Sir گزشت
یہ خاصی ضخیم کتاب ہے، جس کے چیدہ چیدہ اقتباسات سے آپ کو روشناس کراتے ہیں
شاہ محی الحق فاروقی ایک سکہ بند لکھنے والے ہیں۔ نہایت مقبول کالم نگار بھی، ان کے کالم ایک روزنامے میں ''کھٹے میٹھے انار'' کے عنوان سے مدتوں تک شایع ہو کر مقبولیت سمیٹتے رہے، انھوں نے مزاح میں بھی متعدد تراجم کیے۔
جن میں امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن کے مضامین بھی شامل ہیں، فاروقی صاحب نے ایک بھارتی بیورو کریٹ کی خود نوشت کا اردو ترجمہ '' بلبلیں نواب کی'' کے نام سے اس قدر خوبصورت انداز میں کیا ہے جس کا جواب نہیں۔ پڑھتے جائیے اور لطف اندوز ہوتے جائیے، انھوں نے ''بیدار دل لوگ'' کے عنوان سے خاکے بھی لکھے ہیں جو سب کے سب بہت دلچسپ ہیں۔
فاروقی صاحب کی جو کتاب اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے وہ ہے ''Sirگزشت''۔ جو فاروقی صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ خاصی ضخیم کتاب ہے، جس کے چیدہ چیدہ اقتباسات سے آپ کو روشناس کراتے ہیں۔
'' قیام پاکستان تک بنارس دو ناموں سے مشہور تھا۔ سرکاری اور مشہور نام بنارس اور دریائے گنگا کے کنارے ہندوؤں کے اس مقدس شہر کا مذہبی نام '' کاشی'' تھا۔ عام ہندو عقیدے کے مطابق کاشی میں مرنے والا آکواگون (تناسخ) کے چکر سے نکل کر ہمیشہ کے لیے نروان ( نجات) حاصل کرلیتا ہے اور سیدھا بیکنٹھ (جنت) میں چلا جاتا ہے۔
اسی عقیدے کی روشنی میں بہت سے بوڑھے ہندو اپنے آخری وقتوں میں دور دور سے یہاں آ کر مندروں کے دروازوں اور دریا کے گھاٹوں پر پڑے رہتے تھے اور جان جان آفرین کے سپرد کر دیتے تھے۔''
''بنارس کی ایک وجہ شہرت اس کے زمانہ قدیم کے ٹھگ بھی تھے۔ ممکن ہے پنڈاریوں کی طرح یہ ٹھگ بھی خاندانی پس منظر کے حامل ہوں اور یاترا (زیارت) کی خاطر روز آنے والوں کی بنا پر بنارس ان کی کارروائیوں کا اہم مرکز رہا ہو۔ رہے چھوٹے موٹے نوسر باز اور دھوکہ دہی کے فنکار تو نوٹ اور زیور دگنا کرنے والے کہاں نہیں پائے جاتے۔
13 اپریل 2007 کو پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ''ڈبل شاہ '' کو عدالت نے 2012 میں عدالت نے 14 برس کی قید کی سزا سنائی تھی، پنجاب کا ڈبل شاہ لوگوں کی رقم دگنا کرنے کا جھانسا دے کر لوٹتا تھا۔ (اب بنارس کا نام ''وارانسی'' ہے۔)
Sir گزشت کے مصنف ہندوستان کے ایک علاقے '' بحری آباد '' کے رہنے والے ہیں جو 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ بحری آباد ایک دور افتادہ علاقہ ہے جو بقول مصنف ایک '' معاشرتی جزیرہ'' تھا گویا پسماندگی کے سمندر میں بیچوں بیچ تہذیب و تمدن کا ایک جزیرہ نمودار ہو گیا تھا۔ اس کے چاروں طرف میلوں میل تک کوئی آبادی نہ تھی۔
وہاں کے لوگ ازراہ تفنن کہا کرتے تھے کہ '' بحری آباد اتنا دور ہے کہ دجال یہاں تک آتے آتے تھک جائے گا، اس لیے اس سے زیادہ خطرہ نہیں۔ '' وہاں سفر ڈولی یا بیل گاڑی میں ہوا کرتا تھا، موصوف لکھتے ہیں:
''جہاز آیا پردہ کر لو۔''
پریشان کن صورت حال ان خواتین کے لیے ہوتی تھی جو ہوائی جہاز گزرتے وقت صحن خانہ میں موجود ہوتیں۔ یہ بڑی بے پردگی کی بات ہوتی تھی کہ اوپر سے غیر محرم انھیں دیکھ لیں۔ یقین کیجیے میں نے اپنی آنکھوں سے ہوائی جہاز گزرتے وقت بہت سی خواتین کو بھاگ کر برآمدوں یا کمروں میں روپوش ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
انھی خواتین کو میں نے بعد میں بے پردہ بندر روڈ کی مارکیٹوں میں خریداری کرتے دیکھا۔ وہ 1930 کا عشرہ تھا یہ 1950 اور اس کے بعد کا۔'' فاروقی صاحب کا انتقال 31 دسمبر 2011 کو کراچی میں ہوا۔
''شرکت قبول نہیں۔ '' بحری آباد میں سنایا ایک واقعہ میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ ہندوؤں میں ایک نچلی ذات ہوتی ہے جنھیں نٹ کہتے ہیں۔ بحری آباد میں ایک زمیندار گھرانے میں ضلع اعظم گڑھ سے ایک بارات آئی جس میں سواری کے لیے چار پانچ ہاتھی بھی تھے۔ اتفاق سے ان میں دو ہاتھی ایسے بھی تھے جن کے فیل بان آپس میں باپ اور بیٹا تھے۔
