ہم اور وہ
مذاکرات کے نام پر آنکھوں والے اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں۔ درندوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔
مذاکرات کے نام پر آنکھوں والے اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں۔ درندوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔ نج کاری کے نام پر ہمارا گھر بیچنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری۔ ایک خبر ہے۔ ''طالبان کے مطالبات پر حکمت عملی تیار۔ مذاکرات جاری رہیں گے۔ سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق۔''
ایک اور خبر کے مطابق عمران خان نے دوران پریس کانفرنس کہا کہ وہ خیبر پختونخواہ اسمبلی توڑ کر دوبارہ الیکشن کروا دیں گے لیکن وزارتوں کے لیے فارورڈ بلاک کے اراکین کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے۔
میں یہ خبریں پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم، ہمارا ملک، ہماری قوم باقی دنیا سے کس قدر مختلف ہیں۔ آپ BBC نیوز دیکھیں۔ CNN نیوز سنیں۔ تو آپ کو یہ خوش گوار حیرت ہوگی کہ اگر انفرادیت اپنی صفات میں کوئی امتیاز رکھتی ہے تو ہم منفرد ہیں۔
ادھر اہل یورپ، امریکا اور جزائر کی طرف عجیب لوگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے آج کی بجائے آنے والے کل میں زندہ ہیں۔ جب دیکھو مستقبل میں جھانکتے رہتے ہیں۔ انھیں فکر ہے کہ ان کے پاس کتنے سال کی غذائی رسد موجود ہے اور کتنے سال کے بعد اس میں کتنے فی صد کمی واقع ہونے والی ہے۔ اور اس کمی سے بچنے کے لیے کس شرح سے آبادی پرکنٹرول کرنا ہوگا۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ آنے والے وقت کے لیے اپنا آج کیوں برباد کر رہے ہو۔ اور کچھ نہیں تو ''پانی'' کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں کہتے ہیں کہ 2025 میں دنیا پانی کو ترس رہی ہوگی۔ روز سنتے ہیں کہ زمین تیل، گیس ابل رہی ہے۔ وہ شرح پیداوار کم بتاتے ہیں۔ کن کن چیزوں سے پریشان رہتے ہیں۔ کیسے کیسے واہمات کا شکار ہیں۔ ایک خلائی مخلوق کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مریخ پر، عطارد پر زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ پہلے چاند کے لیے یہی دعویٰ کرتے تھے، پھر چاند پر پہنچ کر پتا چلا کہ یہاں تو صرف مٹی ہے،گڑھے ہیں۔
درجہ حرارت ناقابل رہائش ہے۔ اب سنا ہے کہ چاند پر پلاٹنگ ہو رہی ہے۔ دھڑا دھڑ زمین بک رہی ہے اور لوگ ہیں کہ مطلب ان ہی کے لوگ خرید بھی رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو شک ہوتا ہے کہ یہ چاند پر گئے بھی ہیں؟ بچپن میں سنا تھا کہ ایک چاند گاڑی میں کسی بندر کو سوار کرکے بھیجا تھا۔ پھر امریکا کے کچھ خلا باز جو چاند گاڑی کو راکٹ کہتے تھے وہ پہنچے اور وہاں کچھ نہ پاکر اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا۔ کیا پاگل پن تھا۔ اتنا سفر کیا اتنے دن لگے اور ملا کچھ بھی نہیں۔ کاش یہ وقت کسی اچھے کام میں صرف کیا ہوتا۔ کچھ نیکی تو ملتی۔ اب مریخ کے پیچھے پڑے ہیں۔ کہ ادھر بھی پلاٹنگ کریں گے۔ یعنی حرص وہوس۔ ادھر قبضہ ادھر قبضہ۔ اور اس بغیر پائلٹ والے طیارے سے۔ کیا نام ہے ڈرون۔ اس سے حملے شروع کردیے۔ طالبان بھائیوں کو بہت تنگ کیا۔ روز حملے روز حملے۔ اللہ اللہ کرکے بند کروائے حکومت نے۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)۔ ایسے ہی ان کے باپ دادا تھے۔ ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ درخت کے نیچے لیٹے تو مسئلہ۔ بجائے سونے کے سوچ رہے ہیں۔ یہ سیب نیچے کیوں گرا؟ اوپر کیوں نہیں گیا۔ اچھا تو نیچے کوئی طاقت ہے۔ اوہو۔ یہ تو کشش ثقل ہے۔ لوجی ایجاد ہوگئی۔ نام ہوگیا۔
