ایچ ای سی اور صوبائی خود مختاری

کچھ پالیسیاں اس ملک کے کلچر سے متصادم تھیں، یوں اساتذہ نے مزاحمتی تحریکیں منظم کیں

tauceeph@gmail.com

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں نئی تعلیمی پالیسی میں انقلابی اصلاحات کی گئیں۔ ان اصلاحات میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (U.G.C) کا قیام بھی شامل تھا مگر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن وزارت تعلیم کا ماتحت ادارہ تھا۔

اس بناء پر یو جی سی کا اسکوپ محدود تھا۔ یو جی سی وفاقی حکومت کی یونیورسٹیوں کو دی جانے والی گرانٹ ملکی اور بیرونی اسکالر شپ کے تناظر میں مشاورتی کردار ادا کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے دور میں بہت کم یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔

جنرل پرویز مشرف حکومت کے دور میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو اپ گریڈ کر کے ایک خود مختار ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کا پہلا چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن کو مقرر کیا گیا۔ ایچ ای سی کو مکمل مالیاتی اور انتظامی خود مختاری دی گئی۔

اب ایچ ای سی وزارت تعلیم کے ماتحت نہیں رہا بلکہ ایچ ای سی کو براہِ راست وزیر اعظم کی نگرانی میں دیدیا گیا اور ایچ ای سی کے چیئرمین کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر کردیا گیا مگر ایچ ای سی کے قیام کے بعد سرکاری شعبہ میں یونیورسٹیوں کی تعداد تیزی سے بڑھی۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹی کے قیام ، تعلیمی شعبہ کے قیام، اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں اور یونیورسٹی میں ریسرچ کے کلچر کو تقویت کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے۔

یونیورسٹی میں ہر سطح پر نئے کورس رائج کیے گئے۔ ایچ ای سی نے ڈگریوں کی تصدیق کے نظام کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک کیا۔ ایچ ای سی کی کچھ پالیسیوں کی بناء پر یونیورسٹیوں میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

کچھ پالیسیاں اس ملک کے کلچر سے متصادم تھیں، یوں اساتذہ نے مزاحمتی تحریکیں منظم کیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ماہرین کا الزام تھا کہ ایچ ای سی نے یونیورسٹی کے کلچر کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مگر بعض پالیسیوں کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔

2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کو صوبوں کے حوالے کیا گیا۔ اب سندھ اور پنجاب کے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے گئے، سابقہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کمی کر دی۔

حکومت نے ایچ ای سی کے چیئرپرسن ڈاکٹر طارق بنوری کو ہدایات دیں کہ یونیورسٹیوں کے قیمتی اثاثے یعنی زمینوں اور عمارتوں کو فروخت کر کے یونیورسٹیوں کا خسارہ دور کرے، مگر ڈاکٹر طارق بنوری کا یہ مؤقف تھا کہ زمینوں کی خرید و فروخت سے بدعنوانی جنم لے گی۔ انھوں نے ایچ ای سی کے آڈٹ کا بھی فیصلہ کیا، یوں وہ زیرِ عتاب رہے۔

حکومت نے ڈاکٹر طارق بنوری کے عہدہ کی میعاد کم کر کے دو سال مقرر کردی، یوں انھیں ایچ ای سی سے رخصت ہونا پڑا، مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر طارق بنوری کو بحال کردیا۔ سابقہ حکومت نے ایچ ای سی کے ترمیمی قانون کے تحت ایچ ای سی کے چیئرپرسن کی میعاد کم کر کے دو سال کردی اور عملی طور پر اب ایچ ای سی وزارتِ تعلیم کی نگرانی میں چلا گیا۔

اس وقت تحریک انصاف کی مخالف جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وغیرہ نے ڈاکٹر بنوری کی برطرفی اور ایچ ای سی کی حیثیت کو کم کرنے کے اقدامات کو تعلیم دشمنی قرار دیا تھا۔ جب چودہ ماہ قبل موجودہ مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئی تو یہ امید تھی کہ حکومت سابقہ حکومت کی ایچ ای سی کے قانون میں کی گئی غیر جمہوری ترامیم کو ختم کرے گی۔

وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت رانا تنویر نے کہا کہ حکومت ایچ ای سی کی خود مختاریت کی بحالی کے لیے جامع قانون بنائے گی۔

