ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
پاکستان کے غریب طبقے کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ختم کر دیے گئے ہیں
ہماری حکمران اشرافیہ کے پاس ایک نایاب اور قدیم ترین برتن ہے جو آج بھی نئے جیسا ہے اور مسلسل استعمال کیا جارہا ہے لیکن اس کی آن بان اور شان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
اس کی قدر وقیمت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج کے دن تک اسے صرف حاکم وقت ہی استعمال کرتا ہے اور اس کی برکت سے اپنا اورطبقے کا پالن پوسن کرتا ہے بلکہ کچھ بچا کچھا رعایا کو بھی دان کر دیتا ہے۔ میں تجسس اور سسپنس پیدا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ہمارے وزیراعظم نے گزشتہ روز انمول برتن کانام لیا ہے۔
فرماتے ہیں ''اگر مسلم لیگ ن کو دوبارہ اقتدار ملا تو ہم کشکول توڑ دیں گے''۔ دوستو! کشکول فقیروں، جوگی اور بیراگیوں کے ساتھ منسوب ہے۔ ان کے پاس تن ڈھانپنے کی ایک چار اور کھانے پینے کے لیے کشکول کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اسے کاسہ گدائی بھی کہا جاتا ہے۔
فقیر، بیراگی' سادھو اور جوگی اپناکشکول ہاتھ میں اٹھائے بستی میں آتے اور کسی گھر کے دروازے کے باہر صدا لگاتے۔'' دعا فقیراں ، رحم اﷲ ۔ کر بھلا سو ہو بھلا' انت بھلے کا بھلہ، جو دے اس کا بھی بھلا' جو نہ دے اس کا بھی بھلا ''۔ اب بیراگی' سادھو' بھکشو اور جوگی قصہ پارینہ بن چکے ہیں' البتہ ان کا کشکول پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور کرشمہ یہ ہے کہ یہ توشہ خانہ میں اب تک محفوظ ہے بلکہ فنکشنل ہے، کوئی طاقتور ڈکٹیر بھی اسے غائب کرنے کی جرات نہیں پایا۔
پاکستان کا حکمران کوئی بھی رہا ہو' آمر ہو یا جمہور کا نمایندہ' اس نے اس کشکول کو پوری ذہانت و فطانت کے ساتھ استعمال کیا ہے' جو حکمران برسراقتدار آیا، سب سے پہلے کشکول کو اپنے قبضے میں لیا' حیرانی کی حد تک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر حکمران کشکول لے کر مانگتا بھی رہا اور یہ مژدہ بھی سناتا رہا' ''اگر دوبارہ اقتدار ملا تو یہ کشکول توڑ دوں گا''۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں' اگر کسی حکمران نے جذبات میں آ کر سچ مچ کشکول توڑ دیا تو پھر ''تیرا کیا بنے گا۔۔۔۔۔ لہٰذا میں جناب وزیراعظم سے التجا کرتا ہوں' خدارا ! ایسی غلطی نہ کیجیے گا کیونکہ کشکول کے سوا ہمارے پاس کوئی برتن بھی نہیں ہے۔ اگر یہ بھی ٹوٹ گیا تو ہم کھائیں گے کیا اور پئیں گے کیا۔
ویسے یہ خدشہ میرا وہم ہے، وسوسہ ہے، خاطر جمع رکھیں کوئی وزیراعظم یا صدر یا حکمران اشرافیہ کا کوئی اور نابغہ ایسی بیوقوفی نہیںکرے گا کیونکہ اپنے پیٹ پر کوئی لات نہیں مارتا ہے ۔ بھوک اور پیاس تو پاگلوں کو لگتی ہے، کھانے اور پینے کے لیے برتن تو وہ بھی استعمال کرتے ہیں، اس لیے حکمرانوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنے اکلوتے برتن کو توڑ دیں گے، ایک خواب ہے، ایک سراب ہے۔
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے' اگر اعتبار ہوتا
یاد پڑتا ہے،کسی عالمی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کرسٹلینا جارجیوا نے کہا تھا کہ پاکستان میں حکومت جو سبسڈیز یا امداد پیکیجز دیتی ہے، ان کا فائدہ ان غریب پاکستانیوں کو ہونا چاہیے، جو ان کے مستحق ہیں اور پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے۔ ایک ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے، جو لوگ دولت کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ دوسرا نکتہ یہ کہ سبسڈیز مخصوص ہونا چاہیے۔
پاکستانی میڈیا میں فوجی و سول بیورو کریسی، ججز، صدر، وزیراعظم اور وزیراعظم آفس، اسمبلی اسپیکرز، چیئرمین سینیٹ، گورنرز، ارکان اسمبلی، وزراء ، مشیران اور معاونین خصوصی کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات پر اکثر و اوقات باتیں ہوتی ہیں اور خبریں بھی آتی ہیں لیکن کسی حکومت نے قومی خزانے کے اس ضایع کو روکنا تو درکنار اسے کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں طبقہ اشرافیہ کے لیے لگژری کلب ہیں جن کی رکنیت فیس لاکھوں روپے ہے، یہ کلب سرکاری اراضی پر قائم کیے گئے ہیں اور لیز کی مد میں سرکاری خزانے میں کرائے کی مد میں معمولی رقوم جمع کرادی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھی انکشاف کیا تھا کہ ریاست پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور قرضوں کی معافی کی مد میں دیتی ہے۔
پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے۔ ملک کے غریبوں کے لیے جو امداد پروگرام شروع ہوتے ہیں اور جو جاری ہیں، ان کی مالیت اربوں روپے ہے، کئی ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ کس بے شرمی اور ڈھٹائی سے اشرافیہ غریبوں کا حق کھاتی ہے۔صرف دس برسوں کا ریکارڈچیک کریںتو عقل دنگ رہ جائے گی کہ پاکستان کے ریاستی ملازمین نے اربوں روپے صرف مراعات اور مختلف الاؤنسز کی مد میں حاصل کیے ہیں۔
سرکاری گاڑیوں کی خریداری، مرمت اور فیول پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اب بھی اس لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔اعلیٰ سرکاری افسروں اور ریاست کے دیگر اعلیٰ عہدیداران کے گھروں میں سرکاری ملازم ڈیوٹیاں ادا کرتے ہیں' سرکاری گاڑیاں گھروں میں زیر استعمال ہیں۔
ججز کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں نظام انصاف کی جو حالت ہے' اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماتحت عدالتوں میں آئے روز قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں'پولیس تھانوں میں اور جیلوں میں قتل کی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ حکمران طبقے کواس کا علم نہیں' اصل بات یہ ہے کہ وہ اس نظام کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے سب سے زیادہ شہری اپنے بچوں کو کیمبرج 'اوکسفورڈاور امریکن سسٹم کے تحت امتحان دلواتے ہیں'ظاہر سی بات ہے کہ یہ پاکستان کے طبقہ امراء کے بچے ہیں۔ایلیٹ کلاس کے یہ نونہالان جوگل کھلا رہے ہیں 'اس کے مظاہرے اکثر اوقات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کاجائزہ لیں تو اس کا ایک فردسیاست میں ہو گا'دوسرا کاروبار میں ہوگا، کوئی ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر قابض ہوگا،کوئی نہ کوئی اعلیٰ افسر ہوگایا پھر عدلیہ میں ہو گا' ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں اشرافیہ کے کنٹرول توڑنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے غریب طبقے کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ختم کر دیے گئے ہیں ' اب مڈل کلاس کے لیے بھی ترقی کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ ذہانت اور محنت کے پراسس سے گزر کر امیر نہیں ہوئی'پاکستانی اشرافیہ کی خوشحالی سرکاری مراعات پر قائم ہے۔
