در نبی ﷺ پر
مدینہ منورہ کی فضاء میں پہنچتے ہی ہمیشہ ایک ایسی راحت کا احساس ہوتا ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا
آج سے اٹھائیس ہوتے ہیں، جب راقم نے عملی زندگی کے آغاز سے قبل اس در پر حاضری دی جہاں کسی سوالی کی دعا رد نہیں ہوتی ہے اور ہر سوالی کی جھولی بھر دی جاتی ہے، کسی کو نامراد نہیں لوٹایا جاتا، اس در کی حاضری اس سوالی کی زندگی بھر کی متاع ہوتی ہے، جو بھی یہاں پہنچ جاتا ہے، وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔
بائیس سال کی عمر میں، میں بھی سوالی بن کر اپنے والد کے ساتھ حاضری دینے اس در پرپہنچا تھا جہاں سے ایسا فیضاب ہوا کہ اس فیض یابی کی برکتوں اور رحمتوں سے آج تک زندگی آسودگی سے گزر رہی ہے۔ دنیا کی جائز آسائشیں دستیاب ہیں، جب بھی دست سوال دراز کیا، خالی ہاتھ کبھی نہیں لوٹایا گیا۔
یہ سب کچھ اسی درمقدس کی حاضری کی بر کت سے ہے جہاں سے اس گنہگار کوایک بار پھر بلاوا آگیا ہے اور یہ خادم اور عاشق ایک بار پھر دنیا کے سب سے بڑے دربار میںحاضری کے لیے پہنچ چکا ہے۔ آخری بار حاضری کی سعادت آج سے آٹھ برس قبل ہوئی تھی اور اس کے بعد باوجود کوشش کے اس گنہگار کو بلاوا نہیں آیا۔
گزشتہ کئی برس اسی حسرت میں گزر گئے، بچے جوان ہورہے ہیں اور آیندہ چند برس میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ہیں تو بلاوا آن پہنچا ہے۔
قارئین جب ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہیں تو میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے دربار میں حاضر ہو چکا ہوں۔ والد مرحوم کی شدید خواہش رہی کہ وہ اپنے پوتے، پوتیوں اور نواسوں کو ساتھ لے جا کر حضورپاک ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں لیکن عمر کے آخری چندبرس پیرانہ سالی کے باعث وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور یہ سعادت مجھے حاصل ہو رہی ہے کہ میں روضہ اقدس پر اپنے اہل خانہ سمیت حاضر ہوں۔
یہ میری خوش بختی اور خوش نصیبی ہے کہ اﷲ تبار ک و تعالیٰ نے مجھے ایک ایسے روزگار سے وابستہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے میرے لیے حرمین شریفین حاضری کی سعادت آسان ہو گئی ہے، اگر وہاںسے اجازت مل جائے اور بلاوا آجائے۔
ہر مسلمان کی زندگی بھر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کے گھر حاضری دے اور مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں درودو سلام پیش کرے۔ میرے ساتھ ایک خوش کن واقعہ یہ ہوا کہ زندگی کا پہلا فضائی سفر عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے تھا۔ لاہور سے طیارے نے اڑان بھری تو بائیس سالہ نوجوان کے دل میں یہ تمنا جاگ اٹھی کہ کوئی ایسی ہی نوکری مل جائے جس میں سفر کی آسانی ہو۔
شاید قبولیت کے لمحات تھے، عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب وطن واپسی ہوئی تو چند ماہ بعد ہی پی آئی اے کی ملازمت میری منتظر تھی، اس پر مستزاد یہ کہ میرے حصے میں شعبہ تعلقات عامہ آگیا جو اخبار نویس والد کی وجہ سے میرے لیے ایک دیومالائی شعبہ تھا کیونکہ جس محکمے میں بھی کام پڑتا تھا تو افسر تعلقات عامہ سے رابطہ کیا جاتا اور وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ شعبہ تعلقات عامہ کے افسران کا اپنے محکمے میں بہت اثر ورسوخ ہوتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔
کسی بھی ادارے کا شعبہ تعلقات عامہ اس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس اہم ترین شعبے کے متعلق پھر کبھی تفصیل سے عرض کروں گا۔
لب لباب یہ ہے عملی زندگی کے آغاز سے قبل مقدس سفر کی تکمیل کے بعد دونوں خواہشات پوری ہو گئیں، میرا بطور مسلمان یہ ایمان ہے کہ یہ سب اﷲ تبارک و تعالیٰ کے گھر حاضری کی برکت اور ایک غلام کی در نبی ﷺ پر حاضری کا اعجاز ہے کہ فقیروں اور درویشوں کی اولاد فیض یاب ہو گئی۔
مدینہ منورہ کی معطر فضائیں ہیں اور میرا جیسا گنہگار اور خطاکارانسان ان بابرکت فضاؤں میں سانس لے رہا ہے، یہ سب اس ذات پاک کے فیصلے ہیں اوربجا طور پر میرے لیے بڑے نصیب کی بات ہے کہ ''جسے چاہا در پہ بلا لیا جیسے اپنا بنا لیا۔''
