کوالی فیکیشن اورڈس کوالی فیکیشن
قومیت چھپانا تو مشکل ہے البتہ موثر پروپیگنڈے سے قابلیت اہلیت اور کام کرنے کی ڈس کوالی فیکیشن چھپائی جائے
اگرآپ نے دھیان دیا ہوجس کی آپ سے توقع کرنا بن بادل برسات کی توقع کرنا ہے، اس لیے ہم ہی یاد دلائے دیتے ہیں کہ کچھ عرصے سے ہم نے سرکاری اداروں اور محکموں کے بارے میں لکھنا بالکل چھوڑ دیا ہے کیوں کہ جس طرح سقراط ساری عمر میں یہ جان گیا تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
اسی طرح ہم بھی سرکاری محکموں اوراداروں کے بارے میں جان چکے ہیں کہ حکومت جو ''منتخب نمائندوں'' پر مشتمل ہوتی ہے جب کسی کام کا بیڑہ غرق کرنا چاہتی ہو یا کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تو اس کے لیے کوئی محکمہ یا ادارہ بنا دیتی ہے اور پھر آرام سے بیٹھ کر اس ''کام'' کو اپنا ہی سرکھائے ہوئے دیکھتی ہے۔
اس سلسلے میں اس شخص کی مثال کافی ہے جس نے خالص دودھ کے لیے ''بھینس'' خریدی تھی اور پھر خالص دودھ پانے کے لیے نوکر پر نوکر رکھتاچلاگیا اور اوپر تلے آٹھ دس نوکر یا نگران رکھنے کے بعد خالص پانی تک پہنچاتھا۔
عرصہ ہوا ہم ایک وفد میں صوبائی وزیرثقافت کھیل وسیاحت کے پاس گئے ، وزیرصاحب نے فرمایا کہ جو کام آپ بتارہے ہیں وہ اس لیے نہیں ہورہے ہیں کہ محکمے کی ڈائریکٹریٹ نہیں ہے ، میں کوشش کر رہا ہوں،باقی محکموں کی طرح ثقافت کی بھی ڈائریکٹریٹ بن جائے تو یہ سب کچھ ہونے لگے گا اور پھر کچھ عرصے بعد محکمہ ثقافت کی ڈائریکٹریٹ بن گئی۔
اب ثقافت کی ڈائریکٹریٹ بھی ہے اس میں منتخب نمائندوں کے منتخب ماہرین بھی ہیں لیکن ثقافت نہ جانے کہاں فرار ہوکر عدم پتہ ہوگئی ہے ۔
اب ڈائریکٹریٹ میں وہی ''کام'' ہو رہاہے جو سارے سرکاری اداروں اور محکموں، اکیڈیمیوں، کمیٹیوں وغیرہ میں ہمیشہ سے ہوتارہاہے اورپاکستان کی قومی خاصیت ہے یعنی کام نہ کرنے کا کام، اور نہ ہونے دینے کا کام ،اسے آپ پاکستان کی ''قومی صنعت'' بھی کہہ سکتے ہیں۔
خیر یہ تو عام کہانی ہے اور ہرکسی کو معلوم ہے کہ اگر ''کام'' ہونے لگے تو پھر لوگ کھائیں گے کیا ؟ایسے میں کسی ادارے یا اکیڈمی وغیرہ سے کام کی توقع کوئی نادان ہی کرسکتاہے اورہمارا پالا پچھلے دنوں ایسے ہی ایک نادان سے پڑ گیا تھا۔آکر بولا یہ تم جو ادھر ادھر کی خرافات لکھتے رہتے ہو تو کبھی کوئی ''کام'' کی بات بھی لکھ دیا کرو۔ ہم نے پوچھا مثلاً ؟ تو بولادیکھ نہیں رہے ہو، کتنے عرصے سے کتنی اکیڈمیاں ''کوما'' میں پڑی ہوئی ہیں ۔
باقی محکموں ، اداروں ، کمیٹیوں اور اکادمیوں بلکہ اکاآدمیوں سے ہمیں کوئی لینا دینانہیں ہے لیکن وہ جو ''اک آدمی'' بمقام اسلام آباد بنام اک آدمی حرفیات (لیٹرز) ہوا کرتی تھی جس سے خدا مارے شاعروں اور ادیبوں کی کچھ امیدیں ہواکرتی تھیں، بچاری ایک مدت سے ''کوما'' میں پڑی ہوئی ہے، اس کا کچھ کرو ورنہ کوما ہی کوما میں چل بسے گی۔
