خدا وطنِ عزیز کی حفاظت کرے
امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ جنوبی ایشیا کے لیے باعثِ تشویش ہے اور پاکستان کے لیے تو یہ خطرہ کی گھنٹی ہے
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ امریکا اور وہاں اُن کی غیر معمولی آؤ بھگت کے کئی قابلِ غور اور تشویش ناک مضمرات ہیں۔
پاکستان اور امریکا کی پریم کہانی اب قصہ پارینہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اب امریکا اور بھارت ایک دوسرے کے گلوں میں بانہیں ڈال رہے ہیں اور ایک نئی داستانِ عشق کا آغاز ہوچکا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ اِس تبدیلی کے حوالے سے اِس کے سوا اورکیا کہہ سکتا ہے۔
وفا جن سے کی بے وفا ہوگئے
وہ وعدے محبت کے کیا ہوگئے
مطلب پرستی کے موجودہ دور میں جہاں انسانوں کے ذاتی رشتے اور تعلقات بھی مصلحت کوشی کے تابع ہوچکے ہیں ایسا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ قصہ مختصر بھارت اب امریکا کی اور امریکا بھارت کی ضرورت ہے۔
چناچہ امریکا اب بھارت کو دفاعی شعبہ سمیت مختلف شعبوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی مہیا کر رہا ہے جب کہ بھارت امریکا کو اُس کی ضرورت کی چیزیں مہیا کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات بڑھنے کا اصل اور بنیادی مقصد چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنا ہے کیونکہ دونوں ممالک اِس سے خوفزدہ ہیں۔
بھارت چین سے اس لیے خوفزدہ ہے کیونکہ وہ 1962 میں چین کے خلاف محاذ آرائی میں منہ کی کھا چکا ہے جب کہ امریکا جوکبھی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہوا کرتا تھا، اب چین سے خوفزدہ ہے۔ گویا بھارت اور امریکا کا یہ ملاپ چین کے خلاف ایک مورچہ تعمیر کرنا ہے۔امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرہ ہے۔
1998 میں بھارت کے نیوکلیئر ٹیسٹ کے کچھ ہی عرصہ بعد امریکی صدر بِل کلنٹن نے بھارت کے ساتھ ایک نئی شراکت داری کا آغازکر دیا تھا۔اُس کے بعد اگلے امریکی صدر بُش کی انتظامیہ نے پھر سِوِل نیوکلیئر تعاون کا ڈول ڈالا اور نیوکلیئر سپلائرگروپ کی جانب سے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے معاملہ میں بھارت کو مستثنیٰ کروا دیا جس کے نتیجہ میں بھارت کی نیوکلیئر پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگیا۔
پھر اُس کے بعد صدر اوباما کی '' پِوِٹ ٹو ایشیا '' پالیسی کے تحت بھارت جاپان اور آسٹریلیا کے گٹھ جوڑ سے چین کے خلاف ایک مورچہ قائم کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہی فوجی، اِنٹیلجنس اور نقل وحمل کے شعبوں میں چار بنیادی معاہدے طے پائے جب کہ امریکی قوانین کے مطابق حساس ٹیکنالوجی کی منتقلی میں رعایت دی گئی۔
صدر ٹرمپ اور بائیڈن نے اِن پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے ہتھیاروں کی ترقی کے سلسلہ میں نئی اور اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو فروغ دیتے ہوئے جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی سے متعلق رعایت بھی دی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب نریندر مودی گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور اُنہوں نے گجرات کے نہتے اور بے قصور مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا جس کی وجہ سے وہ گجرات کے قصاب کے نام سے مشہور ہوئے۔اِس کے علاوہ اُن کے ہاتھ بھارت کے زیرِ قبضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے خون سے بھی رنگے ہوئے تھے۔
اُن کے خلاف یہ حقیقت بھی تھی کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ یہ وہی مودی تھے کہ جب وہ بھارت کے وزیرِ اعظم کے عہدے پر براجمان ہوگئے تو اُن کے سارے پاپ دھل گئے اور امریکا نے گرگِٹ کی طرح اپنا رنگ تبدیل کر لیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ امریکا کے حالیہ سرکاری دورہ میں اُن کا پُر زور استقبال کیا گیا اور اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وائٹ ہاؤس میں اُن کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اِس سے امریکا کا کردار اور اصل چہرہ صاف نظر آتا ہے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تاہم ڈپلومیسی کا تقاضہ یہ ہے کہ کڑوا گھونٹ پی لیا جائے اور آیندہ کے لیے محتاط رہا جائے۔ صرف یہی نہیں کہ بھارت امریکا کے ساتھ اپنے روابط بڑھا رہا ہے بلکہ وہ بھارت پر اِس حد تک مہربان ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے بھارت کو مستقل رکنیت دلانا چاہتا ہے۔
نیز یہ کہ اُس کی کوشش ہے کہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائیر گروپ (این ایس جی) کی ممبر شِپ بھی مل جائے۔بھارت کی چالاکی دیکھیے کہ امریکا کی اُس پر اِس فریفتگی کے باوجود اُس کے ساتھ اتحاد کے لیے آمادہ نہیں ہونا چاہتا اور اپنے لیے ہر کسی کے ساتھ میل ملاپ رکھنا چاہتا ہے تا کہ دیگر ممالک سے تعلقات رکھنے کے لیے بھی تمام دروازے کھلے رہیں۔
یوکرین کے معاملہ میں بھارت کا جھکاؤ روس کی طرف ہے اور اُدھر یوکرین کے ساتھ بھی بھارت اپنا ناتا توڑتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا جس پر امریکا کو خاصی پریشانی لاحق ہے۔لومڑی صفت بھارت روس سے ایس400 میزائل اور دوسرے ہتھیار بھی خرید رہا ہے اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ وہ انٹرنیشنل فورم پر روس کی مذمت سے بھی گریزاں ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ وہ روس سے تیل خرید کر امریکا کو بھی سپلائی کر رہا ہے۔ بھارت کی عیاری ملاحظہ ہوکہ وہ روس سے رعایتی داموں پر تیل خرید کر امریکا کو بھی فروخت کر رہا ہے۔
امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ جنوبی ایشیا کے لیے باعثِ تشویش ہے اور پاکستان کے لیے تو یہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ بھارت اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف جارحیت پر اُتر آئے کیونکہ اُس کی 80 فیصد فوجی صلاحیت پاکستان کے خلاف تیار ہے۔
صورتحال اِس قدر نازک اور تشویش ناک ہے لیکن اِدھر وطنِ عزیز میں آیندہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سیاسی اختلافات حد سے گزر کر ذاتی اختلافات تک پہنچ گئے ہیں اور اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ قوم پریشان ہے کہ اِس ملک کا کیا بنے گا اور آیندہ کیا ہوگا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطنِ عزیزکی حفاظت کرے اور تمام معاملات سلجھ جائیں۔ (آمین)