مدینہ منورہ کی فضاء میں پہنچتے ہی ہمیشہ ایک ایسی راحت کا احساس ہوتا ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔میرے جیسے کم علم ، فہم و فراست سے عاری اور گنہگار شخص کے لیے یہی بڑے نصیب کی بات ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حاضری کی اجازت مل گئی ہے۔باقی باتیں آیندہ کالم میں ہوں گی۔
بائیس سال کی عمر میں، میں بھی سوالی بن کر اپنے والد کے ساتھ حاضری دینے اس در پرپہنچا تھا جہاں سے ایسا فیضاب ہوا کہ اس فیض یابی کی برکتوں اور رحمتوں سے آج تک زندگی آسودگی سے گزر رہی ہے۔ دنیا کی جائز آسائشیں دستیاب ہیں، جب بھی دست سوال دراز کیا، خالی ہاتھ کبھی نہیں لوٹایا گیا۔
یہ سب کچھ اسی درمقدس کی حاضری کی بر کت سے ہے جہاں سے اس گنہگار کوایک بار پھر بلاوا آگیا ہے اور یہ خادم اور عاشق ایک بار پھر دنیا کے سب سے بڑے دربار میںحاضری کے لیے پہنچ چکا ہے۔ آخری بار حاضری کی سعادت آج سے آٹھ برس قبل ہوئی تھی اور اس کے بعد باوجود کوشش کے اس گنہگار کو بلاوا نہیں آیا۔
گزشتہ کئی برس اسی حسرت میں گزر گئے، بچے جوان ہورہے ہیں اور آیندہ چند برس میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ہیں تو بلاوا آن پہنچا ہے۔
قارئین جب ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہیں تو میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے دربار میں حاضر ہو چکا ہوں۔ والد مرحوم کی شدید خواہش رہی کہ وہ اپنے پوتے، پوتیوں اور نواسوں کو ساتھ لے جا کر حضورپاک ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں لیکن عمر کے آخری چندبرس پیرانہ سالی کے باعث وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور یہ سعادت مجھے حاصل ہو رہی ہے کہ میں روضہ اقدس پر اپنے اہل خانہ سمیت حاضر ہوں۔
یہ میری خوش بختی اور خوش نصیبی ہے کہ اﷲ تبار ک و تعالیٰ نے مجھے ایک ایسے روزگار سے وابستہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے میرے لیے حرمین شریفین حاضری کی سعادت آسان ہو گئی ہے، اگر وہاںسے اجازت مل جائے اور بلاوا آجائے۔
ہر مسلمان کی زندگی بھر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کے گھر حاضری دے اور مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں درودو سلام پیش کرے۔ میرے ساتھ ایک خوش کن واقعہ یہ ہوا کہ زندگی کا پہلا فضائی سفر عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے تھا۔ لاہور سے طیارے نے اڑان بھری تو بائیس سالہ نوجوان کے دل میں یہ تمنا جاگ اٹھی کہ کوئی ایسی ہی نوکری مل جائے جس میں سفر کی آسانی ہو۔
شاید قبولیت کے لمحات تھے، عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب وطن واپسی ہوئی تو چند ماہ بعد ہی پی آئی اے کی ملازمت میری منتظر تھی، اس پر مستزاد یہ کہ میرے حصے میں شعبہ تعلقات عامہ آگیا جو اخبار نویس والد کی وجہ سے میرے لیے ایک دیومالائی شعبہ تھا کیونکہ جس محکمے میں بھی کام پڑتا تھا تو افسر تعلقات عامہ سے رابطہ کیا جاتا اور وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ شعبہ تعلقات عامہ کے افسران کا اپنے محکمے میں بہت اثر ورسوخ ہوتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔
کسی بھی ادارے کا شعبہ تعلقات عامہ اس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس اہم ترین شعبے کے متعلق پھر کبھی تفصیل سے عرض کروں گا۔
لب لباب یہ ہے عملی زندگی کے آغاز سے قبل مقدس سفر کی تکمیل کے بعد دونوں خواہشات پوری ہو گئیں، میرا بطور مسلمان یہ ایمان ہے کہ یہ سب اﷲ تبارک و تعالیٰ کے گھر حاضری کی برکت اور ایک غلام کی در نبی ﷺ پر حاضری کا اعجاز ہے کہ فقیروں اور درویشوں کی اولاد فیض یاب ہو گئی۔
مدینہ منورہ کی معطر فضائیں ہیں اور میرا جیسا گنہگار اور خطاکارانسان ان بابرکت فضاؤں میں سانس لے رہا ہے، یہ سب اس ذات پاک کے فیصلے ہیں اوربجا طور پر میرے لیے بڑے نصیب کی بات ہے کہ ''جسے چاہا در پہ بلا لیا جیسے اپنا بنا لیا۔''
مدینہ منورہ کی فضاء میں پہنچتے ہی ہمیشہ ایک ایسی راحت کا احساس ہوتا ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔میرے جیسے کم علم ، فہم و فراست سے عاری اور گنہگار شخص کے لیے یہی بڑے نصیب کی بات ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حاضری کی اجازت مل گئی ہے۔باقی باتیں آیندہ کالم میں ہوں گی۔