نیوٹن صاحب نے کیا چیز ڈھونڈ لی۔ انھیں کوئی سمجھانے والا نہ تھا نہ ہے۔ ورنہ ویسے ہی بتا دیتا کہ بھائی! زمین تو کب کی Powerfull ہے۔ اتنی فصلیں آسمان اگاتا ہے؟ طاقت ہے تو اتنے انسانوں، جانوروں کا وزن زمین برداشت کرتی ہے ناں۔ وہی وقت کی قدر نہ کرنا۔ اب آپ آصف صاحب کا بیان پڑھو۔ فرمایا جاگ پنجاب میرے پنجاب۔ ملک جل رہا ہے۔ کتنا خلوص ہے بیان میں اور زور بھی ہے۔ ان ہی کے فرزند فرماتے ہیں۔ آپ اندھے سے راستہ پوچھ رہے ہیں۔ بڑی حکمت والا بیان دیا ہے جی۔ ذرا سوچو آپ کیا اندھا راستہ بتا سکتا ہے؟ حکمران ہو تو پاکستان جیسا ورنہ نہ ہو۔ اکثر خاموش رہتے ہیں مطلب غور و فکر میں مصروف۔جس کے لیے اللہ پاک نے بھی حکم دیا ہے۔ ہمارے پاس عمران خان جیسے رہنما بھی ہیں۔ وہ فرنگی تو نہ جانے کب مریخ پر آبادی کریں گے۔ ہمارا خان منٹوں میں سارا ملک بدل دیتا ہے۔ سارے نظام تبدیل۔ یعنی رات کو سوؤ۔ صبح نیا ملک۔ تو ہم وقت ضایع نہیں کرتے۔ وقت کو بڑی احتیاط سے گزارتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے انھیں ایجادات پر لگا دیا ہے۔ جہاز بناؤ، ریل بناؤ، دوائیاں بناؤ، کمپیوٹر ایجاد کرو، ایٹم بم بناؤ اور وہ بھی ایسے سیدھے ہیں کہ لگ گئے۔
انھیں یہی پتا نہیں ہے کہ وہ جو بھی ایجاد کرتے ہیں۔ ہم فوراً استعمال کرلیتے ہیں۔ اپنا وقت بچ جاتا ہے۔وہ تو ایسے پاگل ہیں کہ عمر ہی بڑھا لی۔ جاپان کو دیکھو 20 سال پہلے ان کی عمر 55 سے 60 سال ہوا کرتی تھی۔ اب کھانے میں پرہیز کرکے، ورزش کرکے 85 سال عمر کرلی۔ مطلب زیادہ عمر زیادہ گناہ۔ اور غلطی یہ کی کہ پوری قوم کی عمر بڑھالی۔ ارے بھائی! کسی کے گناہ تو کم ہونے دیتے۔ جیسے ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ جس کی جتنی عمر لکھی ہے وہ اتنا ہی جیتا ہے۔ کوئی 20 سال میں اللہ کو پیارا ہوگیا تو کوئی 40 سال میں۔ کوئی 70 تک بھی جیا۔ مطلب یہ کہ پابندی نہیں ہے کہ جینا ہی پڑے گا۔ ہم توکل رکھتے ہیں۔ بھروسہ کرنے والے ہیں۔ یہ اہل یورپ، امریکا اور روس کے لوگ، ان کے رہنما، مفکر، دانشور حتیٰ کہ سائنسدان ہمارا کیا مقابلہ کریں گے۔ ہم اپنے آج میں زندہ ہیں۔ کل کا وعدہ اللہ کا ہے۔ ہمارے لیے وہ عاقبت نااندیش فرماتے ہیں کہ ہم فطرت سے ہٹے ہوئے لوگ ہیں۔
فطرت ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمارے حالات اسی لیے ابتر ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپشن ہے۔ دہشت گردی ہے۔ ارے بھائی! غیر فطری بات تو آپ کر رہے ہیں۔ فطرت تو یہ ہے کہ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، کبھی غربت ہے کبھی امارت، کبھی بیماری ہے کبھی تندرستی۔زندگی ہے تو موت بھی ضرور آئے گی، انسان جہاں رہیں گے وہاں لڑائی جھگڑے بھی ہوں گے۔ اور غلہ کھائیں گے تو وہ ختم بھی ہوگا۔ ابھی تو زمین ہی پوری طرح سے آباد نہیں ہے۔ مریخ اور چاند کو کیوں آباد کریں۔ اور پانی۔۔۔۔پانی کا کیا ہے۔ کم پڑ گیا تو اللہ بارشیں زیادہ کردے گا۔ہم تو آپ سے کہتے ہیں کہ خدارا! اپنا وقت ضایع مت کریں۔ اچھائی کے بھلائی کے کاموں میں وقت گزارا کریں۔ باقی سب خدا پر چھوڑ دیں۔ اب سب کچھ ہمیں کرنا ہے تو پھر سوچیں وہ بھی تو سب کچھ ہمارے لیے کر رہا ہے۔ آخر کار ناراض ہوگا۔ اور حشر میں کہے گا کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کس بات کی پرواہ تھی۔۔۔۔خوامخواہ۔۔۔۔!
