کلاسیکی موسیقی کی دلدادہ نوجوان نسل
استاد بڑے غلام علی خان جیسا فنکارکی ہمارے ہاں ایسی بے قدری ہوئی کہ وہ روٹھ کر پاکستان سے چلے گئے
جنوبی ایشیا کاخطہ ایساہے،جہاں ہر زمانے میں فنون نے فروغ پایا۔یہ الگ بات ہے کہ یہاں کے باسیوں نے اہل یونان کی طرح اپنے ہنرکو پیش نہیں کیا ورنہ دنیا اس خطے کے فن سے اور زیادہ باخبر ہوتی۔اس خطے نے جنگ وجدل دیکھے اور فنون کا دم بھرتے دیوانوں کو بھی دیکھا۔اس دھرتی سے موسیقی، شاعری، ادب، مصوری، رقص،گائیکی اوردیگر اصناف فن نے جنم لیا۔یہ سب اثاثے یہیںکے اثاثے ہیں۔تقسیم کے بعد ہر ملک نے اپنی ترجیحات کے لحاظ سے ان فنون کی سرپرستی کی۔انھی میں سے ایک فن ''کلاسیکی موسیقی'' کا بھی ہے،جس کے مستقبل کویہاں مخدوش قرار دیا جاتا رہاہے۔
تقسیم کے بعد کچھ دہائیوں تک کلاسیکی موسیقی کا بہت دوردورہ رہا،کیونکہ اس وقت اس فن کو سمجھنے اور پرکھنے والے لوگ موجود تھے۔اسی لیے کلاسیکی موسیقی کا رنگ ہمیں فلمی موسیقی میں بھی دکھائی دیتا رہا اوردیگر اصناف گائیکی میں بھی اس سے استفادہ کیا گیا۔مختلف موسیقی کے گھرانے بھی پاکستان میں اس فن کی خدمت کرتے رہے۔
استاد بڑے غلام علی خان جیسا فنکارکی ہمارے ہاں ایسی بے قدری ہوئی کہ وہ روٹھ کر پاکستان سے چلے گئے،مگر اس فضا میں بھی اس فن سے جڑے ہوئے فنکاروں نے حوصلہ نہ ہارا،اپنے حصے کی جدوجہد کرتے رہے۔یہ الگ بات ہے بقول شخصے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی پروڈیوسروں نے اپنی فرعونیت سے فنکاروں کو زندہ درگو کیا،لیکن اس تلخ حقیقت کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ یہی دونوں ادارے تھے،جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کوایک عرصے تک محفوظ رکھا۔اب مگر صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔نجی چینل صرف اپنے کاروباری فوائد کو مدنظر رکھتے ہیں،جب کہ سرکاری ٹیلی ویژن کا ان پرانی روایات سے یکدم پیچھا چھڑوانا آسان نہ تھا،اس لیے دھیرے دھیرے اس کو فراموش کیا۔اس رویے کی وہ آخری سرحد تھی،جب پی ٹی وی نے رات کا آخری پہر کلاسیکی موسیقی کے لیے وقف کیا، یہ وہ دن تھے،جب لوگ رات کو جلدی سونے کے عادی تھے۔اب پی ٹی وی نے اس تکلف سے بھی پیچھا چھڑا لیا۔
رواں برس پاکستان ٹیلی ویژن اپنا پچاسواں برس''نصف صدی کا قصہ''کے نام سے منا رہا ہے،اس کی وجہ سے اس چینل کی کچھ کلاسیکی پن واپس لوٹا ہے،مگر اسی نشریات میں مدعو مہمان اعتزاز احسن نے کہا''ایک سچ وہ ہوتا ہے،جوسچ ہوتا ہے اورایک سچ وہ ہوتا ہے،جو سرکاری سچ ہوتا ہے۔'' پی ٹی وی سرکاری سچ کی نذر ہوتا رہا،جس کا نقصان کلاسیکی موسیقی کو بھی پہنچا ،مگر اس کے باوجود اس چینل کے کریڈٹ پر موسیقی کے کئی شاندار پروگرام ہیں، جنھیں فراموش نہیں کیاجاسکتا،یہ بھی ایک سچ ہے۔
ہمارے معاشرے کی مجموعی فضا،بدلتے ہوئے سیاسی مناظر اورذرایع وابلاغ کی کثیرتعداد نے بے شک کلاسیکی موسیقی کو کتنا ہی نقصان پہنچایا ہو،مگر یہ خالص فن مر نہیں سکتا،اسی لیے یہ اپنی زندگی جی رہا ہے اور سچی محبت کرنے والے اس میں اپنی سانسیں انڈیل رہے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اس موسیقی کے چاہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ بات صرف سننے کی حد تک نہیں رہی،بلکہ نوجوان نسل بہت تیزی سے اس کو پیشے کی حیثیت میں اپنا رہی ہے۔
