انٹرا پارٹی الیکشن بنیادِ جمہوریت
اس قانون کے مطابق ہر چار سال بعد انتخابی عمل مکمل کرنا ہر سیاسی جماعت کی قانونی مجبوری ہوتی ہے
کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر وہ سیاسی جماعت جو عام انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش رکھتی ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی جماعت کے اندر جمہوریت ہونے کا ٹھوس ثبوت دے، یعنی اپنی پارٹی کے اندر شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے۔
بہت سے جمہوری معاشرے ایسے ہیں جہاں ہر اس سیاسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا، جس نے پہلے سے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات نہ کرائے ہوں۔ یہ ایک بالکل منطقی بات ہے کہ جس پارٹی میں اپنے اندر جمہوریت نہ ہو وہ ملک میں کیا جمہوریت نافذکرسکے گی۔
پاکستان کی بات کی جائے تو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت ہر چار سال بعد ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی پابند ہے خواہ صورت حال کچھ بھی ہو۔
اس قانون کے مطابق ہر چار سال بعد انتخابی عمل مکمل کرنا ہر سیاسی جماعت کی قانونی مجبوری ہوتی ہے۔ جو سیاسی جماعت ایسا نہیں کرے گی اس جماعت کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ کر دی جاتی ہے اور وہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتی۔ لہٰذا رجسٹریشن کو بحال رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشن کا سوانگ رچانا قانونی پابندی ہے۔
لمحہ موجود میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 168 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، جس کی تفصیل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ان رجسٹرڈ جماعتوں میں صرف وہی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں جو پولٹیکل پارٹیز آرڈر 2002کی انٹرا پارٹی الیکشن کی شرط پر پورا اتریں گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے استثناء کے ساتھ تمام جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کاغذات کی حد تک ہوتے ہیںجو کہ اصل میں ہوتا سلیکشن ہی ہے۔ جو پارٹی کے کرتا دھرتا الیکشن کمیشن کی شرائط پورے کر دینے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔
تیسری جماعت تحریک انصاف ہے جس نے ایک بار انٹرا پارٹی الیکشن کرائے تھے مگر اس میں جو کچھ ہوا الامان الحفیظ، اس دھاندلی زدہ اور دو نمبر الیکشن سے سلیکشن بہت بہتر ہوتا، جس پر پارٹی کے منتخب کردہ الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین کا موقف تاریخ کا حصہ ہے انھوں نے اسے غیر منصفانہ اور پیسے کے زور پر دو نمبری کا نمونہ کہا، چاہیے تو یہ تھا کہ دھاندلی کرنے والوں کو نکالا جاتا مگر وہ سارے کے سارے اے ٹی ایم مشینیں تھی ان کو کیسے نکالا جا سکتا تھا اس لیے اس سچ کی پاداش میں ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین کو پارٹی سے نکالا گیا اور اس کے بعد سے لے کر آج تک بند کمروں کے اندر سلیکشن کرکے کاغذات الیکشن کمیشن میں جمع کیے جاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے انتخابات باقاعدہ اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتے ہیں مگر اس میں ووٹ کا حق صرف ارکان کو ہوتا ہے اور ارکان، کارکنان کے منتخب کردہ نہیں بلکہ نظم کے انتخاب کے ذریعے چنے جاتے ہیں اس لیے اس کو مکمل جمہوری انتخابات نہیں کہے جاسکتے۔ مگر اگر غیر جانبدارانہ اور غیر متعصبانہ نظر سے دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی جماعت قانونی تقاضے پورے کر کے انٹرا پارٹی الیکشن کروا کر الیکشن کمیشن کو جماعتی انتخابات کی رپورٹ جمع کراتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن بروقت کرنے میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے اور اس بنیاد پر اسے حقیقی جمہوری پارٹی کہا جا سکتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پورے پاکستان میں یونین کونسل اور ویلیج کونسل کی سطح سے رکنیت سازی ہوتی ہے اس رکنیت سازی میں پرانے ورکرز تجدید عہد وفا کرتے ہیں اور نئے لوگ جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیارکرتے ہیں اور رکنیت سازی کی بنیاد پر انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے تازہ ووٹر لسٹیں بنوائی جاتی ہے۔ پھر یونین کونسل کے لیول سے انتخابات شروع ہوتے ہیں۔