ایک اور خبر کے مطابق عمران خان نے دوران پریس کانفرنس کہا کہ وہ خیبر پختونخواہ اسمبلی توڑ کر دوبارہ الیکشن کروا دیں گے لیکن وزارتوں کے لیے فارورڈ بلاک کے اراکین کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے۔
میں یہ خبریں پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم، ہمارا ملک، ہماری قوم باقی دنیا سے کس قدر مختلف ہیں۔ آپ BBC نیوز دیکھیں۔ CNN نیوز سنیں۔ تو آپ کو یہ خوش گوار حیرت ہوگی کہ اگر انفرادیت اپنی صفات میں کوئی امتیاز رکھتی ہے تو ہم منفرد ہیں۔
ادھر اہل یورپ، امریکا اور جزائر کی طرف عجیب لوگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے آج کی بجائے آنے والے کل میں زندہ ہیں۔ جب دیکھو مستقبل میں جھانکتے رہتے ہیں۔ انھیں فکر ہے کہ ان کے پاس کتنے سال کی غذائی رسد موجود ہے اور کتنے سال کے بعد اس میں کتنے فی صد کمی واقع ہونے والی ہے۔ اور اس کمی سے بچنے کے لیے کس شرح سے آبادی پرکنٹرول کرنا ہوگا۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ آنے والے وقت کے لیے اپنا آج کیوں برباد کر رہے ہو۔ اور کچھ نہیں تو ''پانی'' کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں کہتے ہیں کہ 2025 میں دنیا پانی کو ترس رہی ہوگی۔ روز سنتے ہیں کہ زمین تیل، گیس ابل رہی ہے۔ وہ شرح پیداوار کم بتاتے ہیں۔ کن کن چیزوں سے پریشان رہتے ہیں۔ کیسے کیسے واہمات کا شکار ہیں۔ ایک خلائی مخلوق کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مریخ پر، عطارد پر زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ پہلے چاند کے لیے یہی دعویٰ کرتے تھے، پھر چاند پر پہنچ کر پتا چلا کہ یہاں تو صرف مٹی ہے،گڑھے ہیں۔
درجہ حرارت ناقابل رہائش ہے۔ اب سنا ہے کہ چاند پر پلاٹنگ ہو رہی ہے۔ دھڑا دھڑ زمین بک رہی ہے اور لوگ ہیں کہ مطلب ان ہی کے لوگ خرید بھی رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو شک ہوتا ہے کہ یہ چاند پر گئے بھی ہیں؟ بچپن میں سنا تھا کہ ایک چاند گاڑی میں کسی بندر کو سوار کرکے بھیجا تھا۔ پھر امریکا کے کچھ خلا باز جو چاند گاڑی کو راکٹ کہتے تھے وہ پہنچے اور وہاں کچھ نہ پاکر اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا۔ کیا پاگل پن تھا۔ اتنا سفر کیا اتنے دن لگے اور ملا کچھ بھی نہیں۔ کاش یہ وقت کسی اچھے کام میں صرف کیا ہوتا۔ کچھ نیکی تو ملتی۔ اب مریخ کے پیچھے پڑے ہیں۔ کہ ادھر بھی پلاٹنگ کریں گے۔ یعنی حرص وہوس۔ ادھر قبضہ ادھر قبضہ۔ اور اس بغیر پائلٹ والے طیارے سے۔ کیا نام ہے ڈرون۔ اس سے حملے شروع کردیے۔ طالبان بھائیوں کو بہت تنگ کیا۔ روز حملے روز حملے۔ اللہ اللہ کرکے بند کروائے حکومت نے۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)۔ ایسے ہی ان کے باپ دادا تھے۔ ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ درخت کے نیچے لیٹے تو مسئلہ۔ بجائے سونے کے سوچ رہے ہیں۔ یہ سیب نیچے کیوں گرا؟ اوپر کیوں نہیں گیا۔ اچھا تو نیچے کوئی طاقت ہے۔ اوہو۔ یہ تو کشش ثقل ہے۔ لوجی ایجاد ہوگئی۔ نام ہوگیا۔