ہمارے لیے یہ ایک نئی اطلاع بلکہ خوش خبری تھی کیوں کہ ہم نے کافی ثقہ لوگوں سے سناتھا کہ بچاری کی نہ صرف وفات حسرت آیات ہوچکی ہے بلکہ ''انتقال پر ملال'' بھی ہوچکاہے اورآج کل اس کی مرقد پر گڑ بتاشے بانٹے جارہے ہیں ، لیکن اس نے نہایت ہی وثوق سے بتایا کہ محترمہ ابھی مرحومہ نہیں ہوئی ہے بلکہ قابل رحم حالت میں ہے۔
اب بھی وقت ہے اگر کوئی مسیحا مل جائے تو ''قم باذن اللہ ''ہوسکتا ہے ، پھر اس نے اس مسیحا کا نام بھی بتادیا کہ ''اباسین یوسفزئی ''ہرلحاظ سے اس کے لیے کوالی فائی کرتاہے، لائق ہے ،فائق ہے اورسب سے بڑی بات یہ کہ کام کا آدمی ہے ،کام کرنا، کرانا اورکروانا اس کاجنون ہے ، ہم نے فوراً ہاتھ اٹھا کر فل اسٹاپ کردیاہے ، کیاکہا تم نے ؟ کام کا آدمی ہے ؟ اس نے کہا ہاں اس کا ریکارڈ خود شاہد ہے ۔ہم نے اسے سمجھایا کہ پھر تو گئی بھینس پانی میں۔اگر متعلقہ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ کام کا آدمی ہے تو پھر تو اس کا مطلب ہوا ڈس کوالی فائی۔
بلکہ خطرہ ہے کہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی شروع ہوجائے اورایک اورکمیٹی بٹھائی جائے جو یہ پتہ لگائے کہ اس نے کہاں کہاں کام کرکے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ، پھر ہم نے اس نادان کو تفصیل سے آگاہ کیا کہ اگر واقعی تم چاہتے ہو کہ اباسین یوسفزئی کا تقرراس منصب پر ہوجائے تو دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، ایک تو یہ کہ اس کی قومیت اور قابلیت دونوں چھپائی جائیں۔
قومیت چھپانا تو مشکل ہے البتہ موثر پروپیگنڈے سے قابلیت اہلیت اور کام کرنے کی ڈس کوالی فیکیشن چھپائی جائے اوراس کی جگہ ، یہاں وہاں سے جتنے عیب ہوسکتے ہیں اس کے اندرہوسکتے ہیں مثلاً اس نے سازش کرکے محکمہ ریل اور پی آئی اے کو موجودہ قابل رشک حالت تک پہنچایاہے ۔
''کام''پر ایک پرانی کام کی بات یاد آگئی، ان دنوں ہم رات کو ایک ملک صاحب کے ڈیرے میں بیٹھاکرتے تھے ،مروجہ اورمعمول کی باتیں ہوتی تھیں حالات حاضرہ ، فصلوں، نرخوں، شادیوں، غموں اور تازہ واقعات پر تبصرے ہواکرتے تھے ، ملک صاحب کا ایک بھائی مردان میں کسی خان کا ڈرائیور تھا جو کبھی کبھی چھٹی پر آجاتا تھا، جس دن ملک صاحب کابھائی چھٹی پر آیا ہوتا تو ملک صاحب اسے لے کر ڈیرے میں آجاتے تھے اوراپنی دبنگ آواز میں کہتے تھے خاموش ہوجائو تم سب نے یہ کیا فضول کی بک بک لگارکھی ہے۔
دیکھتے نہیں ،ظاہرخان مردان سے آیا ہواہے، اس سے کوئی کام کی بات سنیں۔ سب چپ ہوجاتے تو ملک صاحب کہتے، ہاں ظاہرخان ۔ظاہرخان شروع ہوجاتا، کل میں ڈیرے میں بیٹھا تھا کہ خان کی گاڑی کش کرکے میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔
میں نے فوراً دروازہ کھولا تو خان نے گاڑی سے اترتے ہوئے دایاں پیر گاڑی کے نیچے رکھا جب تک وہ دوسرا پیر نکال کر نیچے رکھتا میں چادر سے پہلے پیر کا جوتا چمکاتا ۔خان مسکرا کربولا۔ ظاہرخان تم بڑے شیطان ہو۔ اس پر ملک صاحب قہقہہ مارکرکہتا ، سنا اسے کہتے ہیں ، کام کی بات ، پھر ہم سب بھی کام کی اس بات پر قہقہے لگانے لگتے۔
اسی طرح ہم بھی سرکاری محکموں اوراداروں کے بارے میں جان چکے ہیں کہ حکومت جو ''منتخب نمائندوں'' پر مشتمل ہوتی ہے جب کسی کام کا بیڑہ غرق کرنا چاہتی ہو یا کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تو اس کے لیے کوئی محکمہ یا ادارہ بنا دیتی ہے اور پھر آرام سے بیٹھ کر اس ''کام'' کو اپنا ہی سرکھائے ہوئے دیکھتی ہے۔
اس سلسلے میں اس شخص کی مثال کافی ہے جس نے خالص دودھ کے لیے ''بھینس'' خریدی تھی اور پھر خالص دودھ پانے کے لیے نوکر پر نوکر رکھتاچلاگیا اور اوپر تلے آٹھ دس نوکر یا نگران رکھنے کے بعد خالص پانی تک پہنچاتھا۔
عرصہ ہوا ہم ایک وفد میں صوبائی وزیرثقافت کھیل وسیاحت کے پاس گئے ، وزیرصاحب نے فرمایا کہ جو کام آپ بتارہے ہیں وہ اس لیے نہیں ہورہے ہیں کہ محکمے کی ڈائریکٹریٹ نہیں ہے ، میں کوشش کر رہا ہوں،باقی محکموں کی طرح ثقافت کی بھی ڈائریکٹریٹ بن جائے تو یہ سب کچھ ہونے لگے گا اور پھر کچھ عرصے بعد محکمہ ثقافت کی ڈائریکٹریٹ بن گئی۔
اب ثقافت کی ڈائریکٹریٹ بھی ہے اس میں منتخب نمائندوں کے منتخب ماہرین بھی ہیں لیکن ثقافت نہ جانے کہاں فرار ہوکر عدم پتہ ہوگئی ہے ۔
اب ڈائریکٹریٹ میں وہی ''کام'' ہو رہاہے جو سارے سرکاری اداروں اور محکموں، اکیڈیمیوں، کمیٹیوں وغیرہ میں ہمیشہ سے ہوتارہاہے اورپاکستان کی قومی خاصیت ہے یعنی کام نہ کرنے کا کام، اور نہ ہونے دینے کا کام ،اسے آپ پاکستان کی ''قومی صنعت'' بھی کہہ سکتے ہیں۔
خیر یہ تو عام کہانی ہے اور ہرکسی کو معلوم ہے کہ اگر ''کام'' ہونے لگے تو پھر لوگ کھائیں گے کیا ؟ایسے میں کسی ادارے یا اکیڈمی وغیرہ سے کام کی توقع کوئی نادان ہی کرسکتاہے اورہمارا پالا پچھلے دنوں ایسے ہی ایک نادان سے پڑ گیا تھا۔آکر بولا یہ تم جو ادھر ادھر کی خرافات لکھتے رہتے ہو تو کبھی کوئی ''کام'' کی بات بھی لکھ دیا کرو۔ ہم نے پوچھا مثلاً ؟ تو بولادیکھ نہیں رہے ہو، کتنے عرصے سے کتنی اکیڈمیاں ''کوما'' میں پڑی ہوئی ہیں ۔
باقی محکموں ، اداروں ، کمیٹیوں اور اکادمیوں بلکہ اکاآدمیوں سے ہمیں کوئی لینا دینانہیں ہے لیکن وہ جو ''اک آدمی'' بمقام اسلام آباد بنام اک آدمی حرفیات (لیٹرز) ہوا کرتی تھی جس سے خدا مارے شاعروں اور ادیبوں کی کچھ امیدیں ہواکرتی تھیں، بچاری ایک مدت سے ''کوما'' میں پڑی ہوئی ہے، اس کا کچھ کرو ورنہ کوما ہی کوما میں چل بسے گی۔
ہمارے لیے یہ ایک نئی اطلاع بلکہ خوش خبری تھی کیوں کہ ہم نے کافی ثقہ لوگوں سے سناتھا کہ بچاری کی نہ صرف وفات حسرت آیات ہوچکی ہے بلکہ ''انتقال پر ملال'' بھی ہوچکاہے اورآج کل اس کی مرقد پر گڑ بتاشے بانٹے جارہے ہیں ، لیکن اس نے نہایت ہی وثوق سے بتایا کہ محترمہ ابھی مرحومہ نہیں ہوئی ہے بلکہ قابل رحم حالت میں ہے۔