اس کا خمیر متروکہ املاک 'وقف و اوقاف کی املاک اور سرکاری اراضی کی لوٹ مار سے اٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اشرافیہ میں ٹیلنٹ اور ذہانت جیسے اوصاف کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بس بے حس' خوشامدی ' طوطا چشم اور'' سب کچھ'' فروش ہونا ہی قرینہ ہے ' اشرافیہ کے قرینوں میں۔
اس کی قدر وقیمت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج کے دن تک اسے صرف حاکم وقت ہی استعمال کرتا ہے اور اس کی برکت سے اپنا اورطبقے کا پالن پوسن کرتا ہے بلکہ کچھ بچا کچھا رعایا کو بھی دان کر دیتا ہے۔ میں تجسس اور سسپنس پیدا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ہمارے وزیراعظم نے گزشتہ روز انمول برتن کانام لیا ہے۔
فرماتے ہیں ''اگر مسلم لیگ ن کو دوبارہ اقتدار ملا تو ہم کشکول توڑ دیں گے''۔ دوستو! کشکول فقیروں، جوگی اور بیراگیوں کے ساتھ منسوب ہے۔ ان کے پاس تن ڈھانپنے کی ایک چار اور کھانے پینے کے لیے کشکول کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اسے کاسہ گدائی بھی کہا جاتا ہے۔
فقیر، بیراگی' سادھو اور جوگی اپناکشکول ہاتھ میں اٹھائے بستی میں آتے اور کسی گھر کے دروازے کے باہر صدا لگاتے۔'' دعا فقیراں ، رحم اﷲ ۔ کر بھلا سو ہو بھلا' انت بھلے کا بھلہ، جو دے اس کا بھی بھلا' جو نہ دے اس کا بھی بھلا ''۔ اب بیراگی' سادھو' بھکشو اور جوگی قصہ پارینہ بن چکے ہیں' البتہ ان کا کشکول پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور کرشمہ یہ ہے کہ یہ توشہ خانہ میں اب تک محفوظ ہے بلکہ فنکشنل ہے، کوئی طاقتور ڈکٹیر بھی اسے غائب کرنے کی جرات نہیں پایا۔
پاکستان کا حکمران کوئی بھی رہا ہو' آمر ہو یا جمہور کا نمایندہ' اس نے اس کشکول کو پوری ذہانت و فطانت کے ساتھ استعمال کیا ہے' جو حکمران برسراقتدار آیا، سب سے پہلے کشکول کو اپنے قبضے میں لیا' حیرانی کی حد تک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر حکمران کشکول لے کر مانگتا بھی رہا اور یہ مژدہ بھی سناتا رہا' ''اگر دوبارہ اقتدار ملا تو یہ کشکول توڑ دوں گا''۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں' اگر کسی حکمران نے جذبات میں آ کر سچ مچ کشکول توڑ دیا تو پھر ''تیرا کیا بنے گا۔۔۔۔۔ لہٰذا میں جناب وزیراعظم سے التجا کرتا ہوں' خدارا ! ایسی غلطی نہ کیجیے گا کیونکہ کشکول کے سوا ہمارے پاس کوئی برتن بھی نہیں ہے۔ اگر یہ بھی ٹوٹ گیا تو ہم کھائیں گے کیا اور پئیں گے کیا۔
ویسے یہ خدشہ میرا وہم ہے، وسوسہ ہے، خاطر جمع رکھیں کوئی وزیراعظم یا صدر یا حکمران اشرافیہ کا کوئی اور نابغہ ایسی بیوقوفی نہیںکرے گا کیونکہ اپنے پیٹ پر کوئی لات نہیں مارتا ہے ۔ بھوک اور پیاس تو پاگلوں کو لگتی ہے، کھانے اور پینے کے لیے برتن تو وہ بھی استعمال کرتے ہیں، اس لیے حکمرانوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنے اکلوتے برتن کو توڑ دیں گے، ایک خواب ہے، ایک سراب ہے۔
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے' اگر اعتبار ہوتا
یاد پڑتا ہے،کسی عالمی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کرسٹلینا جارجیوا نے کہا تھا کہ پاکستان میں حکومت جو سبسڈیز یا امداد پیکیجز دیتی ہے، ان کا فائدہ ان غریب پاکستانیوں کو ہونا چاہیے، جو ان کے مستحق ہیں اور پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے۔ ایک ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے، جو لوگ دولت کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ دوسرا نکتہ یہ کہ سبسڈیز مخصوص ہونا چاہیے۔