تحصیل ضلعی، صوبائی اور پھر قومی سطح پر انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات اچانک ہوتے ہیں اور نہ ہی اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔
باقاعدہ ہر سطح پر شیڈول جاری ہوتا ہے، اس شیڈول اوردستور کے مطابق نامزدگیاں ہوتی ہیں اور کاغذات نامزدگی متعلقہ ناظم انتخابات کے دفتر میں جمع کیے جاتے ہیں، الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کسی سطح پر دستوری طور پر کوئی کمپین نہیں چلا سکتے بلکہ ان کی پہچان ماضی میں جماعت کے ساتھ وابستگی اور خدمات کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہوتا کوئی بھی کارکن آزادانہ طور پر الیکشن میں کسی کے مدمقابل حصہ لے سکتے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ وقت اور جگہ کا اعلان باقاعدہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
تازہ رکنیت سازی کی بنیاد پر ہر رکن کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق ملتا ہے جو حقیقی معنوں میں پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ جمہوری نظام کو گراس روٹ لیول پر مضبوط ہونے ہی نہیں دیا گیا اور ہر برائی کی طرح اس کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا جاتا ہے لیکن اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔
ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ خود مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور جمہوری اقدار کا فقدان ہے، جس کے باعث سیاسی کلچر کی نشوونما نہیں ہو پاتی، سیاسی شعور اور فہم رکھنے والے کارکنان کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت جمہوری نظام کا دفاع کرنے میں اپنا کیس ہار جاتی ہیں جب وہ خود اپنی جماعتوں میں یہ نظام نافذ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ چند روز قبل حکمران جماعت کے جو انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے اس پر ہر کوئی تنقید کر رہا ہے کہ انٹرا پارٹی سلیکشن نما الیکشن میں سارے عہدے شریف خاندان نے اپنے پاس ہی رکھ لیے ہیں۔
میرے خیال میں تنقید اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ سارے عہدے شریف خاندان نے رکھ لیے بلکہ تنقید اس پر ہونی چاہیے کہ وہ کارکنان کے ووٹ کے ذریعے منتخب نہیں ہوئے اگر پوری جمہوری انداز میں انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے تو شاید یہی لوگ منتخب ہوتے کیونکہ یہ سب متحرک اور پارٹی کے وفادار لوگ ہیں اور ہر مسلم لیگی کی نظر میں شریف خاندان سے تعلق کوئی جرم نہیں بلکہ اعزاز کی بات ہے۔
صرف مسلم لیگ نہیں پیپلزپارٹی کے ورکرز کے لیے بھی بھٹو اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان کے لیے مفتی محمود رحمہ اللہ کے خونی رشتے قابل احترام ہیں، اگر بندہ اہلیت رکھتا ہو تو پارٹی قائد کا رشتہ دار یا عزیز ہونا کوئی جرم نہیں، کہ صرف اس بنیاد پر تنقید کی جائے۔
پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی یا کوئی اور سیاسی پارٹی آپ ان کے انٹرا پارٹی الیکشن دیکھ لیں یہ خانہ پری کے سواکچھ نہیں۔ پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ یہ جماعتیں ملک میں حقیقی جمہوریت کو پھلنے پھولنے دیں گی۔
لمحہ موجود تک جمعیت علمائے اسلام ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو جمہوری اصولوں کی پاسدار و علمبردار ہے۔ جسے آج تک انٹرا پارٹی الیکشن کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے ان کے گزشتہ انتخابات پر کوئی انگلی اٹھائی۔ ہر بار شفاف اور منصفانہ طریقے سے یہ عمل وقت مقررہ پر مکمل ہوجاتا ہے۔
اس بار جمعیت علماء اسلام پاکستان نے نامور عالم دین اور خیبرپختونخوا کے جنرل سیکریٹری مولانا عطاء الحق درویش کو مرکزی ناظم انتخاب مقرر کیا ہے۔
وہ صرف نام کے نہیں حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت عالم دین ہیں۔ انھوں نے نئی ذمے داری سنبھالتے ہی ملک گیر سطح پر جمعیت علمائے اسلام کی رکنیت سازی کی مہم کا باقاعدہ آغاز خود قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سے رکنیت فارم پر کرنے سے کیا۔