ہم اگرکلاسیکی موسیقی کے گھرانوں کا جائزہ لیں، توہمیں دوطرح کے نوجوان دکھائی دیتے ہیں ،جنہوں نے موسیقی کو اپنا پیشہ بنایا۔ایک قسم وہ ہے،جنہوں نے خالصتاً کلاسیکی موسیقی کو اپنایا،جب کہ دوسری قسم کے نوجوان وہ ہیں،جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو جدید انداز موسیقی سے وابستہ کرلیا۔
کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں میں پٹیالہ اورشام چوراسی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں نے اس فن کو مغل درباروں میں پیش کیا،مگر تقسیم کے بعد جب استاد امانت علی نے ہوش سنبھالاتو انھوںنے غزل گائیکی کا فیصلہ کیا،مگر ان کے دیگر بھائیوں میں استاد فتح علی خان اور استاد حامد علی خان نے کلاسیکی موسیقی کادامن نہیں چھوڑا۔استاد امانت علی خان کے بڑے بیٹے اسد امانت علی نے غزل کی صنف کو اپنایا اورچھوٹے بیٹے شفقت امانت علی نے خود کو جدید موسیقی سے ہم آہنگ کرلیا۔استاد فتح علی خان کے بیٹے رستم فتح علی خان نے کلاسیکی موسیقی کو ہی اپنا پیشہ بنایاجب کہ استاد حامد علی خان کے تینوں بیٹے نایاب،انعام اورولی بھی جدید موسیقی کی طرف آگئے۔
شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی،نزاکت علی نے خود کو کلاسیکی موسیقی سے جوڑے رکھا۔استاد سلامت علی کے بیٹے شفقت علی خان نے بھی خالص کلاسیکی موسیقی سے اپنا ناطہ قائم رکھا،لیکن اسی گھرانے سے عابدہ پروین نے تربیت حاصل کی ،غزل اورکافی میں شہرت کمائی۔اسی گھرانے کے ایک اور فنکار استاد حسین بخش نے کلاسیکی موسیقی کے لیے زندگی وقف کی اوراب ان کے دونوں بیٹے چاند اورسورج اسی شعبے میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو آزمارہے ہیں۔ اسی گھرانے کے استاد ریاض علی خان نے پاکستان کے رجحان ساز بینڈ''میکال حسن بینڈ''کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار نبھایا۔اس بینڈ کے پہلے گلوکار اورموسیقار کی حیثیت سے انھوںنے اپنے فن کا جادودکھایا۔کچھ عرصے بعد ہی یہ اس سے الگ ہوگئے،مگر آج یہ بینڈ اس نوجوان نسل میں مقبول ہے،جو کلاسیکی موسیقی سننے کاذوق رکھتے ہیں۔شام چوراسی کے ایک اورباصلاحیت نوجوان کانام''رفاقت علی خان''ہے۔
کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں سے جداگانہ ہم اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں ،توکئی نوجوان انفرادی حیثیت میں اس فن میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی پہلی تازہ مثال راحت فتح علی خان کی ہے،جس نے استاد نصرت فتح علی خان سے مکمل تربیت کلاسیکی موسیقی کے تناظر میں حاصل کی ،مگر شہرت پس پردہ گائیکی میں کمائی،راحت نے جو کچھ استاد نصرت فتح علی خان سے حاصل کیا،وہ تو اپنی گائیکی میں نہ پیش کرسکا،مگر بہرحال بھارتی فلموں میں گائیکی کی بدولت کافی نام کرلیا۔
