گلوکارہ مبارک بیگم کی آواز نے لتا منگیشکر کو چونکا دیا

جس گلوکارہ کو لتا منگیشکر نے سراہا اور ایک منفرد آواز کی گلوکارہ قرار دیا تھا وہ مبارک بیگم تھی

hamdam.younus@gmail.com

پاکستان میں ملکہ ترنم نور جہاں کے بعد جن گلوکاراؤں نے اپنے آپ کو منوایا، ان میں گلوکارہ نسیم بیگم، مالا، رونا لیلیٰ اور ناہید اختر وہ آوازیں تھیں جن سے فلمی دنیا نے فائدہ اٹھایا تھا۔

اسی طرح ہندوستان کی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر کے دور میں آشا بھوسلے کے بعد جس گلوکارہ کو لتا منگیشکر نے سراہا اور ایک منفرد آواز کی گلوکارہ قرار دیا تھا وہ مبارک بیگم تھی جس نے اپنی مدھر گائیکی سے ہزاروں دلوں کو چھو لیا تھا، مگر مبارک بیگم کو وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی تھی جس کی وہ مستحق تھی اس کی آواز میں بڑا گہرا رچاؤ تھا اور ایک دل آویز کھنک اور کھرج بھی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک زمانے میں ریڈیو سیلون، ریڈیو ایران زاہدان اور آل انڈیا ریڈیو سے ایک گیت صبح شام اور رات کو بارہا نشر ہوا کرتا تھا جس کے بول تھے:

کبھی تنہائیوں میں یوں ہماری یاد آئے گی

اندھیرے چھا رہے ہوں گے کہ بجلی کوند جائے گی

یہ بجلی راکھ کر جائے گی تیرے پیار کی دنیا

نہ تو پھر جی سکے گا اور نہ تجھ کو موت آئے گی

کبھی تنہائیوں میں یوں ہماری یاد آئے گی

یہ گیت فلم ہماری یاد آئے گی، کے لیے مبارک بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس گیت کی بھی ایک کہانی ہے۔

فلم ساز، ہدایت کار کیدار شرما نے یہ فلم بنائی تھی اور اس میں اپنے بیٹے آنند کمار کو ہیرو لیا تھا اور فلم کی ہیروئن موجودہ دور کی نامور اداکارہ کاجل کی والدہ تنوجہ تھیں اور ہیرو بالکل نیا تھا۔ فلم کے موسیقار سنیہل بھاٹکر تھے ان کی بھی کوئی شہرت نہ تھی اور ان کی خواہش تھی کہ ان کے گیت کو لتا منگیشکر گائے مگر لتا منگیشکر ان دنوں بہت ہی مصروف گلوکارہ تھی۔

اس نے فوری وقت دینے سے انکار کردیا تھا اور انتظار کرنے کو کہا تھا مگر بھاٹکر صاحب کو گیت ریکارڈ کرنے کی جلدی تھی پھر انھوں نے ایک نئی گلوکارہ مبارک بیگم سے وہ گیت ریہرسل کرایا اور وہ گیت اس کی آواز میں جب ریکارڈ کیا گیا تو ریکارڈنگ کے وقت موجود تمام لوگوں نے اس گیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈین فلم انڈسٹری کو ایک اور خوبصورت گلوکارہ مبارک بیگم کے روپ میں مل گئی ہے۔

یہ گیت فلم ہماری یاد آئے گی کے ہدایت کار کیدار شرما ہی نے لکھا تھا یہ انتہائی مختلف اندازکا غمگین گیت تھا ایک طرح سے یہ گیت کسی ناکام عاشق اور ٹوٹے ہوئے دل کی بددعا کی صورت میں تھا، اس گیت میں بڑی کڑواہٹ اور تلخی موجود تھی۔

