یہ والدین پر جو مالی بوجھ ڈالتی ہے وہ طلبا کےلیے تناؤ اور خلفشار پیدا کرسکتی ہے جو ان کی مجموعی کارکردگی میں رکاوٹ ہے۔


والدین کےلیے زحمت


شہروں کے بکھرے ہوئے مقامات پر ان مخصوص کتابوں کی دکانوں کی جغرافیائی پوزیشن والدین کےلیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ عام طور پر والدین کی اکثریت اسکول کے قریبی علاقوں میں رہتی ہے، تاہم! یہ دکانیں بہت دور واقع ہوتی ہیں۔ ان تک پہنچنے کےلیے آٹو رکشہ، ٹیکسی، چنگچی، ذاتی سواری یا پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف والدین کےلیے اس پورے عمل کی قیمت بلکہ ان کے قیمتی وقت کا ضیاع، ان کی زندگیوں میں غیر ضروری تناؤ اور پریشانی بھی بڑھ جاتی ہے۔


افراتفری سے بچنے کےلیے تجویز کردہ حل


موجودہ نظام سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کےلیے، کئی عملی حل نافذ کیے جاسکتے ہیں:


اسکول لوگو اور ناموں والی کاپیوں سے اجتناب: کاپی کاپی ہوتی ہے چاہے اس پر کسی اسکول کا نام درج ہو یا نہیں۔ اسکولوں کو چاہیے کہ کاپی کا حجم یا صفحات کا تعین کرکے والدین اور بچوں کو مطلع کریں تاکہ وہ ارزاں نرخوں میں بغیر اسکول لوگو والی کاپیاں خرید لیں۔ نیز اسکول تجویز کردہ کتابیں اور اسٹیشنری فروخت کرنے کےلیے والدین سے بات کرکے اسکول کے نزدیک دکانوں میں کہیں یہ اشیا رکھوا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں والدین یا دیگر رضاکار اسکول کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں جس سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور والدین کےلیے تکلیف میں کمی آئے گی۔


متعدد پبلشرز اور دکان دار: اسکولوں کو والدین کو کتابوں کی مخصوص دکانوں تک محدود رکھنے کے بجائے متعدد دکانداروں سے تجویز کردہ کتابیں اور اسٹیشنری خریدنے کی اجازت دینی چاہیے۔ یہ اقدام صحت مند مسابقت کی حوصلہ افزائی کرے گا جس سے مناسب قیمتوں پر کتابیں اور اسٹیشنری دستیاب ہوں گی۔ نیز اسکول اور والدین کےلیے محلوں یا اسکول کے قریب بہتر رسائی حاصل ہوگی۔


ڈیجیٹل پلیٹ فارم: اسکول تجویز کردہ کتابوں کی فہرست اور اسٹیشنری فراہم کرنے کےلیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم اپنا سکتے ہیں۔ اس سے والدین ضروری اشیا کے بارے میں باخبر ہوں گے اور آسانی سے آن لائن خرید سکتے ہیں۔ اس سے والدین اور طلبا کا قیمتی وقت بچنے کے ساتھ ساتھ غیر ضروری مشقت سے بھی چھٹکارا ملے گا۔


اکھٹی اور زیادہ تعداد میں خریداری: اسکول براہِ راست سپلائرز سے گفت و شنید کرکے تجویز کردہ مواد کی بڑی تعداد میں بہتر قیمتوں پر خریداری اور نسبتاً کم لاگت کے فوائد والدین تک پہنچانے پر غور کرسکتے ہیں۔ یہ خدمت اسکولوں کی طرف سے والدین کےلیے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہوگی۔


شفافیت اور جواب دہی: اسکولوں کو دکانداروں کی طرف سے فراہم کردہ اشیا کے معیار اور ایک ہی وقت میں تمام اشیا والدین کو فراہم کرنے کی باقاعدگی سے نگرانی کرنی چاہیے۔ یہ دکان داروں کو جواب دہ بنائے گا اور نامکمل اشیا کی فراہمی یا والدین کی جانب سے دکانوں کے دوبارہ چکر لگانے کی اذیت کو کم کرے گا۔


اسکول کے طلبا کےلیے تجویز کردہ کتابوں اور اسٹیشنری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم! پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مہنگے لوگو برانڈڈ مصنوعات کی تشہیر کا عمل والدین کی مالی بہبود کو منفی طور پر متاثر کررہا ہے اور کہیں سے بھی طلبا کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر نہیں کرتا۔ اسکول لوگو والی کاپیوں سے اجتناب، متعدد پبلشرز اور دکان داروں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، زیادہ مقدار میں خریداری اور دکان داروں سے جواب دہی سے اسکول موجودہ نظام کی وجہ سے والدین کےلیے پیدا ہونے والی پریشانی کو کم کرسکتے ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف والدین کو فائدہ پہنچائیں گے بلکہ طلبا کےلیے سیکھنے کا ایک سازگار ماحول بھی پیدا کریں گے۔ نتیجتاً ان کی تعلیمی کامیابی اور مجموعی طور پر فلاح و بہبود کو فروغ دیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں