جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کے چیلنجز
جمہوریت کی ایک بنیاد آئین ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری سے جڑی ہوتی ہے
پاکستان کی ترقی ، خوشحالی اور شہریوں سمیت کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کی ضمانت کا مستقبل ایک مضبوط جمہوریت اور ایک مضبوط معاشی ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے۔
دنیا بھر کے سیاسی مفکرین کے بقول اس وقت دنیا میں جمہوریت ہی وہ نظام ہے جو لوگوں کو ترقی کے مواقع دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔بالخصوص شہری آزادیاں ، اظہار رائے اور ایک متبادل نقطہ نظر رکھنے پر تحفظ اور اپنی مرضی و منشا کے مطابق اپنے فیصلے کرنے کی آزادی دیتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت یا آمرانہ سطح کے نظام ہیں وہاں جمہوری نظام کو بنیاد بنانے پر زور دیاجاتا ہے ۔کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ آج کے حالات میں یہ ہی نظام ہمار ے لیے نئے سیاسی اور معاشی سطح کے امکانات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم نیم مردہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں جمہوریت ابھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے ۔ ہمیں تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہاں جو جمہوری نظام ہے اسے خارجی مسائل کے ساتھ ساتھ داخلی جمہوری نظام سے بھی بڑے خطرات لاحق ہیں۔
کیونکہ جب ہم مجموعی طور پر '' جمہوری نظام کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار یا ذاتیات پر مبنی سیاست یا مفادات '' کے تحت لے کر آگے چلیں گے تو اس سے جمہوریت کا سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جاتا ہے۔
ایسی جمہوری ریاستیں جہاں جمہوریت کو بنیاد بنا کر ہم اسے اپنے ''خاندانی یا موروثی''مفادات کے ساتھ جوڑتے ہیں تو ایسی صورت میں عوام کے منتخب جمہوری ادارے بشمول پارلیمنٹ اپنی اہمیت کو کھوبیٹھتے ہیں یا ایسے نظاموں کی ساکھ پر کئی طرح کے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
جمہوریت کو ایک محدود دائرے میں سوچنے کا عمل جن میں محض انتخابات ، حکومت یا اقتدار تک محدود ہو وہاں ریاستی یا معاشرتی نظام میں ہمیں جمہوری نظام کی اہمیت بہت کمزور نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں کا جمہوریت سے عشق اور اسے ہی ایک موثر سیاسی نظام سمجھنے کے باوجود وہ حقیقی جمہوری ثمرات سمیٹنے یا وصول کرنے سے محروم ہیں۔
موروثی سیاست یا خاندانی نظام کا ایک سیاسی نظام پر قبضہ خاندان یا ان سے جڑے افراد کو تو مضبوط بناسکتا ہے مگر عام یا کمزور طبقات کو جمہوری نظام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ جمہوریت محض نعروں یا وہ دعوؤں یا جذباتیت کی بنیاد پر کی جانے والی تقریروں یا کاغذی بنیادوں پر سنہرے حروف یا منشور سے اپنی ساکھ قائم نہیں کرتی بلکہ اس کا ہمیں یا سب میں عملی اقدامات کا نمونہ واضح اور شفاف نظر آنا چاہیے۔ایک ایسی جمہوریت جو چاروں اطراف اپنے انتظامی ، قانونی اور سیاسی بنیاد پر چل رہی ہو اور لوگوں کا اس پر اعتماد ہو تو وہ جمہوری نظام لوگوں میں اپنی جڑت قائم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے یہاں محض جمہوریت کمزور نہیں ہوئی بلکہ ہم نے اپنے مجموعی طرز عمل سے جمہوری عمل کی جو بھی طاقت ہمیں میسر تھی اسے خود ہی اپنے عمل سے دور کردیا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ یہاں جو بھی جمہوری قوتیں ہیں انھوں نے جمہوری نظام اور اس کی مضبوطی سے خود کو دست بردار کرلیا ہے۔ سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادتیں ، میڈیا ، سول سوسائٹی ، وکلا سمیت دیگر پروفیشنل ایسوسی ایشن، رائے عامہ میں شامل اہل علم یا دانشور سب نے خود کو بھی یا مفاداتی سیاست کا حصہ بنالیا ہے یا وہ خود سے ڈر گئے یا تھک گئے ہیں۔
کیونکہ اب آہستہ آہستہ ہمیں یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر جمہوری قوتیں زیادہ مضبوط ہورہی اور ان کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ سہولت کاری کا کردار ہے۔
