صوبے بااختیار لیکن کارکردگی پر سوالیہ نشان
2013 میں کے پی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی کارکردگی بعد میں آنے والے محمود خان سے بہت بہتر تھی
پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خود مختاری اور اہم وفاقی اختیارات دیے گئے تھے جس کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ میں یہ تیسری حکومت ہے۔
وفاق کے ساتھ 2008 میں سندھ میں پی پی کی حکومت بنی تھی، اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تھی جو 2018 تک قائم رہی اور اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی انتہائی بااختیار حکومت کو بھی دس سال ہو چکے ہیں۔
2013 میں کے پی میں پی ٹی آئی نے مخلوط حکومت بنائی تھی جس کے بعد 2018 میں پی ٹی آئی نے سندھ کی طرح بھاری اکثریت سے تنہا حکومت بنائی تھی جب کہ بلوچستان میں 2008 کے بعد سے مخلوط اور کمزور حکومتیں بنتی رہیں اور وہاں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعلیٰ بھی تبدیل ہوتے رہے۔
2008کے بعد پی پی کی سندھ حکومت 15 سالوں سے قائم ہے۔ 2018میں کے پی کے ساتھ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود (ق) لیگ سے مل کر اپنی حکومت بنائی تھی اورکمزور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو منتخب کرایا تھا جس پر سخت اعتراضات ہوئے تھے۔
پنجاب میں اس سے قبل شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ تھا جس کے ادوار میں پنجاب مثالی صوبہ بنا تھا اور متحرک وزیر اعلیٰ کی وجہ سے پنجاب ترقیاتی منصوبوں میں باقی تین صوبوں سے آگے تھا جس کا اعتراف ملک میں ہی نہیں عالمی سطح پر بھی کیا جاتا تھا۔
پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی کے توڑ کے لیے اس وقت سلیکٹ کرائے گئے وزیر اعظم کو پنجاب میں کسی متحرک اور کام کرنے والے کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہیے تھا۔
2013 میں کے پی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی کارکردگی بعد میں آنے والے محمود خان سے بہت بہتر تھی جو سلیکٹڈ وزیر اعظم کو اس لیے پسند نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے چیئرمین کی کم مانتے تھے اور اپنی مرضی سے کام کو ترجیح دیتے تھے جس کی وجہ سے انھیں دوبارہ وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا جو ان کا حق تھا۔
پی ٹی آئی کے قائد کے برعکس مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے کام کرنے والوں کی قدرکی اور سندھ میں مراد علی شاہ کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے میاں شہباز شریف کو تیسری بار وزیر اعلیٰ بنا کر پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا تھا اور شہباز شریف چاروں صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کو مثالی صوبہ بنانے میں کامیاب رہے تھے جن کی کارکردگی کا ملک بھر میں اعتراف کیا جاتا تھا اور پنجاب کی حکومت مثالی تسلیم کی جاتی تھی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنی آمرانہ پالیسی کے تحت پنجاب اور کے پی میں ایسے وزیر اعلیٰ رکھے جو اسلام آباد سے کنٹرول کیے جاتے تھے اور وہاں کے وزراء عہدوں کے قابل نہیں تھے جن کا کام اپنے صوبوں کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے بجائے اپنے وزیر اعظم کی خوشامد تھا جس کی وجہ سے پنجاب اور کے پی کی ترقی کو بریک لگ گیا۔
پنجاب میں شہباز شریف کی طرح (ق) لیگ حکومت میں چوہدری پرویز الٰہی بھی کامیاب وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے تھے اور پنجاب میں ترقی بھی ہوئی تھی جن کی کارکردگی تسلیم کرنے کے بجائے پی ٹی آئی چیئرمین نے ان کی مخالفت کی مگر بعد میں اپنے اقتدار کے لیے پرویز الٰہی کو اس وقت کے وزیر اعظم نے اسپیکر پنجاب اسمبلی اور بعد میں چند ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ بھی بنایا مگر بزدار دور میں تباہ پنجاب پھر ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکا۔