پاکستانی میڈیا میں فوجی و سول بیورو کریسی، ججز، صدر، وزیراعظم اور وزیراعظم آفس، اسمبلی اسپیکرز، چیئرمین سینیٹ، گورنرز، ارکان اسمبلی، وزراء ، مشیران اور معاونین خصوصی کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات پر اکثر و اوقات باتیں ہوتی ہیں اور خبریں بھی آتی ہیں لیکن کسی حکومت نے قومی خزانے کے اس ضایع کو روکنا تو درکنار اسے کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں طبقہ اشرافیہ کے لیے لگژری کلب ہیں جن کی رکنیت فیس لاکھوں روپے ہے، یہ کلب سرکاری اراضی پر قائم کیے گئے ہیں اور لیز کی مد میں سرکاری خزانے میں کرائے کی مد میں معمولی رقوم جمع کرادی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھی انکشاف کیا تھا کہ ریاست پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور قرضوں کی معافی کی مد میں دیتی ہے۔
پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے۔ ملک کے غریبوں کے لیے جو امداد پروگرام شروع ہوتے ہیں اور جو جاری ہیں، ان کی مالیت اربوں روپے ہے، کئی ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ کس بے شرمی اور ڈھٹائی سے اشرافیہ غریبوں کا حق کھاتی ہے۔صرف دس برسوں کا ریکارڈچیک کریںتو عقل دنگ رہ جائے گی کہ پاکستان کے ریاستی ملازمین نے اربوں روپے صرف مراعات اور مختلف الاؤنسز کی مد میں حاصل کیے ہیں۔
سرکاری گاڑیوں کی خریداری، مرمت اور فیول پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اب بھی اس لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔اعلیٰ سرکاری افسروں اور ریاست کے دیگر اعلیٰ عہدیداران کے گھروں میں سرکاری ملازم ڈیوٹیاں ادا کرتے ہیں' سرکاری گاڑیاں گھروں میں زیر استعمال ہیں۔
ججز کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں نظام انصاف کی جو حالت ہے' اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماتحت عدالتوں میں آئے روز قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں'پولیس تھانوں میں اور جیلوں میں قتل کی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ حکمران طبقے کواس کا علم نہیں' اصل بات یہ ہے کہ وہ اس نظام کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے سب سے زیادہ شہری اپنے بچوں کو کیمبرج 'اوکسفورڈاور امریکن سسٹم کے تحت امتحان دلواتے ہیں'ظاہر سی بات ہے کہ یہ پاکستان کے طبقہ امراء کے بچے ہیں۔ایلیٹ کلاس کے یہ نونہالان جوگل کھلا رہے ہیں 'اس کے مظاہرے اکثر اوقات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کاجائزہ لیں تو اس کا ایک فردسیاست میں ہو گا'دوسرا کاروبار میں ہوگا، کوئی ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر قابض ہوگا،کوئی نہ کوئی اعلیٰ افسر ہوگایا پھر عدلیہ میں ہو گا' ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں اشرافیہ کے کنٹرول توڑنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے غریب طبقے کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ختم کر دیے گئے ہیں ' اب مڈل کلاس کے لیے بھی ترقی کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ ذہانت اور محنت کے پراسس سے گزر کر امیر نہیں ہوئی'پاکستانی اشرافیہ کی خوشحالی سرکاری مراعات پر قائم ہے۔
اس کا خمیر متروکہ املاک 'وقف و اوقاف کی املاک اور سرکاری اراضی کی لوٹ مار سے اٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اشرافیہ میں ٹیلنٹ اور ذہانت جیسے اوصاف کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بس بے حس' خوشامدی ' طوطا چشم اور'' سب کچھ'' فروش ہونا ہی قرینہ ہے ' اشرافیہ کے قرینوں میں۔