اسی طرح سجاد علی نے بھی گائیکی کاآغاز ہارمونیم تھام کرکیاتھا۔احمد جہانزیب نے استاد رئیس خان سے کچھ عرصہ تربیت حاصل کی۔عاطف اسلم اورعلی ظفر کچھ عرصے سے کلاسیکی گائیکی کوسیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔طبلے اورموسیقی کے معروف خاندان کے فرزند طارق طافو بھی جدید موسیقی کا نمایندہ ہے۔جاوید بشیر جس نے ''میکال حسن بینڈ''کی مقبولیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔لاہور میں درباروں سے قوالی سے گائیکی کاآغاز کیا اورآج بھارت فلمی صنعت کے چند ایک مقبول گلوکاروں کی فہرست میں اس کا نام بھی شامل ہے۔
دلی گھرانے کے معروف استاد اور سارنگی نواز استاد بندوخان کا پوتا مظہر امراؤ بھی خود کو اس فن سے جوڑے ہوئے ہے،بہت باصلاحیت گلوکار ہے اورکمال کی سارنگی بھی بجاتا ہے،یاردوستوں نے کہا کہ جدید موسیقی کی طرف آجاؤ ،مگر وہ اپنے پرکھوں کی موسیقی سے زیادہ پیار کرتا ہے،اس لیے اسی کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔استاد رئیس خان کے بیٹے فرحان نے بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ستار کو ہی اپنے پیشے کے طور پر منتخب کیا ہے۔استاد مہدی حسن کے ایک بیٹے''آصف مہدی''نے بھی غزل گائیکی کو اپنا پیشہ بنایا،مگر اس کی گائیکی میں نغمگی کلاسیکی موسیقی ہی کی ہے۔
اسی طرح دنیائے موسیقی اورسازندوں میں ''اللہ دتہ''اور ان کاخاندان بھی بہت معروف ہے،اس گھرانے سے شہزاد، جاوید اوردیگر بھائیوں نے اس فن کی بہت خدمت کی، بالخصوص فلمی موسیقی میں کلاسیکی رنگ کو جمایا۔اسی خاندان کے نوجوان ''انتظارحسین''نے پٹیالہ اورشام چوراسی گائیکی کے امتزاج سے اپنے فن کو ایسی تشکیل دی ہے کہ سننے والا حیران ہوجائے کہ یہ آواز اورآہنگ کسی نوجوان گلوکار کاہے۔گزشتہ دنوں ایک محفل میں اس نوجوان نے سارنگی میں ہوشیار پورگھرانے کے استاد اختر حسین اورطبلے پر محمد عمر قریشی کی سنگت میں راگ کوشک گھنی اورخواجہ غلام فرید کی کافی ''سانول موڑ مہاراں''گاکر حاضرین کے دل جیت لیے۔ استادغلام شبیر کی راگ چمپاکلی کی بندش کوسناکر یہ ثابت کردیاکہ کلاسیکی موسیقی کا پاکستان میں مستقبل روشن ہے اورآنیوالے وقت میں کلاسیکی موسیقی بھی نوجوان نسل کی مقبول صنف ہوگی۔
تقسیم کے بعد کچھ دہائیوں تک کلاسیکی موسیقی کا بہت دوردورہ رہا،کیونکہ اس وقت اس فن کو سمجھنے اور پرکھنے والے لوگ موجود تھے۔اسی لیے کلاسیکی موسیقی کا رنگ ہمیں فلمی موسیقی میں بھی دکھائی دیتا رہا اوردیگر اصناف گائیکی میں بھی اس سے استفادہ کیا گیا۔مختلف موسیقی کے گھرانے بھی پاکستان میں اس فن کی خدمت کرتے رہے۔
استاد بڑے غلام علی خان جیسا فنکارکی ہمارے ہاں ایسی بے قدری ہوئی کہ وہ روٹھ کر پاکستان سے چلے گئے،مگر اس فضا میں بھی اس فن سے جڑے ہوئے فنکاروں نے حوصلہ نہ ہارا،اپنے حصے کی جدوجہد کرتے رہے۔یہ الگ بات ہے بقول شخصے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی پروڈیوسروں نے اپنی فرعونیت سے فنکاروں کو زندہ درگو کیا،لیکن اس تلخ حقیقت کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ یہی دونوں ادارے تھے،جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کوایک عرصے تک محفوظ رکھا۔اب مگر صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔نجی چینل صرف اپنے کاروباری فوائد کو مدنظر رکھتے ہیں،جب کہ سرکاری ٹیلی ویژن کا ان پرانی روایات سے یکدم پیچھا چھڑوانا آسان نہ تھا،اس لیے دھیرے دھیرے اس کو فراموش کیا۔اس رویے کی وہ آخری سرحد تھی،جب پی ٹی وی نے رات کا آخری پہر کلاسیکی موسیقی کے لیے وقف کیا، یہ وہ دن تھے،جب لوگ رات کو جلدی سونے کے عادی تھے۔اب پی ٹی وی نے اس تکلف سے بھی پیچھا چھڑا لیا۔