یہ جو کچھ ہمیں پارلیمنٹ کے مقابلے میں دوبئی میں ہونے والے دو بڑے خاندانوں کی سیاسی بیٹھک اور اپنی اپنی خواہشوں پر '' اقتدار کی بندر بانٹ کی تقسیم ''کا کھیل نظر آرہا ہے اس میں سب کچھ ہے مگر اگر کچھ نہیں تو وہ جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کا فقدان غالب نظر آتا ہے ۔اقتدار پاکستان میں اور اقتدار کے حصول کے لیے ہمیں امریکا ، چین ، اسٹیبلیشمنٹ یا لندن یا دوبئی کے اجلاس ہمارے جمہوری نظام کا مذاق ہیں ۔
اس وقت بھی ہمارا مجموعی جمہوری نظام یرغمالی کا منظر پیش کررہا ہے اور جمہوری اداروں سے جڑے افراد خود ہی اپنے طرز عمل سے جمہوریت اور اس سے جڑے نظام کو کمزور کررہے ہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی جو کسی بھی جمہوری نظام کی کامیابی میں کنجی کی حیثیت رکھتی ہے کئی طرح کی پابندیوں ، دباؤ یا سمجھوتوں کا شکار ہے۔
ایسے میں جمہوریت کے حق میں آوازیں کہاں سے اٹھیں گی اور کون اٹھائے گا۔کیونکہ اگر ہم اپنی ہی سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو دیکھیں تووہ سیاسی جماعتیں کم بلکہ نجی ملکیت یا خاندانی ملکیت کے حصار میں قید ہیں۔
داخلی جمہوریت کو مستحکم کیے بغیر خارجی جمہوریت کو مستحکم کرنا ایک مذاق سے کم نہیں۔سب سے بڑا دکھ اس بات کا ہے کہ لوگوں کا ہمارے جیسے ملکوں میں چلنے والے نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ اگرچہ جمہوریت ہماری بقا کا حصہ ہے مگر وہ جمہوریت کدھر ہے اور کیوں ہمیں اس حقیقی جمہوری عمل سے محروم رکھا جارہا ہے۔
یہ جو جمہوری طرز عمل ہے وہ کہاں گم ہوکر رہ گیا ہے۔کیوں جمہوریت میں ہم متبادل آوازوں، خیالات اور فکر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور کیوں جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
مختلف ہم خیال لوگوں کے درمیان جو گہری تقسیم پیدا کی جارہی ہے جس کی بنیاد تعصب ، نفرت، عدم برداشت اور آمرانہ سوچ اور مزاج سے ہے اس کا ذمے دار کون ہے۔جمہوریت کے بارے میں کیونکر ہم تضادات کا شکار ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت کا خاکہ چند بڑے طاقت ور خاندانوں ، بیوروکریٹ اور مختلف طاقت ور طبقات تک محدود ہے۔
سرمائے پر چلنے والا نام نہاد جمہوری نظام جس میں عملاً سرمائے نے طاقت حاصل کرلی ہے اس سے حقیقی جمہوریت کا تصور کمزور اور سرمائے کی بنیاد پر چلنے والی کمپنیوں کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا ہے جو جمہوریت کے موجودہ نظام کو سمجھنے میں کئی طرح کے سوالات اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔
جمہوریت کو طاقت ور طبقات کی حکمرانی سے نکال کر اسے کیسے عوامی حکمرانی اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے ساتھ جوڑنا ہے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہی ہمیں ایک مضبوط، مربوط اور شفاف حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
عمومی طور پر دلیل دی جاتی ہے کہ جب بھی جمہوریت نے آگے بڑھنا ہے تو اس کے سامنے اصل ہدف اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اصلاحات کو اپنی ضرورتوں سے زیادہ عالمی یا دیگر طبقات کے دباو کی بنیاد پر اختیار کیا اور یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سی اصلاحات کے باوجود ہم عملدرآمد کے نظام میں بہت کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں۔
شخصیت پرستی کی بنیاد پر چلنے والا جمہوری نظام کبھی بھی اپنی افادیت قائم نہیں کرسکتا کیونکہ یہ نظام عملا جمہوریت مخالف ہے ۔ جمہوریت کو مانپنے، جانچنے، پرکھنے اور اس کی نگرانی یا جوابدہی یا شفافیت سے جڑے جتنے بھی ادارے ہیں وہ فعالیت سے محروم ہیں یا ان کو فعال ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا جاتا۔
عام آدمی کا مقدمہ بہت کمزور ہے اور اسے محض خیراتی طرزوں کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ ہم انسانی ترقی کے مقابلے میں خیراتی بنیادوں پر بھکاری بنانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کو کمزور کرنے کے علاوہ مجموعی معاشی ترقی میں شمولیت سے محروم کردیتا ہے۔
جمہوریت کی ایک بنیاد آئین ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری سے جڑی ہوتی ہے۔ خدارا اس جمہوری نظام کو بچانا ہے اور جو بھی اس جمہوری نظام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ان کا ہم سب کو آئین، قانون اور سیاسی و جمہوری طور طریقوں سے داخلی و خارجی محاذوں پر مقابلہ کرنا ہے ، یہ ہی ہمارے مفاد میں ہے۔
دنیا بھر کے سیاسی مفکرین کے بقول اس وقت دنیا میں جمہوریت ہی وہ نظام ہے جو لوگوں کو ترقی کے مواقع دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔بالخصوص شہری آزادیاں ، اظہار رائے اور ایک متبادل نقطہ نظر رکھنے پر تحفظ اور اپنی مرضی و منشا کے مطابق اپنے فیصلے کرنے کی آزادی دیتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت یا آمرانہ سطح کے نظام ہیں وہاں جمہوری نظام کو بنیاد بنانے پر زور دیاجاتا ہے ۔کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ آج کے حالات میں یہ ہی نظام ہمار ے لیے نئے سیاسی اور معاشی سطح کے امکانات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم نیم مردہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں جمہوریت ابھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے ۔ ہمیں تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہاں جو جمہوری نظام ہے اسے خارجی مسائل کے ساتھ ساتھ داخلی جمہوری نظام سے بھی بڑے خطرات لاحق ہیں۔
کیونکہ جب ہم مجموعی طور پر '' جمہوری نظام کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار یا ذاتیات پر مبنی سیاست یا مفادات '' کے تحت لے کر آگے چلیں گے تو اس سے جمہوریت کا سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جاتا ہے۔
ایسی جمہوری ریاستیں جہاں جمہوریت کو بنیاد بنا کر ہم اسے اپنے ''خاندانی یا موروثی''مفادات کے ساتھ جوڑتے ہیں تو ایسی صورت میں عوام کے منتخب جمہوری ادارے بشمول پارلیمنٹ اپنی اہمیت کو کھوبیٹھتے ہیں یا ایسے نظاموں کی ساکھ پر کئی طرح کے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
جمہوریت کو ایک محدود دائرے میں سوچنے کا عمل جن میں محض انتخابات ، حکومت یا اقتدار تک محدود ہو وہاں ریاستی یا معاشرتی نظام میں ہمیں جمہوری نظام کی اہمیت بہت کمزور نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں کا جمہوریت سے عشق اور اسے ہی ایک موثر سیاسی نظام سمجھنے کے باوجود وہ حقیقی جمہوری ثمرات سمیٹنے یا وصول کرنے سے محروم ہیں۔
موروثی سیاست یا خاندانی نظام کا ایک سیاسی نظام پر قبضہ خاندان یا ان سے جڑے افراد کو تو مضبوط بناسکتا ہے مگر عام یا کمزور طبقات کو جمہوری نظام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ جمہوریت محض نعروں یا وہ دعوؤں یا جذباتیت کی بنیاد پر کی جانے والی تقریروں یا کاغذی بنیادوں پر سنہرے حروف یا منشور سے اپنی ساکھ قائم نہیں کرتی بلکہ اس کا ہمیں یا سب میں عملی اقدامات کا نمونہ واضح اور شفاف نظر آنا چاہیے۔ایک ایسی جمہوریت جو چاروں اطراف اپنے انتظامی ، قانونی اور سیاسی بنیاد پر چل رہی ہو اور لوگوں کا اس پر اعتماد ہو تو وہ جمہوری نظام لوگوں میں اپنی جڑت قائم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے یہاں محض جمہوریت کمزور نہیں ہوئی بلکہ ہم نے اپنے مجموعی طرز عمل سے جمہوری عمل کی جو بھی طاقت ہمیں میسر تھی اسے خود ہی اپنے عمل سے دور کردیا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ یہاں جو بھی جمہوری قوتیں ہیں انھوں نے جمہوری نظام اور اس کی مضبوطی سے خود کو دست بردار کرلیا ہے۔ سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادتیں ، میڈیا ، سول سوسائٹی ، وکلا سمیت دیگر پروفیشنل ایسوسی ایشن، رائے عامہ میں شامل اہل علم یا دانشور سب نے خود کو بھی یا مفاداتی سیاست کا حصہ بنالیا ہے یا وہ خود سے ڈر گئے یا تھک گئے ہیں۔
کیونکہ اب آہستہ آہستہ ہمیں یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر جمہوری قوتیں زیادہ مضبوط ہورہی اور ان کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ سہولت کاری کا کردار ہے۔
یہ جو کچھ ہمیں پارلیمنٹ کے مقابلے میں دوبئی میں ہونے والے دو بڑے خاندانوں کی سیاسی بیٹھک اور اپنی اپنی خواہشوں پر '' اقتدار کی بندر بانٹ کی تقسیم ''کا کھیل نظر آرہا ہے اس میں سب کچھ ہے مگر اگر کچھ نہیں تو وہ جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کا فقدان غالب نظر آتا ہے ۔اقتدار پاکستان میں اور اقتدار کے حصول کے لیے ہمیں امریکا ، چین ، اسٹیبلیشمنٹ یا لندن یا دوبئی کے اجلاس ہمارے جمہوری نظام کا مذاق ہیں ۔
