الیکشن ایکٹ میں ترامیم

جو بھی نگراں حکومت آئے اس کے پاس ایک تو پاکستان چلانے کی صلاحیت ہونی چاہیے

msuherwardy@gmail.com

الیکشن ایکٹ میں نئی ترمیم کا جو مسودہ سامنے آیا ہے۔ اس کے مطابق ایکٹ میں 54 ترامیم شامل کی گئی ہیں۔ سب سے پہلے نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے۔ میں اس کے حق میں ہوں۔

یہ درست ہے کہ دوست کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ایک لمبے نگران لانے کی تیاری ہو رہی ہے اس لیے نگران حکومت کو اضافی اختیارات دینے کی بات کی جا رہی ہے۔

پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ چاہے کوئی حکومت ایک دن کے لیے بھی آئے اس کے پاس ملک چلانے کے مکمل اختیارات ہونے چاہیے۔ لولی لنگڑی اور بے اختیار نگراں حکومتوں نے بھی پاکستان کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ کیا کوئی ملک چار چھ ماہ کے لیے ایک لولی لنگڑی نگران حکومت کا متحمل ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں۔ اس لیے جو بھی نگراں حکومت آئے اس کے پاس ایک تو پاکستان چلانے کی صلاحیت ہونی چاہیے دوسرا اس کے پاس ملک چلانے کے لیے مکمل اختیار ہونا چاہیے۔

لوگوں کے شکوک ہیں۔ لیکن اچھا تو یہی ہے کہ نان حکومت کا سلسلہ ہی ختم کر دیا جائے لیکن اگر رکھنا ہے تو انھیں اختیار بھی دینا ہوگا۔اس لیے اگر نگران حکومت کو عالمی معاہدے کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے تو یہ کوئی غلط نہیں۔ حکومت تو حکومت ہوتی ہے چاہے نگران ہو۔

نئی ترامیم کے مطابق پریزائیڈنگ افسر گنتی کے بعد نتائج کی فوری تصویر بنا کر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجے گا۔ اگر انٹرنیٹ میسر نہیں تو پریزائیڈنگ افسر خود جا کر نتائج بھیجے گا۔ بر وقت نتائج کے بغیر شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ 2018میں آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا۔ اس لیے بروقت نتائج پہلی ترجیح ہونے چاہیے۔ اس سے نتائج بدلنے کا راستہ بھی رک جائے گا۔ سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹینشنز کے باہر تعینات ہوں گے۔

پولنگ اسٹیشن کے اندر صرف الیکنش کمیشن کا عملہ ہونا چاہیے۔ جب تک وہ نہ کہیں کسی بھی سیکیورٹی ادارے کو پولنگ اسٹیشن کے اندر نہیں آنا چاہیے۔ اس لیے یہ اچھی ترمیم ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی متنازعہ ترامیم ہیں۔

اسی لیے تحریک انصاف کو بھی ان ترامیم کی حمایت حاصل ہے۔ نئی ترامیم میں پریزائیڈنگ افسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا اور نتائج کی تاخیر کی صورت میں ٹھوس وجہ بتائے گا۔ابھی تو ہم نے دیکھا ہے کہ تین تین دن تک نتائج رکے رہتے ہیں۔

اس لیے رات دو بجے کی شرط ٹھیک ہے۔ پریزائیڈنگ افسر کے پاس الیکشن نتائج کے لیے اگلے دن صبح 10 بجے کی ڈیڈ لائن ہوگی۔ اس طرح صبح دس بجے تک سب عمل مکمل ہو جائے گا۔


سب سے اچھی ترمیم یہ کی گئی ہے کہ کسی رکن کے حلف نہ لینے پر نشست خالی تصور کی جائے گی۔ ابھی تک معاملہ یہ تھا کہ لوگ جیت کر کئی کئی سال حلف ہی نہیں لیتے تھے۔ اسحاق ڈار نے چار سال حلف نہیں لیا۔

چوہدری نثار نے چار سال حلف نہیںلیا۔ اس کی وجہ سے پارلیمان بھی نا مکمل رہتی ہے۔ اس لیے حلف نہ لینے پر نشست خالی تصور ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

نئی ترامیم کے تحت حلقہ بندیوں کا عمل انتخابات سے 4 ماہ پہلے مکمل کرنا ہوگا۔ اس کے دو مطلب ہیں کہ اگر بروقت انتخابات ہو رہے ہیں تو پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں پر ہو رہے ہیں ۔ لیکن اگر نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات ہونے ہیں تو پھر اس ترامیم کے بعد لمبی نگران حکومت کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔

لیکن ابھی تک پرانی مردم شماری پر انتخابات کروانے کا ہی فیصلہ ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن پولنگ سے ایک روز قبل شکایات نمٹانے کا پابند ہوگا۔ ابھی تو شکایات بغیر فیصلوں کے پڑی رہتی ہیں۔ اسی طرح ترمیم کی گئی ہے کہ پولنگ ڈے سے 5 روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔

ابھی تو دھاندلی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ رات کو پولنگ اسٹیشن تبدییل کر دیا جائے۔ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ پولنگ اسٹیشن کہاں ہے۔ اس لیے یہ راستہ بھی روکا گیا ہے۔ حلقہ بندیاں رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر کی جائیں۔ ابھی تو کسی حلقہ میں زیادہ اور کسی میں کم ہوتے ہیں۔ حلقوں میں ووٹرز کی تعداد میں فرق 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔

ایک جیسے تو ممکن نہیں۔ لیکن پانچ فیصد ایک اچھی شرح ہے۔ پولنگ عملہ انتخابات کے دوران اپنی تحصیل میں ڈیوٹی نہیں دے گا۔ مقامی لوگوں کی مقامی سیاسی وفاداریاں ہوتی ہیں۔ لیکن پھر بھی خواتین کے لیے اپنی تحصیل سے باہر ڈیوٹی دینا مشکل ہوگا۔ پھر لوگوں کو ٹی اے ڈی اے بھی زیادہ دینا چاہیے اورایڈوانس میں دینا چاہیے۔

پولنگ اسٹیشن میں کیمروں کی تنصیب میں ووٹ کی رازداری یقینی بنائی جائے گی۔ اب تو لوگ اپنے موبائل سے ہی تصویر بنا لیتے ہیں۔ لیکن یہ ٹھیک بات ہے کہ سرکار کیمرہ نہیں لگا سکتی، جیسے سینیٹ میں لگ گئے تھے۔

آج تک نہیں معلوم ہوا کہ کس نے لگائے۔ امیدوار ٹھوس وجوہات پر پولنگ اسٹیشن کے قیام پر اعتراض کرسکے گا۔ یہ ٹھوس وجہ کیا ہوگی۔ بہر حال اس کی مزید تشریح ہونی چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ امیدوار کو لگتا ہے کہ جہاں وہ کمزور ہے وہ وہاں کے پولنگ اسٹیشن پر اعتراض کرتا ہے تاکہ وہاں سے کم ووٹ ڈلیں۔
Load Next Story