رواں برس پاکستان ٹیلی ویژن اپنا پچاسواں برس''نصف صدی کا قصہ''کے نام سے منا رہا ہے،اس کی وجہ سے اس چینل کی کچھ کلاسیکی پن واپس لوٹا ہے،مگر اسی نشریات میں مدعو مہمان اعتزاز احسن نے کہا''ایک سچ وہ ہوتا ہے،جوسچ ہوتا ہے اورایک سچ وہ ہوتا ہے،جو سرکاری سچ ہوتا ہے۔'' پی ٹی وی سرکاری سچ کی نذر ہوتا رہا،جس کا نقصان کلاسیکی موسیقی کو بھی پہنچا ،مگر اس کے باوجود اس چینل کے کریڈٹ پر موسیقی کے کئی شاندار پروگرام ہیں، جنھیں فراموش نہیں کیاجاسکتا،یہ بھی ایک سچ ہے۔
ہمارے معاشرے کی مجموعی فضا،بدلتے ہوئے سیاسی مناظر اورذرایع وابلاغ کی کثیرتعداد نے بے شک کلاسیکی موسیقی کو کتنا ہی نقصان پہنچایا ہو،مگر یہ خالص فن مر نہیں سکتا،اسی لیے یہ اپنی زندگی جی رہا ہے اور سچی محبت کرنے والے اس میں اپنی سانسیں انڈیل رہے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اس موسیقی کے چاہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ بات صرف سننے کی حد تک نہیں رہی،بلکہ نوجوان نسل بہت تیزی سے اس کو پیشے کی حیثیت میں اپنا رہی ہے۔
ہم اگرکلاسیکی موسیقی کے گھرانوں کا جائزہ لیں، توہمیں دوطرح کے نوجوان دکھائی دیتے ہیں ،جنہوں نے موسیقی کو اپنا پیشہ بنایا۔ایک قسم وہ ہے،جنہوں نے خالصتاً کلاسیکی موسیقی کو اپنایا،جب کہ دوسری قسم کے نوجوان وہ ہیں،جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو جدید انداز موسیقی سے وابستہ کرلیا۔
کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں میں پٹیالہ اورشام چوراسی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں نے اس فن کو مغل درباروں میں پیش کیا،مگر تقسیم کے بعد جب استاد امانت علی نے ہوش سنبھالاتو انھوںنے غزل گائیکی کا فیصلہ کیا،مگر ان کے دیگر بھائیوں میں استاد فتح علی خان اور استاد حامد علی خان نے کلاسیکی موسیقی کادامن نہیں چھوڑا۔استاد امانت علی خان کے بڑے بیٹے اسد امانت علی نے غزل کی صنف کو اپنایا اورچھوٹے بیٹے شفقت امانت علی نے خود کو جدید موسیقی سے ہم آہنگ کرلیا۔استاد فتح علی خان کے بیٹے رستم فتح علی خان نے کلاسیکی موسیقی کو ہی اپنا پیشہ بنایاجب کہ استاد حامد علی خان کے تینوں بیٹے نایاب،انعام اورولی بھی جدید موسیقی کی طرف آگئے۔
شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی،نزاکت علی نے خود کو کلاسیکی موسیقی سے جوڑے رکھا۔استاد سلامت علی کے بیٹے شفقت علی خان نے بھی خالص کلاسیکی موسیقی سے اپنا ناطہ قائم رکھا،لیکن اسی گھرانے سے عابدہ پروین نے تربیت حاصل کی ،غزل اورکافی میں شہرت کمائی۔اسی گھرانے کے ایک اور فنکار استاد حسین بخش نے کلاسیکی موسیقی کے لیے زندگی وقف کی اوراب ان کے دونوں بیٹے چاند اورسورج اسی شعبے میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو آزمارہے ہیں۔ اسی گھرانے کے استاد ریاض علی خان نے پاکستان کے رجحان ساز بینڈ''میکال حسن بینڈ''کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار نبھایا۔اس بینڈ کے پہلے گلوکار اورموسیقار کی حیثیت سے انھوںنے اپنے فن کا جادودکھایا۔کچھ عرصے بعد ہی یہ اس سے الگ ہوگئے،مگر آج یہ بینڈ اس نوجوان نسل میں مقبول ہے،جو کلاسیکی موسیقی سننے کاذوق رکھتے ہیں۔شام چوراسی کے ایک اورباصلاحیت نوجوان کانام''رفاقت علی خان''ہے۔
کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں سے جداگانہ ہم اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں ،توکئی نوجوان انفرادی حیثیت میں اس فن میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی پہلی تازہ مثال راحت فتح علی خان کی ہے،جس نے استاد نصرت فتح علی خان سے مکمل تربیت کلاسیکی موسیقی کے تناظر میں حاصل کی ،مگر شہرت پس پردہ گائیکی میں کمائی،راحت نے جو کچھ استاد نصرت فتح علی خان سے حاصل کیا،وہ تو اپنی گائیکی میں نہ پیش کرسکا،مگر بہرحال بھارتی فلموں میں گائیکی کی بدولت کافی نام کرلیا۔
اسی طرح سجاد علی نے بھی گائیکی کاآغاز ہارمونیم تھام کرکیاتھا۔احمد جہانزیب نے استاد رئیس خان سے کچھ عرصہ تربیت حاصل کی۔عاطف اسلم اورعلی ظفر کچھ عرصے سے کلاسیکی گائیکی کوسیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔طبلے اورموسیقی کے معروف خاندان کے فرزند طارق طافو بھی جدید موسیقی کا نمایندہ ہے۔جاوید بشیر جس نے ''میکال حسن بینڈ''کی مقبولیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔لاہور میں درباروں سے قوالی سے گائیکی کاآغاز کیا اورآج بھارت فلمی صنعت کے چند ایک مقبول گلوکاروں کی فہرست میں اس کا نام بھی شامل ہے۔
دلی گھرانے کے معروف استاد اور سارنگی نواز استاد بندوخان کا پوتا مظہر امراؤ بھی خود کو اس فن سے جوڑے ہوئے ہے،بہت باصلاحیت گلوکار ہے اورکمال کی سارنگی بھی بجاتا ہے،یاردوستوں نے کہا کہ جدید موسیقی کی طرف آجاؤ ،مگر وہ اپنے پرکھوں کی موسیقی سے زیادہ پیار کرتا ہے،اس لیے اسی کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔استاد رئیس خان کے بیٹے فرحان نے بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ستار کو ہی اپنے پیشے کے طور پر منتخب کیا ہے۔استاد مہدی حسن کے ایک بیٹے''آصف مہدی''نے بھی غزل گائیکی کو اپنا پیشہ بنایا،مگر اس کی گائیکی میں نغمگی کلاسیکی موسیقی ہی کی ہے۔
اسی طرح دنیائے موسیقی اورسازندوں میں ''اللہ دتہ''اور ان کاخاندان بھی بہت معروف ہے،اس گھرانے سے شہزاد، جاوید اوردیگر بھائیوں نے اس فن کی بہت خدمت کی، بالخصوص فلمی موسیقی میں کلاسیکی رنگ کو جمایا۔اسی خاندان کے نوجوان ''انتظارحسین''نے پٹیالہ اورشام چوراسی گائیکی کے امتزاج سے اپنے فن کو ایسی تشکیل دی ہے کہ سننے والا حیران ہوجائے کہ یہ آواز اورآہنگ کسی نوجوان گلوکار کاہے۔گزشتہ دنوں ایک محفل میں اس نوجوان نے سارنگی میں ہوشیار پورگھرانے کے استاد اختر حسین اورطبلے پر محمد عمر قریشی کی سنگت میں راگ کوشک گھنی اورخواجہ غلام فرید کی کافی ''سانول موڑ مہاراں''گاکر حاضرین کے دل جیت لیے۔ استادغلام شبیر کی راگ چمپاکلی کی بندش کوسناکر یہ ثابت کردیاکہ کلاسیکی موسیقی کا پاکستان میں مستقبل روشن ہے اورآنیوالے وقت میں کلاسیکی موسیقی بھی نوجوان نسل کی مقبول صنف ہوگی۔