اس وقت بھی ہمارا مجموعی جمہوری نظام یرغمالی کا منظر پیش کررہا ہے اور جمہوری اداروں سے جڑے افراد خود ہی اپنے طرز عمل سے جمہوریت اور اس سے جڑے نظام کو کمزور کررہے ہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی جو کسی بھی جمہوری نظام کی کامیابی میں کنجی کی حیثیت رکھتی ہے کئی طرح کی پابندیوں ، دباؤ یا سمجھوتوں کا شکار ہے۔
ایسے میں جمہوریت کے حق میں آوازیں کہاں سے اٹھیں گی اور کون اٹھائے گا۔کیونکہ اگر ہم اپنی ہی سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو دیکھیں تووہ سیاسی جماعتیں کم بلکہ نجی ملکیت یا خاندانی ملکیت کے حصار میں قید ہیں۔
داخلی جمہوریت کو مستحکم کیے بغیر خارجی جمہوریت کو مستحکم کرنا ایک مذاق سے کم نہیں۔سب سے بڑا دکھ اس بات کا ہے کہ لوگوں کا ہمارے جیسے ملکوں میں چلنے والے نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ اگرچہ جمہوریت ہماری بقا کا حصہ ہے مگر وہ جمہوریت کدھر ہے اور کیوں ہمیں اس حقیقی جمہوری عمل سے محروم رکھا جارہا ہے۔
یہ جو جمہوری طرز عمل ہے وہ کہاں گم ہوکر رہ گیا ہے۔کیوں جمہوریت میں ہم متبادل آوازوں، خیالات اور فکر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور کیوں جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
مختلف ہم خیال لوگوں کے درمیان جو گہری تقسیم پیدا کی جارہی ہے جس کی بنیاد تعصب ، نفرت، عدم برداشت اور آمرانہ سوچ اور مزاج سے ہے اس کا ذمے دار کون ہے۔جمہوریت کے بارے میں کیونکر ہم تضادات کا شکار ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت کا خاکہ چند بڑے طاقت ور خاندانوں ، بیوروکریٹ اور مختلف طاقت ور طبقات تک محدود ہے۔
سرمائے پر چلنے والا نام نہاد جمہوری نظام جس میں عملاً سرمائے نے طاقت حاصل کرلی ہے اس سے حقیقی جمہوریت کا تصور کمزور اور سرمائے کی بنیاد پر چلنے والی کمپنیوں کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا ہے جو جمہوریت کے موجودہ نظام کو سمجھنے میں کئی طرح کے سوالات اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔
جمہوریت کو طاقت ور طبقات کی حکمرانی سے نکال کر اسے کیسے عوامی حکمرانی اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے ساتھ جوڑنا ہے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہی ہمیں ایک مضبوط، مربوط اور شفاف حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
عمومی طور پر دلیل دی جاتی ہے کہ جب بھی جمہوریت نے آگے بڑھنا ہے تو اس کے سامنے اصل ہدف اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اصلاحات کو اپنی ضرورتوں سے زیادہ عالمی یا دیگر طبقات کے دباو کی بنیاد پر اختیار کیا اور یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سی اصلاحات کے باوجود ہم عملدرآمد کے نظام میں بہت کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں۔
شخصیت پرستی کی بنیاد پر چلنے والا جمہوری نظام کبھی بھی اپنی افادیت قائم نہیں کرسکتا کیونکہ یہ نظام عملا جمہوریت مخالف ہے ۔ جمہوریت کو مانپنے، جانچنے، پرکھنے اور اس کی نگرانی یا جوابدہی یا شفافیت سے جڑے جتنے بھی ادارے ہیں وہ فعالیت سے محروم ہیں یا ان کو فعال ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا جاتا۔
عام آدمی کا مقدمہ بہت کمزور ہے اور اسے محض خیراتی طرزوں کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ ہم انسانی ترقی کے مقابلے میں خیراتی بنیادوں پر بھکاری بنانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کو کمزور کرنے کے علاوہ مجموعی معاشی ترقی میں شمولیت سے محروم کردیتا ہے۔
جمہوریت کی ایک بنیاد آئین ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری سے جڑی ہوتی ہے۔ خدارا اس جمہوری نظام کو بچانا ہے اور جو بھی اس جمہوری نظام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ان کا ہم سب کو آئین، قانون اور سیاسی و جمہوری طور طریقوں سے داخلی و خارجی محاذوں پر مقابلہ کرنا ہے ، یہ ہی ہمارے مفاد میں ہے۔