حسرت…

ایک مولانا وہ بھی تھا جس کو ہم حسرت موہانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ایک مولانا وہ بھی تھا جس کو ہم حسرت موہانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ جس کے سر پر ترکی ٹوپی ہوا کرتی تھی اور دل میں وہ سازمحبت جو مسلسل بجتا رہتا تھا۔ جس کے احساسات کی انگلیاں جذبات کے تاروں کو چھیڑکر ہمیں ایسے گیت سناتی تھیں، جنھیں سن کر ہم محبت کی وادیوں میں دور تک نکل جایا کرتے تھے۔ وہ گیت آج بھی گونج رہے ہیں مگر موجودہ دور میں حسرت موہانی جیسے کردار نہیں۔ موجودہ دور میں محبت کی جگہ دہشت نے لے لی ہے۔ اس لیے ہمارا حشر اس پرندے جیسا ہوگیا ہے جو قفس میں بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔مرزا غالب نے کہا تھا کہ:

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

اس دن بھی شہر قائد اپنی تمام تر بجھی ہوئی روشنیوں اور ویران راہوں کے ساتھ دشت کا منظر پیش کر رہا تھا اور مجھے شدت سے یاد آ رہی تھی اس انشا جی کی جو شہر سے نکل کر بن میں بسرام کرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ اس دن ویرانی شہر کو دیکھ کر میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ ''اگر ابن انشا آج ہوتے تو جنگل جانے کے لیے نہ روتے۔''

اس دن ہم نے ٹی وی پر بیٹھ کر ''بریکنگ نیوز'' سننے کے بجائے حسرت موہانی کی وہ غزل سنی جن میں محبت مچلتی ہے۔ حسرت موہانی کی ایک غزل جو عابدہ پروین نے گائی ہے، اسے سننے کے بعد ہم سوچنے لگے کہ اگر موجودہ دور میں حسرت موہانی جیسے حسن پرست شعراء ہوتے تو وہ نہ معلوم کیا لکھتے۔

اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

موجودہ دور میں تو پردہ جوانی کے چلے جانے کا احتجاج بن گیا ہے مگر اس دور میں تو خوبصورت عورتیں بھی پردے میں رہا کرتی تھیں۔ مگر حسرت موہانی نے پھر بھی تصورات کی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھے کہ انھیں حسین جسم کے خدوخال کے باعث تمام پیراہن رنگین نظر آیا۔ مگر یہی حسرت موہانی اگر موسم بدلنے کے باعث فیشن کے نت نئے ڈیزائن کو متعارف کرانے والا ''کیٹ واک'' دیکھتے تو کیا لکھتے؟

ہم کس طرح کہتے ہیں کہ وہ لوگ اندھیرے دور میں رہتے تھے؟ ہاں مانا کہ اس دور میں آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنیاں نہیں تھیں، مگر وہ کچھ تھا جوآج نہیں ہے۔ وہ کچھ جس کی منظر کشی کرتے ہوئے حسرت موہانی نے لکھا تھا کہ:

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

حالانکہ اس دور میں ''حسین ایکسٹریس'' بھی تھی مگر وہ ''وہ والی حسینہ '' نہیں تھی جو انڈیا میں بہت گرمی اور پاکستان میں بیحد سردی محسوس کرتی ہیں۔ اس لیے انڈیا میں فوٹو شوٹ کے لیے اسے لباس سے باہر آنا پڑتا ہے ۔ جب کہ پاکستان میں سر پہ دوپٹہ پہن کر ایئرپورٹ پر جلوہ گر ہوتی ہے۔ اور ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ محترمہ یہاں اداکاری کر رہی ہیں یا وہاں اداکاری کرتی تھیں ،جہاں جسم کی نمائش خرابی نہیں بلکہ خوبی سمجھی جاتی ہے۔ ہم تو اس بات کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتے کہ وینا ملک میں آئی ہوئی یہ تبدیلی کسی مولانا کی دعا سے ہوئی ہے یا عمر کی اس دوا سے جو ہر گزرتے ہوئے پل کے ساتھ کڑوی سے کڑوی ہوتی جاتی ہے۔