سندھ کی حکومت آج کل میڈیا میں ترقی میں سب سے آگے سندھ کا جو دعویٰ کر رہی ہے اس میں کچھ صداقت بھی ہے مگر سندھ کی یہ ترقی شہری سندھ کے بجائے اندرون سندھ میں ضرور ہوئی ہے اور صحت کی سہولیات کی فراہمی میں سندھ ضرور دوسرے صوبوں سے آگے ہے اور سندھ حکومت کے دعوؤں کے مطابق دوسرے صوبوں کے لوگ بھی سندھ آ کر سندھ حکومت کی فراہم کردہ علاج کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں سندھ کے بعض علاقوں سکھر اور گمبٹ میں جگر اور دل کے امراض کا مفت علاج کیا جا رہا ہے۔ سندھ میں صحت کی سہولتوں کے ساتھ سڑکوں کی حالت پر بھی توجہ دی گئی ہے مگر تعلیم کے نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
سندھ کے عوام بنیادی سہولیات سے اب بھی محروم ہیں۔ پاکستان میں تو نہیں البتہ بھارت میں دہلی میں کیجریوال کی واحد مثالی حکومت ہے جس کی برصغیر میں مثال نہیں ملتی جن کی کارکردگی بہترین اور دہلی حکومت مثالی ہے۔ پنجاب میں سڑکوں کی صورت حال دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہے جب کہ بلوچستان اس معاملے میں سب سے پیچھے ہے۔
کے پی میں تفریحی مقامات تک سڑکوں کا فقدان ہے اور چاروں صوبوں میں وفاق نے این ایچ کے ذریعے سڑکیں بنائی ہیں جو بہت محدود علاقوں تک ہیں اور صوبوں کے اندرونی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھانا صوبوں کا کام ہے جو اطمینان بخش نہیں۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبے با اختیار ہوئے ہیں اور وہ ان محکموں میں مکمل بااختیار ہیں جن کا عوام سے برائے راست تعلق ہے اور عوام کا واسطہ بھی انھی محکموں سے پڑتا ہے۔
18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی نظام، امن و امان کی بحالی، قیمتوں پر کنٹرول اور مہنگائی روکنا اب وفاق کی نہیں صوبوں کی ذمے داری ہے۔ تعلیم، صحت، مواصلات و دیگر محکمے تو پہلے بھی صوبوں کے پاس تھے مگر عوام کی اکثریت کا واسطہ زیادہ تر بلدیات، پولیس اور بیورو کریسی سے زیادہ پڑتا ہے۔
اس وقت چاروں صوبوں کے عوام کے اہم مسائل میں بے روزگاری، مہنگائی اور امن و امان ہے، وفاقی حکومت کا کام تو پٹرول، بجلی و گیس کے نرخ بڑھا کر مہنگائی بڑھانا رہ گیا ہے جب کہ قیمتوں کا تقرر اور مہنگائی روکنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے اور تمام صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں مکمل ناکام ہیں صرف پنجاب میں اشیائے خور و نوش کے نرخ نامے آویزاں اور نمایاں نظر آتے ہیں باقی صوبوں میں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے اور گراں فروشوں نے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے نہ کوئی معیار چیک کرنے والا ہے نہ کوئی حکومت قیمتوں کو کنٹرول کررہی ہے۔
ہر طرف عوام کو لوٹنے کا بازار گرم ہے من مانے نرخ وصول کیے جا رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اور ہر حکومت مہنگائی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بدامنی انتہا پر ہے تو سندھ و پنجاب کے بعض علاقوں میں ڈاکو راج قائم ہے جہاں لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کیا جاتا ہے اور حکومتی اقدامات ناکام ہیں چاروں صوبوں میں من مانے بلدیاتی نظام، پولیس اور بیورو کریسی میں من پسند تقرریاں، رشوت پر ملازمتیں اور اقربا پروری عروج پر ہے اور کوئی ایک صوبائی حکومت ایسی نہیں جس کی کارکردگی دکھانا ہی نہیں چاہتا نہ کوئی عوام کا حقیقی خیر خواہ ہے جس سے عوام سخت پریشان ہیں۔