ملک کی بیوروکریسی میں ابھی تک نوآبادیاتی سوچ کو فوقیت حاصل ہے، یوں ایک طویل عرصے تک قانون پر مشاورت کا عمل جاری رہا اور وفاقی کابینہ نے ایچ ای سی کے نئے قانون کی منظوری دی۔ اس مسودہ قانون کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے بابوؤں کے لیے صوبائی خود مختاری کی اہمیت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مسودہ قانون کی بیشتر شقیں 2010ء میں آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم سے متصادم ہیں۔


اس مسودہ قانون کی اہم شقوں کے تحت ایچ ای سی کو صوبوں میں یونیورسٹی کے چارٹر کے اجرائ، چارٹر کی معطلی اور منسوخی کے اختیارات حاصل ہوچکے، یوں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن اس قانون کے نفاذ سے بے اثر ہوجائیں گے۔

ایک قانونی ماہر نے اس مسودہ کے جائزہ کے بعد رائے دی ہے کہ یہ آرڈیننس مکمل طور پر آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم سے متصادم ہے۔ اس طرح اس مسودہ سے 1973 کے آئین کے پارٹ 2 کی شق 12 کی نفی ہوتی ہے۔

اس مسودہ قانون میں 2022کے قانون کی 13ترامیم تجویز کی گئی تھیں۔ نئی ترامیم کے تحت ایچ ای سی کی کنٹرولنگ اتھارٹی مکمل طور پر وزیر اعظم ہونگے۔ اس مسودہ کو اس روح کے ساتھ تیار کیا گیا ہے کہ پورے ملک میں اعلیٰ تعلیم کی رولنگ اتھارٹی ایچ ای سی ہوگی۔

اب نئے قانون کے تحت وزیر اعظم کو اختیار حاصل ہوگا کہ جب وہ مناسب سمجھے ایچ ای سی کے چیئرمین کو برطرف کرسکتے ہیں۔ ایچ ای سی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وفاقی حکومت کو نئی سرکاری یا غیر سرکاری یونیورسٹی کے چارٹر کی منسوخی کا مشورہ دے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کو بھی اس آرڈیننس پر اعتراض ہے۔

انھوں نے وزیر اعظم کو ایک خط میں تجویز دی ہے کہ یہ آرڈیننس نافذ نہ کیا جائے۔ اس مجوزہ آرڈیننس کی اشاعت کے بعد پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں ایک قسم کی تشویش بڑھ گئی ہے۔

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر شاہد میر نے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ مجوزہ آرڈیننس سے صرف پنجاب ایچ ای سی ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں کے کمیشن بھی بے اختیار ہوجائیں گے۔

چیئر پرسن نے قانونی ماہرین سے جب رائے مانگی تو بیشتر ماہرین نے واضح طور پر اس مسودہ قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا۔ ایچ ای سی میں سندھ ایچ ای سی کے چیئر پرسن ڈاکٹر طارق رفیع نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد صوبائی ایچ ای سی کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تنظیم فیڈریشن آف پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن Feasts کا بیانیہ ہے کہ اس ترمیم کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس ترمیم سے یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر ضرب لگے گی۔

ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی توجہ تعلیم کے پھیلاؤ اور معیارِ تعلیم کو بلند کرنے پر ہونی چاہیے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کا مالیاتی خسارہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بعض یونیورسٹیاں اساتذہ کو تنخواہیں اور پنشن ادا نہیں کر سکتیں۔

سرکاری یونیورسٹیوں میں عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں، بیشتر یونیورسٹیوں میں جدید کلاس روم موجود نہیں ہیں، مالیاتی وسائل کی کمی کی بناء پر یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی کے مقالے جانچنے والے غیر ملکی ماہرین کو رقم ادا نہیں کر پاتیں۔

اردو یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ جب ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے تھیسز کی جانچ پڑتال کرنے والے غیر ملکی پروفیسروں کو معاوضہ نہ ادا کر پائیں تو بیشتر نے اس کام سے معذرت ظاہر کی۔ حکومت کو یونیورسٹیوں کے خسارہ کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

حکومت نے اعلیٰ تعلیم سے متعلق اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ نہیں کیا، یوں ایک ایسا قانون منظر ِعام پر آیا جس میں علمی آزادی کے ادارہ کا تحفظ نہیں ہے۔
Load Next Story