نیوٹن صاحب نے کیا چیز ڈھونڈ لی۔ انھیں کوئی سمجھانے والا نہ تھا نہ ہے۔ ورنہ ویسے ہی بتا دیتا کہ بھائی! زمین تو کب کی Powerfull ہے۔ اتنی فصلیں آسمان اگاتا ہے؟ طاقت ہے تو اتنے انسانوں، جانوروں کا وزن زمین برداشت کرتی ہے ناں۔ وہی وقت کی قدر نہ کرنا۔ اب آپ آصف صاحب کا بیان پڑھو۔ فرمایا جاگ پنجاب میرے پنجاب۔ ملک جل رہا ہے۔ کتنا خلوص ہے بیان میں اور زور بھی ہے۔ ان ہی کے فرزند فرماتے ہیں۔ آپ اندھے سے راستہ پوچھ رہے ہیں۔ بڑی حکمت والا بیان دیا ہے جی۔ ذرا سوچو آپ کیا اندھا راستہ بتا سکتا ہے؟ حکمران ہو تو پاکستان جیسا ورنہ نہ ہو۔ اکثر خاموش رہتے ہیں مطلب غور و فکر میں مصروف۔جس کے لیے اللہ پاک نے بھی حکم دیا ہے۔ ہمارے پاس عمران خان جیسے رہنما بھی ہیں۔ وہ فرنگی تو نہ جانے کب مریخ پر آبادی کریں گے۔ ہمارا خان منٹوں میں سارا ملک بدل دیتا ہے۔ سارے نظام تبدیل۔ یعنی رات کو سوؤ۔ صبح نیا ملک۔ تو ہم وقت ضایع نہیں کرتے۔ وقت کو بڑی احتیاط سے گزارتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے انھیں ایجادات پر لگا دیا ہے۔ جہاز بناؤ، ریل بناؤ، دوائیاں بناؤ، کمپیوٹر ایجاد کرو، ایٹم بم بناؤ اور وہ بھی ایسے سیدھے ہیں کہ لگ گئے۔
انھیں یہی پتا نہیں ہے کہ وہ جو بھی ایجاد کرتے ہیں۔ ہم فوراً استعمال کرلیتے ہیں۔ اپنا وقت بچ جاتا ہے۔وہ تو ایسے پاگل ہیں کہ عمر ہی بڑھا لی۔ جاپان کو دیکھو 20 سال پہلے ان کی عمر 55 سے 60 سال ہوا کرتی تھی۔ اب کھانے میں پرہیز کرکے، ورزش کرکے 85 سال عمر کرلی۔ مطلب زیادہ عمر زیادہ گناہ۔ اور غلطی یہ کی کہ پوری قوم کی عمر بڑھالی۔ ارے بھائی! کسی کے گناہ تو کم ہونے دیتے۔ جیسے ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ جس کی جتنی عمر لکھی ہے وہ اتنا ہی جیتا ہے۔ کوئی 20 سال میں اللہ کو پیارا ہوگیا تو کوئی 40 سال میں۔ کوئی 70 تک بھی جیا۔ مطلب یہ کہ پابندی نہیں ہے کہ جینا ہی پڑے گا۔ ہم توکل رکھتے ہیں۔ بھروسہ کرنے والے ہیں۔ یہ اہل یورپ، امریکا اور روس کے لوگ، ان کے رہنما، مفکر، دانشور حتیٰ کہ سائنسدان ہمارا کیا مقابلہ کریں گے۔ ہم اپنے آج میں زندہ ہیں۔ کل کا وعدہ اللہ کا ہے۔ ہمارے لیے وہ عاقبت نااندیش فرماتے ہیں کہ ہم فطرت سے ہٹے ہوئے لوگ ہیں۔
فطرت ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمارے حالات اسی لیے ابتر ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپشن ہے۔ دہشت گردی ہے۔ ارے بھائی! غیر فطری بات تو آپ کر رہے ہیں۔ فطرت تو یہ ہے کہ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، کبھی غربت ہے کبھی امارت، کبھی بیماری ہے کبھی تندرستی۔زندگی ہے تو موت بھی ضرور آئے گی، انسان جہاں رہیں گے وہاں لڑائی جھگڑے بھی ہوں گے۔ اور غلہ کھائیں گے تو وہ ختم بھی ہوگا۔ ابھی تو زمین ہی پوری طرح سے آباد نہیں ہے۔ مریخ اور چاند کو کیوں آباد کریں۔ اور پانی۔۔۔۔پانی کا کیا ہے۔ کم پڑ گیا تو اللہ بارشیں زیادہ کردے گا۔ہم تو آپ سے کہتے ہیں کہ خدارا! اپنا وقت ضایع مت کریں۔ اچھائی کے بھلائی کے کاموں میں وقت گزارا کریں۔ باقی سب خدا پر چھوڑ دیں۔ اب سب کچھ ہمیں کرنا ہے تو پھر سوچیں وہ بھی تو سب کچھ ہمارے لیے کر رہا ہے۔ آخر کار ناراض ہوگا۔ اور حشر میں کہے گا کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کس بات کی پرواہ تھی۔۔۔۔خوامخواہ۔۔۔۔!