اس گیت کو مبارک بیگم کی آواز نے امر بنا دیا تھا اس موقع پر مجھے ایسا ہی ایک Negative گیت پاکستانی فلم سات لاکھ کا یاد آرہا ہے جو فلم ساز و شاعر سیف الدین سیف نے لکھا تھا اور جسے گلوکار منیر حسین نے گایا تھا جو فلم کے ہیرو سنتوش کمار پر فلمایا گیا تھا۔ یہ گیت بھی ایک ناکام عاشق کی بددعا کا انداز تھا جس کے بول تھے:

قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے

مری وفا کو مرے اعتبار کو ترسے


خدا کرے ترا رنگیں شباب چھن جائے

تری شرابِ جوانی خمار کو ترسے

قرار کو لوٹنے والے۔۔۔۔

یہ گیت بھی موسیقی اور گائیکی کی وجہ سے فلم بینوں اور ٹوٹے دلوں میں اثر کر گیا تھا اور فلم سات لاکھ اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی۔

اب میں پھر گلوکارہ مبارک بیگم کی طرف آتا ہوں جسے 1950 سے لے کر 1960 تک بالی ووڈ کی فلموں میں گانے کا موقع ملا اور اس کی آواز کے بارے میں لتا منگیشکر نے بھی سراہتے ہوئے کہا تھا کہ '' مبارک بیگم کی آواز فلمی دنیا کے لیے ایک خوبصورت اضافہ ہے۔'' مبارک بیگم کا تعلق راجستھان سے تھا، اسی راجستھان کے علاقے بیکانیر سے عظیم غزل سنگر بلکہ شہنشاہ غزل مہدی حسن کا تعلق تھا۔

مبارک بیگم کو بچپن ہی سے ریڈیو سننے کا شوق تھا اور یہ شوق آہستہ آہستہ گلوکاری کی طرف لے آیا تھا۔مبارک بیگم کی دوسری فلم تھی ہماری یاد آئے گی جس کے گیت کو شہرہ آفاق شہرت ملی تھی۔

پھر مبارک بیگم ہر بڑے موسیقار کی نظروں میں آتی جا رہی تھیں اسی دوران موسیقار شنکر جے کشن نے مبارک بیگم کو اپنی فلم ہمراہی میں گوایا اور فلم ہمراہی کے ایک گیت نے تو سارے ہندوستان میں بڑی دھوم مچا دی تھی یہ گیت محمد رفیع اور مبارک بیگم کی آوازوں میں تھا جسے شاعر حسرت جے پوری نے لکھا تھا، گیت کے بول تھے:

مجھ کو اپنے گلے لگا لو

اے میرے ہمراہی

ایک بار مبارک بیگم پاکستان بھی آئی تھیں اور کراچی میں کسی رشتے دار کی تقریب میں شرکت کی تھی وہاں ان کی مشہور فلم ساز و ہدایت کار ہمایوں مرزا سے بھی ملاقات ہوگئی تھی انھوں نے اپنی فلم '' راز'' کا آغاز کیا تھا پھر ہمایوں مرزا نے مبارک بیگم کی آواز میں اپنی فلم کے لیے بھی دو گیت گوائے تھے ان گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی ایک گیت کے شاعر تھے کلیم عثمانی اور موسیقی دی فیروز نظامی نے گیت کے بول تھے:

قصہ غم سنائے جا' اے زندگی رلائے جا

ایک اورگیت جو طفیل ہشیارپوری نے لکھا تھا وہ بھی مبارک بیگم نے ہی گایا تھا، گیت کے بول تھے:

بچ کے نظر موری پتلی کمر

ذرا خود کو بچانا رے

یہ برا ہے زمانہ رے

مبارک بیگم جب پاکستان سے واپس انڈیا گئیں تو وہاں کچھ عرصے کے بعد ان کی بیٹی کا انتقال ہو گیا تھا اور یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ پھر وہ گائیکی سے دور ہوتی چلی گئی تھیں وہ شہرت پسند بالکل نہیں تھیں۔ وہ بہرام باغ بمبئی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھیں اور پھر بیماری کی حالت میں تنہائی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں مگر ان کے مدھر گیتوں کی گونج آج بھی فضاؤں میں خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔
Load Next Story