اب بھی وقت ہے اگر کوئی مسیحا مل جائے تو ''قم باذن اللہ ''ہوسکتا ہے ، پھر اس نے اس مسیحا کا نام بھی بتادیا کہ ''اباسین یوسفزئی ''ہرلحاظ سے اس کے لیے کوالی فائی کرتاہے، لائق ہے ،فائق ہے اورسب سے بڑی بات یہ کہ کام کا آدمی ہے ،کام کرنا، کرانا اورکروانا اس کاجنون ہے ، ہم نے فوراً ہاتھ اٹھا کر فل اسٹاپ کردیاہے ، کیاکہا تم نے ؟ کام کا آدمی ہے ؟ اس نے کہا ہاں اس کا ریکارڈ خود شاہد ہے ۔ہم نے اسے سمجھایا کہ پھر تو گئی بھینس پانی میں۔اگر متعلقہ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ کام کا آدمی ہے تو پھر تو اس کا مطلب ہوا ڈس کوالی فائی۔
بلکہ خطرہ ہے کہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی شروع ہوجائے اورایک اورکمیٹی بٹھائی جائے جو یہ پتہ لگائے کہ اس نے کہاں کہاں کام کرکے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ، پھر ہم نے اس نادان کو تفصیل سے آگاہ کیا کہ اگر واقعی تم چاہتے ہو کہ اباسین یوسفزئی کا تقرراس منصب پر ہوجائے تو دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، ایک تو یہ کہ اس کی قومیت اور قابلیت دونوں چھپائی جائیں۔
قومیت چھپانا تو مشکل ہے البتہ موثر پروپیگنڈے سے قابلیت اہلیت اور کام کرنے کی ڈس کوالی فیکیشن چھپائی جائے اوراس کی جگہ ، یہاں وہاں سے جتنے عیب ہوسکتے ہیں اس کے اندرہوسکتے ہیں مثلاً اس نے سازش کرکے محکمہ ریل اور پی آئی اے کو موجودہ قابل رشک حالت تک پہنچایاہے ۔
''کام''پر ایک پرانی کام کی بات یاد آگئی، ان دنوں ہم رات کو ایک ملک صاحب کے ڈیرے میں بیٹھاکرتے تھے ،مروجہ اورمعمول کی باتیں ہوتی تھیں حالات حاضرہ ، فصلوں، نرخوں، شادیوں، غموں اور تازہ واقعات پر تبصرے ہواکرتے تھے ، ملک صاحب کا ایک بھائی مردان میں کسی خان کا ڈرائیور تھا جو کبھی کبھی چھٹی پر آجاتا تھا، جس دن ملک صاحب کابھائی چھٹی پر آیا ہوتا تو ملک صاحب اسے لے کر ڈیرے میں آجاتے تھے اوراپنی دبنگ آواز میں کہتے تھے خاموش ہوجائو تم سب نے یہ کیا فضول کی بک بک لگارکھی ہے۔
دیکھتے نہیں ،ظاہرخان مردان سے آیا ہواہے، اس سے کوئی کام کی بات سنیں۔ سب چپ ہوجاتے تو ملک صاحب کہتے، ہاں ظاہرخان ۔ظاہرخان شروع ہوجاتا، کل میں ڈیرے میں بیٹھا تھا کہ خان کی گاڑی کش کرکے میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔
میں نے فوراً دروازہ کھولا تو خان نے گاڑی سے اترتے ہوئے دایاں پیر گاڑی کے نیچے رکھا جب تک وہ دوسرا پیر نکال کر نیچے رکھتا میں چادر سے پہلے پیر کا جوتا چمکاتا ۔خان مسکرا کربولا۔ ظاہرخان تم بڑے شیطان ہو۔ اس پر ملک صاحب قہقہہ مارکرکہتا ، سنا اسے کہتے ہیں ، کام کی بات ، پھر ہم سب بھی کام کی اس بات پر قہقہے لگانے لگتے۔