صبح ہوئی تو فیل بان اپنے ہاتھیوں کو پتے کھلانے کے لیے درختوں پر چڑھ گئے۔ بیٹے نے باپ کے بڑھاپے کے پیش نظر اسے آرام کرنے کے لیے کہا اور خود دونوں ہاتھیوں کو ایک درخت کے نیچے باندھ کر کلہاڑی لے کر اسی درخت پر چڑھ گیا اور ڈالیاں کاٹ کاٹ کر باری بار دونوں ہاتھیوں کو دیتا رہا۔
اگرچہ اس نے پیٹ دونوں ہاتھیوں کے بھر دیے تھے لیکن اس کے اپنے ہاتھی کو محبت میں یہ شرکت پسند نہ آئی، چنانچہ نوجوان فیل بان جوں ہی درخت سے نیچے اترا، اس کے ہاتھی نے اپنے اگلے پیر اور سونڈ کے ذریعے اسے چیر پھاڑ ڈالا۔ اپنے محبت کرنے والے فیل بان کو مار کر ہاتھی کا غصہ دور ہو گیا وہ افسوس اور ندامت کے احساس سے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
اپنے صدمے پر قابو پانے کے بعد بوڑھے فیل بان کے منہ میں جو کچھ آیا اس نے قاتل ہاتھی کو سنایا۔ عینی شاہدین کا بیان ہے کہ ہاتھی چپ چاپ گردن جھکائے بوڑھے فیل بان کے طنز و تعریض بھرے جملے سنتا رہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ کہتے ہیں ایک دن اسی ذہنی کیفیت میں وہ ہاتھی دوسری دنیا کو سدھار گیا۔ حادثاتی موت ہونے کی وجہ سے نوجوان فیل بان کو اسی درخت کے نیچے دفن کردیا گیا۔
فاروقی صاحب نے ایک اور قصہ ذرا تفصیل سے لکھا ہے جسے ہم مختصراً بیان کرتے ہیں۔ '' ایک راجہ کی اکلوتی بیٹی پڑھ لکھ کر بہت قابل بن گئی، اس نے اعلان کروایا کہ وہ صرف اس شخص سے شادی کرے گی جو علم و دانش میں اس کے برابر ہو۔
کئی پنڈت آئے اور ناکام ہو کر واپس گئے اور سوچنے لگے کہ راج کماری کو اس کے گھمنڈ کی سزا دی جائے، چنانچہ وہ ایک نوجوان کو اعلیٰ لباس پہنا کر دربار میں لے آئے اور اس نوجوان سے کہا کہ وہ راج کماری کی ہر بات کا جواب اشاروں سے دے۔ راج کماری کو کہہ دیا کہ آج پنڈت کا برت ہے اس لیے وہ منہ سے نہیں بولے گا بلکہ اشاروں میں جواب دے گا۔
دربار لگا راج کماری نے ایک انگلی دکھائی نوجوان نے دو انگلیاں دکھا دیں، راج کماری نے پانچ انگلیاں دکھائیں تو نوجوان نے مٹھی بند کر کے دکھائی، راج کماری خوش ہوگئی اور شادی کی تیاریاں ہونے لگیں، راجہ نے بیٹی سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں نے ایک انگلی دکھائی کہ بھگوان ایک ہے تو اس نے دو انگلیاں دکھائیں کہ ایک اوتار بھی ہے۔
میں نے پانچ انگلیاں دکھا کر کہا کہ بھگوان نے دنیا بناتے وقت ایک چیز کو دوسرے سے الگ رکھا ہے، تو اس نے مٹھی بند کر کے بتایا کہ الگ الگ ہونے کے باوجود یہ دنیا باہم مربوط اور ایک دوسرے میں پیوست بھی ہے۔
اعلان کے مطابق شادی ہوگئی۔ باہر نکل کر پنڈتوں نے نوجوان سے پوچھا کہ اس سے کیا بات چیت ہوئی تو وہ بولا: اس نے ایک انگلی اٹھا کر مجھے دھمکی دی کہ میں تمہاری ایک آنکھ پھوڑ دوں گی، میں نے دو انگلیاں اٹھا کر کہا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دوں گا، پھر اس نے پانچوں انگلیاں اٹھا کر کہا کہ میں تمہیں تھپڑ ماروں گی تو میں نے مٹھی بند کر کے کہا کہ میں اسے مکا ماروں گا۔
شادی کے بعد جب میاں بیوی کی ملاقات ہوئی اور اصلیت کھلی تو راج کماری نے نوجوان کو دھکے مار کر محل سے نکلوا دیا اور کہا کہ جب تک خوب علم حاصل نہ کرلو واپس نہ آنا۔ نوجوان محل سے نکل کر جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک کنوئیں پر چاروں طرف پتھر لگے ہیں، ان پتھروں پر رسیاں بندھی ہیں جو ڈول سے پانی نکالتی ہیں، مسلسل پانی نکالنے سے پتھروں پر گہرے نشان بن گئے جو رسیوں سے بنے تھے۔
اس نوجوان کو جھٹکا لگا اور سوچنے لگا، جب نرم رسیاں پتھروں کو رگڑ کر نشان ڈال سکتی ہیں تو میں تو انسان ہوں میرے پاس دماغ ہے۔ میں کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ یہ سوچ کر قریب ہی کے ایک پاٹھ شالہ میں داخل ہو گیا، خوب محنت اور جی لگا کر پڑھا اور پھر کچھ ہی دنوں میں مشہور شاعرکوی کالی داس بن گیا اور نہ صرف اپنی بیوی کو جیتنے میں کامیاب ہو گیا بلکہ رہتی دنیا تک اپنا نام چھوڑ دیا۔