یوم شہداء کی باوقار تقریب کا احوال

میرے لیے کسی تقریب میں جانا خاصا مشکل ہوتا ہے‘ خصوصاً ایسی تقریبات جن میں تھوک کے حساب سے لوگ موجود ہوتے ہیں


Latif Chaudhry May 05, 2014
[email protected]

میرے لیے کسی تقریب میں جانا خاصا مشکل ہوتا ہے' خصوصاً ایسی تقریبات جن میں تھوک کے حساب سے لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن یہ معاملہ پاک فوج کے شہداء کا تھا اور کرنل شاہد صاحب کا کہنا بھی تھا' جسے رد کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا' یوں میں 30 اپریل کو لاہور ایئر پورٹ کے نزدیک یاد گار شہداء پہنچا جہاں یوم شہداء کی تقریب کا انعقاد تھا۔ راستے میں ٹریفک کا بہت رش تھا' ایسا لگتا تھا کہ شاید میں وقت پر نہیں پہنچ پاؤں گا لیکن پاک فوج کے جوانوں نے بڑی مستعدی سے صورت حال کو کنٹرول کر رکھا تھا' اس لیے کسی مقام پر ٹریفک رکی نہیں۔ بے پناہ رش کے باوجود ٹریفک رواں دواں تھی۔ میں جب وہاں پہنچا تو سارا پنڈال کھچا کھچ بھر چکا تھا' ایسا لگتا تھا شاید گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر یہ تقریب دیکھنا پڑے گی لیکن جدوجہد کام آئی اور مجھے اگلی نشستوں میں سے ایک نشست خالی نظر آئی' ایک باوردی افسر نے میری طرف دیکھا' میں نے تعارف کرایا اور انھوں نے کمال مہربانی سے مجھے فوراً بیٹھنے کا کہہ دیا۔

یہ یوم شہداء کی پانچویں سالانہ تقریب تھی' اس سے پہلے بھی ایسی تقریبات ہو چکی ہیں لیکن یہ غیر معمولی حالات میں منعقد ہو رہی تھی' اس لیے اس کا رنگ کچھ اور تھا۔ پاک فوج بہت سے کارنرز کی طرف سے دباؤ محسوس کر رہی ہے' حکومت اور فوج کے درمیان اہم پالیسی ایشوز پر اختلافات کی باتیں عام ہیں' حکومت کی طالبان پالیسی مبہم ہے' شمال مغرب اور مشرق میں حکومت کی پالیسی شاید اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں۔ آئی ایس آئی بھی بعض قوتوں کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ یہ تقریب ایسے حالات میں منعقد ہو رہی تھی' شاید یہ حالات کا جبر ہی تھا کہ میں نے وہاں شرکاء میں بے پناہ جوش و خروش دیکھا' ریٹائرڈ فوجی وردیاں اور ان پر تمغے سجا کر تقریب میں شریک ہوئے' سابق گورنر پنجاب خالد مقبول نے لیفٹیننٹ جنرل کی یونیفارم پہن رکھی تھیں' تقریب کے اختتام پر بریگیڈ (ر) اسلم گھمن سے ملاقات ہو گئی' وہ بھی یونیفارم میں ملبوس تھے' میں نے انھیں پہلی بار سینے پر میڈل لگائے ہوئے دیکھا۔''کہنے لگے' پہلے بھی پاک فوج نے ملک کو بچایا اور اب بھی وہی اسے بچائے گی''۔ وہ آئی ایس آئی میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں' سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی بہت سی قابل اعتراض سرگرمیوں کے عینی شاہد ہیں۔