مگر ہم اسحسینہ کو دیکھتے ہوئے اس حسینہ کو یاد کرتے ہیں جس کو اپنے ملک کے حساس ادارے سے اس قدر محبت تھی کہ اس نے اپنے بدن پر اس سے چاہت بھری چاکنگ کروائی تھی۔ مگر ہم سیاست کی اسٹیج کے اداکاروں اور شوبز کی اسٹیج کے سیاستدانوں کا ماضی بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ملک میں اب تو احتساب کسی نغمے کی صورت بھی اپنا اظہار نہیں کرتا۔ کہاں گیا وہ گیت جس کو ہم سارا دن جوش و جذبے کے ساتھ سنا کرتے تھے ''احتساب بس احتساب'' اب تو یہ دور ''مفاہمت بس مفاہمت'' کی صدا لگائے جا رہا ہے۔ نئے پرانے یعنی موجود اور سابقہ حکمرانوں کے درمیاں تو مفاہمتی محبت کے سلسلے دن بہ دن بڑھتے چلے جا رہے ہیں مگر عوام کے ساتھ سیاسی جماعتیں کب مفاہمت کریں گی؟ کب عوام کی جان جہنم جیسی دہشتگردی اور احتجاجی ہڑتالوں سے نجات پائے گی؟ ہم کیا کہیں؟ کیسے کہیں؟ اس لیے ہم موجودہ سیاسی حالات سے مایوس ہوکر پھر سے پناہ لیتے ہیں ان گیتوں اور غزلوں میں، جہاں زندگی میں وحشت کا عنصر نہیں بلکہ پیار کا سایہ ہے۔ وہ پیار کا سایہ جو کسی حسینہ کے لہراتے ہوئے آنچل کے پلو سے آتی ہوئی ہوا کے باعث خوشبو بکھیر دیتا ہے اور دوپہر کے وقت بھی ہماری آنکھیں کسی خواب کے انتظار میں بند ہونے لگتی ہیں اور ہم خطروں سے بھری ہوئی خاموشی میں بھی گنگنانے لگتے ہیں کہ:


چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

مگر آج کل کی محبت میں آنسو نہیں بہائے جاتے، کچھ اور بہایا جاتا ہے۔ ہم ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کرپائے کہ زیادہ غصہ کس پر کیا جائے؟ موجودہ دور کے اخلاقیات کے ٹھیکیداروں پر یا ان نام نہاد محققین پر جو رومانس پر بھی روحانیت کا پردہ ڈالا کرتے تھے اور ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ ''میر تقی میر، غالب اور حسرت موہانی جیسے شاعروں نے مجازی محبت کے پردے میں حقیقی محبت کا پرچار کیا ہے'' اب ہم سوچتے ہیں کہ اگر ان کی محبت حقیقی تھی تو اس پر مجازیت کا پردہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے سوالات کس سے کریں؟ اور اس سے اہم سوال کہ کیوں کریں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ غالب نے ایسے سوالات کے حوالے سے لکھے ہوئے خطوط کے بارے میں ارشاد کیا تھا کہ:

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
مجھ کو پتہ ہے وہ جو لکھیں گے جواب میں

جب جواب کا پتہ ہو تو سوال پوچھنے کا مقصد باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ہم سوالات نہیں کریں گے۔ ہم تو محبت کے ساتھ اس حسرت موہانی کو یاد کریں گے جس کے بارے میں فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ: ''مرجائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے''مگر اس دور میں ظالموں کی حمایت میں جس طرح جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں، انھیں دیکھ کر تو ہمیں وہ دور یاد آجاتا ہے جس دور کا ضمیر جگانے کے لیے روس کے ایک شاعر نے لکھا تھا کہ:

جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست لی تھی

اس لیے موجودہ دور کے تلخ مناظر کی کڑواہٹ کو کچھ کم کرنے کے لیے ہم لوٹ جاتے ہیں اس حسرت موہانی کے عہد میں جس عہد کی سخن وری اور سخن فہمی کی ہم اس دور میں صرف حسرت ہی کرسکتے ہیں۔ وہ دور جس میں حسرت موہانی لکھا کرتے تھے کہ:

تجھ سے ملتے ہی وہ بے باک ہوجانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

مگر اب تو محبت بے باک ہوگئی ہے۔ مگر اس بے باکی میں وہ معصومیت کہاں سے لائیں جو حسرت موہانی کے اشعار میں ہے۔ ہم اس دور کی اب حسرت ہی کرسکتے۔ وہ دور جس کو ہم کسی طرح واپس نہیں لاسکتے۔ مگر اس دور میں جانے کی تمنا تو کرسکتے ہیں۔ جب کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ:

یہ آرزو بھی بڑی بات ہے مگر ہمدم
وصال یار محض آروز کی بات نہیں
Load Next Story