ملک بھر میں رکنیت سازی کا عمل مکمل ہونے کے بعد مرکزی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ امید ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اپنے ساتھ ہر سطح پر محنتی اور باصلاحیت ٹیم بنا کر اپنی ذمے داریوں کو ادا کریں گے اور ملک کی سب سے بڑی دینی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام میں شفاف رکنیت سازی اور منصفانہ انتخابات کروائیں گے۔
بہت سے جمہوری معاشرے ایسے ہیں جہاں ہر اس سیاسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا، جس نے پہلے سے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات نہ کرائے ہوں۔ یہ ایک بالکل منطقی بات ہے کہ جس پارٹی میں اپنے اندر جمہوریت نہ ہو وہ ملک میں کیا جمہوریت نافذکرسکے گی۔
پاکستان کی بات کی جائے تو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت ہر چار سال بعد ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی پابند ہے خواہ صورت حال کچھ بھی ہو۔
اس قانون کے مطابق ہر چار سال بعد انتخابی عمل مکمل کرنا ہر سیاسی جماعت کی قانونی مجبوری ہوتی ہے۔ جو سیاسی جماعت ایسا نہیں کرے گی اس جماعت کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ کر دی جاتی ہے اور وہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتی۔ لہٰذا رجسٹریشن کو بحال رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشن کا سوانگ رچانا قانونی پابندی ہے۔
لمحہ موجود میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 168 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، جس کی تفصیل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ان رجسٹرڈ جماعتوں میں صرف وہی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں جو پولٹیکل پارٹیز آرڈر 2002کی انٹرا پارٹی الیکشن کی شرط پر پورا اتریں گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے استثناء کے ساتھ تمام جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کاغذات کی حد تک ہوتے ہیںجو کہ اصل میں ہوتا سلیکشن ہی ہے۔ جو پارٹی کے کرتا دھرتا الیکشن کمیشن کی شرائط پورے کر دینے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔
تیسری جماعت تحریک انصاف ہے جس نے ایک بار انٹرا پارٹی الیکشن کرائے تھے مگر اس میں جو کچھ ہوا الامان الحفیظ، اس دھاندلی زدہ اور دو نمبر الیکشن سے سلیکشن بہت بہتر ہوتا، جس پر پارٹی کے منتخب کردہ الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین کا موقف تاریخ کا حصہ ہے انھوں نے اسے غیر منصفانہ اور پیسے کے زور پر دو نمبری کا نمونہ کہا، چاہیے تو یہ تھا کہ دھاندلی کرنے والوں کو نکالا جاتا مگر وہ سارے کے سارے اے ٹی ایم مشینیں تھی ان کو کیسے نکالا جا سکتا تھا اس لیے اس سچ کی پاداش میں ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین کو پارٹی سے نکالا گیا اور اس کے بعد سے لے کر آج تک بند کمروں کے اندر سلیکشن کرکے کاغذات الیکشن کمیشن میں جمع کیے جاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے انتخابات باقاعدہ اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتے ہیں مگر اس میں ووٹ کا حق صرف ارکان کو ہوتا ہے اور ارکان، کارکنان کے منتخب کردہ نہیں بلکہ نظم کے انتخاب کے ذریعے چنے جاتے ہیں اس لیے اس کو مکمل جمہوری انتخابات نہیں کہے جاسکتے۔ مگر اگر غیر جانبدارانہ اور غیر متعصبانہ نظر سے دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی جماعت قانونی تقاضے پورے کر کے انٹرا پارٹی الیکشن کروا کر الیکشن کمیشن کو جماعتی انتخابات کی رپورٹ جمع کراتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن بروقت کرنے میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے اور اس بنیاد پر اسے حقیقی جمہوری پارٹی کہا جا سکتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پورے پاکستان میں یونین کونسل اور ویلیج کونسل کی سطح سے رکنیت سازی ہوتی ہے اس رکنیت سازی میں پرانے ورکرز تجدید عہد وفا کرتے ہیں اور نئے لوگ جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیارکرتے ہیں اور رکنیت سازی کی بنیاد پر انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے تازہ ووٹر لسٹیں بنوائی جاتی ہے۔ پھر یونین کونسل کے لیول سے انتخابات شروع ہوتے ہیں۔
تحصیل ضلعی، صوبائی اور پھر قومی سطح پر انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات اچانک ہوتے ہیں اور نہ ہی اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔
باقاعدہ ہر سطح پر شیڈول جاری ہوتا ہے، اس شیڈول اوردستور کے مطابق نامزدگیاں ہوتی ہیں اور کاغذات نامزدگی متعلقہ ناظم انتخابات کے دفتر میں جمع کیے جاتے ہیں، الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کسی سطح پر دستوری طور پر کوئی کمپین نہیں چلا سکتے بلکہ ان کی پہچان ماضی میں جماعت کے ساتھ وابستگی اور خدمات کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہوتا کوئی بھی کارکن آزادانہ طور پر الیکشن میں کسی کے مدمقابل حصہ لے سکتے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ وقت اور جگہ کا اعلان باقاعدہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
تازہ رکنیت سازی کی بنیاد پر ہر رکن کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق ملتا ہے جو حقیقی معنوں میں پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ جمہوری نظام کو گراس روٹ لیول پر مضبوط ہونے ہی نہیں دیا گیا اور ہر برائی کی طرح اس کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا جاتا ہے لیکن اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔
ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ خود مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور جمہوری اقدار کا فقدان ہے، جس کے باعث سیاسی کلچر کی نشوونما نہیں ہو پاتی، سیاسی شعور اور فہم رکھنے والے کارکنان کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت جمہوری نظام کا دفاع کرنے میں اپنا کیس ہار جاتی ہیں جب وہ خود اپنی جماعتوں میں یہ نظام نافذ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ چند روز قبل حکمران جماعت کے جو انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے اس پر ہر کوئی تنقید کر رہا ہے کہ انٹرا پارٹی سلیکشن نما الیکشن میں سارے عہدے شریف خاندان نے اپنے پاس ہی رکھ لیے ہیں۔
میرے خیال میں تنقید اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ سارے عہدے شریف خاندان نے رکھ لیے بلکہ تنقید اس پر ہونی چاہیے کہ وہ کارکنان کے ووٹ کے ذریعے منتخب نہیں ہوئے اگر پوری جمہوری انداز میں انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے تو شاید یہی لوگ منتخب ہوتے کیونکہ یہ سب متحرک اور پارٹی کے وفادار لوگ ہیں اور ہر مسلم لیگی کی نظر میں شریف خاندان سے تعلق کوئی جرم نہیں بلکہ اعزاز کی بات ہے۔
صرف مسلم لیگ نہیں پیپلزپارٹی کے ورکرز کے لیے بھی بھٹو اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان کے لیے مفتی محمود رحمہ اللہ کے خونی رشتے قابل احترام ہیں، اگر بندہ اہلیت رکھتا ہو تو پارٹی قائد کا رشتہ دار یا عزیز ہونا کوئی جرم نہیں، کہ صرف اس بنیاد پر تنقید کی جائے۔
پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی یا کوئی اور سیاسی پارٹی آپ ان کے انٹرا پارٹی الیکشن دیکھ لیں یہ خانہ پری کے سواکچھ نہیں۔ پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ یہ جماعتیں ملک میں حقیقی جمہوریت کو پھلنے پھولنے دیں گی۔
لمحہ موجود تک جمعیت علمائے اسلام ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو جمہوری اصولوں کی پاسدار و علمبردار ہے۔ جسے آج تک انٹرا پارٹی الیکشن کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے ان کے گزشتہ انتخابات پر کوئی انگلی اٹھائی۔ ہر بار شفاف اور منصفانہ طریقے سے یہ عمل وقت مقررہ پر مکمل ہوجاتا ہے۔
اس بار جمعیت علماء اسلام پاکستان نے نامور عالم دین اور خیبرپختونخوا کے جنرل سیکریٹری مولانا عطاء الحق درویش کو مرکزی ناظم انتخاب مقرر کیا ہے۔
وہ صرف نام کے نہیں حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت عالم دین ہیں۔ انھوں نے نئی ذمے داری سنبھالتے ہی ملک گیر سطح پر جمعیت علمائے اسلام کی رکنیت سازی کی مہم کا باقاعدہ آغاز خود قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سے رکنیت فارم پر کرنے سے کیا۔
ملک بھر میں رکنیت سازی کا عمل مکمل ہونے کے بعد مرکزی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ امید ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اپنے ساتھ ہر سطح پر محنتی اور باصلاحیت ٹیم بنا کر اپنی ذمے داریوں کو ادا کریں گے اور ملک کی سب سے بڑی دینی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام میں شفاف رکنیت سازی اور منصفانہ انتخابات کروائیں گے۔