انھوں نے ایک کتاب ''ہاں یہ سچ ہے'' کے عنوان سے مکمل ہے' مجھے بھی انھوں نے یہ کتاب بڑی محبت سے عنایت کی ہے۔ اس حوالے سے بھی پوچھنے لگے کہ کیسی لگی میری کتاب' میں نے کہا ''اس کا جواب کالم لکھ کر دوں گا''۔ زندگی رہی تو یہ کالم ضرور لکھوں گا۔ میں نے اس تقریب میں ایسے ضعیف ریٹائرڈ فوجی بھی دیکھے' جو سہارے کے بغیر چل نہیں سکتے تھے لیکن وہ عالم پیرانہ سالی کے باوجود گھروں سے نکلے اور وہ بھی یہاں موجود تھے۔ صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن میں سلمان عابد' تنویر شہزاد اور نصراللہ ملک بھی شامل تھے۔ تقریب کی کمپیئرنگ کے فرائض نیلام گھر والے طارق عزیز نے انجام دیے۔ اس میں کور کمانڈر لاہور نوید زمان' گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور حمزہ شہباز شریف موجود تھے۔

تقریب میں جب بھی کسی شہید کے ورثا اسٹیج پر آئے اور انھوں نے اپنے تاثرات بیان کیے تو ماحول سوگوار ہوگیا اور اس کے ساتھ ساتھ جوش و جذبے بھی بلند ہوئے' میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا۔'' جب شہداء کے ورثا اتنی جرات اور بہادری دکھا رہے ہیں تو ہم کیوں کسی سے پیچھے رہیں''۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ آنے والی شہداء کی بیواؤں اور والدین کی جرات و استقامت قابل دید تھی' ایک نوجوان بیوہ نے اسٹیج پر آ کر کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرائے گی' اس نوجوان بیوہ کا ننھا منا بیٹا وردی میں ملبوس اس کے ساتھ کھڑا تھا' جیسے ہی اس کے الفاظ سامعین کے کانوں سے ٹکرائے تو فضا عجیب سوگواری کا منظر پیش کررہی تھی' اسی طرح ایک شہید کی والدہ اور والد نے اسٹیج پر آ کر عزم و ہمت کی نئی داستان رقم کی' اس دوران سائرہ رضا خان اور عطاء اللہ عیسی خیلوی کے صاحبزادے نے ملی نغموں سے فضا کو مترنم کیے رکھا' تقریب میں خوشی و جوش سے تمتماتے چہرے کبھی سوگوار ہوتے اور کبھی جذبات سے لبریز ہو جاتے' میں نے حاضرین کو پرنم دیکھا' بڑے بڑے جنرل ریٹائرڈ فوجی افسران' بیورو کریٹس' سیاستدان اور صحافی بھی اپنی آنکھوں کو بھیگنے سے نہ بچا سکے' یہ اس ماحول کا خاص رنگ تھا۔

آخر میں کور کمانڈر لاہور نے اپنی مختصر تقریر میں بین السطور بہت کچھ کہہ دیا'انھوں نے واضح کیا کہ اندرون ملک کچھ مٹھی بھر لوگ فوج اور عوام کے مابین دوری پیدا کرنے کے در پے ہیں۔ انھوں نے جہاں جہاں جو پیغام پہنچانا تھا' وہ پہنچا دیا کہ فوج اور عوام کے رشتے کو کبھی توڑا نہیں جا سکتا اور جو قوتیں ایسا کر رہی ہیں یا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں' وہ سب ناکامی سے دوچار ہوں گی۔

پاکستان آج جس صورت حال سے دو چار ہے' اس میں پاک فوج کی اہمیت اور کردار کو کم کرنے کے بجائے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مجھے اس بات سے حیرانی ہوئی کہ یوم شہدا سے ایک روز قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف برطانیہ کے دورے پر چلے گئے' وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف بھی ان کے ہمراہ تھے' یوں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب دونوں اس اہم ترین موقع پر ملک میں موجود نہیں تھے۔ اسے مجھ سمیت سب صحافیوں نے محسوس کیا۔ بہتر ہوتا اگر وہ اس غیر معمولی صورتحال میں وطن میں موجود ہوتے۔ جی ایچ کیو میں یوم شہداء کی تقریب میں وزیراعظم میاں نواز شریف چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے ساتھ اور لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کور کمانڈر لاہور نوید زمان کے ساتھ ہوتے تو آج کسی کو یہ سوال پوچھنا نہ پڑتا' ایسا کیوں نہیں ہوا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں