سیلابی پانی ضایع نہ ہونے دیں
بڑے ڈیموں کی اپنی افادیت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم صرف بڑے ڈیم ہی بنائیں
پانی زندگی کا اہم ترین جزو ہے۔پانی کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ہر جان دار شے کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔
اﷲ رب العزت زمین کے کسی بھی مردہ حصے پر آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے تو وہ مردہ زمین پھبک اُٹھتی ہے اور طرح طرح کی نباتات اگنے سے ہر سو ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے۔پاکستان میں گلوبل وارمنگ و موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔2022 میں خیبر پختون خواہ،سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع میں سیلاب نے بہت تباہی مچائی۔سڑکیں اور پل پانی کے تیز دھاروں میں بہہ گئے۔بلوچستان میں کئی ایک چھوٹے ڈیمز ٹوٹ گئے۔
سوات میں دریا کنارے ہوٹلز دریا برد ہو گئے۔ امسال مون سون شروع ہونے سے بہت پہلے بادلوں نے ڈیرے ڈال دئے۔پورے پنجاب میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔بادل جم کر برس رہے ہیں۔لاہور میں تو ایک ایک دن میں سیکڑوں ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
لاہور شہر کے وسط میں بہنے والی نہر کم از کم دو مرتبہ اپنے کناروں سے اُچھل کر بے کراں ہو چکی ہے۔ایسے لگتا ہے پورے پنجاب میں چھاجوں پانی آسمان سے انڈیلا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میںکراچی سمیت سارے سندھ میں کبھی موسلا دھار اور کبھی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔وہاں زیادہ تر سڑکیں جوہڑ بنی ہوئی ہیں۔
آج دنیا بھر میں پھیلے جو وسیع و عریض صحرا نظر آتے ہیں گزرے کل میں یہ سر سبز و شاداب لہلہاتے کھیتوں اور باغوں کی سرزمینیں تھیں۔کھیلتی کودتی،ہنستی بستی زندگیاں ان میں رواں دواں تھیں۔جب ان بستیوں کو پانی سے سیراب کرنے والے دریا اور ندی نالے خشک ہو گئے تو زندگیوں سے بھر پور آبادیاں آہستہ آہستہ اجڑ کر ویرانی کا منظر پیش کرنے لگیں۔
ان کے گلستانوں نے ریت کے کفن اوڑھ لیے۔دنیا کے تمام صحرا زندہ لوگوں کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ اگر تم نے اپنے پانیوں کی حفاظت نہ کی تو تمھارے گلستانوں کا حشر بھی ہم سے مختلف نہیں ہو گا۔تمھارے ہرے بھرے لہلہاتے کھیت بھی ریت کا کفن اوڑھ کر سو جائیں گے۔
پاکستان کے پہلے آمر جنرل ایوب خان نے ایک بھیانک جرم یہ کیا کہ دریاؤں کے پانی کے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستان کے سارا سال بہتے تین دریاؤں راوی،ستلج اور بیاس کے پانیوں کو بھارت کے حوالے کر دیا۔اس پہلو کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے کہ پانی کے گراؤنڈ لیول کی ری چارجنگ کے لیے کم از کم سال میں تین ماہ دریاؤں کے سیلابی پانی کا تیز بہاؤ بہت ہی ضروری ہے۔
اگر ری چارجنگ ہوتی رہے تو ان دریاؤں کے کنارے آباد لوگوں کو میٹھا پانی ملتا رہے۔راوی،ستلج اور بیاس کے علاقوں میں لاکھوں ٹیوب ویل لاکھوں کیوسک پانی روزانہ زمین کے اندر سے نکال رہے ہیں جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرتی جا رہی ہے۔
خدشہ ہے کہ ان علاقوں کی سرزمین کی زرخیزی متاثر نہ ہو۔اگر دنیا کے مختلف خطوں کے موسمی حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ کہیں سات سات سال کا،کہیں اس سے کم اور کہیں سات سال سے زیادہ کا جغرافیائی سائیکل ہوتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں جغرافیائی سائیکل دس دس سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بارے میں تمام معلومات اکٹھی کر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور موسموں کی تبدیلی کو اپنے حق میں لائیں۔
دنیا میں کئی ایسے دریا ہیں جو ایک سے زیادہ ممالک سے گزر کر سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔عالمی قانون کے تابع ہر ملک اپنے حصے کا پانی ان دریاؤں سے حاصل کر کے ضروریات پورا کرتا ہے۔دنیا میں کسی جگہ بھی ایسا معاہدہ نہیں ہوا کہ کسی دریا کا پانی ایک ملک تک محدود ہو جائے اور دوسرے ملک کے لیے اس دریا کا پانی بند کر دیا جائے۔
حیرت کی بات ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے ستلج،بیاس اور راوی کے پانی سے فائدہ تو بھارت اٹھا رہا ہے لیکن تمام نقصانات پاکستان کے حصے میں آئے ہیں جس کا ثبوت حالیہ سیلاب ہیں۔ان سیلابوں میں پاکستان کے عوام،ان کے مال مویشی اور گھر بار خش و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔کئی انسانی جانیں ان سیلابوں کی نذر ہو چکی ہیں۔
عالمی قوانین کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے پانی کی تقسیم کرنے کے بجائے دریا تقسیم کر دئے گئے۔ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ سکندر جب یونان سے نکل کر مختلف ممالک کو فتح کرتے ہوئے دریائے ہاکڑہ کے کنارے پہنچا تو اس کے کناروں کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی سر سبز و شاداب زمینوں پر لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنی تھکی ماندی فوج کو حکم دیا کہ یہاں پڑاؤ کیا جائے۔سکندر نے اس دریا کے کنارے کی زرخیز زمینوں کو دنیا کی خوبصورت ترین چراگاہیں قرار دیا۔پھر موسموں نے کروٹ لی۔یہاں پر بہنے والا دریا خشک ہو گیا۔
اس کے کنارے بسنے والی آبادیوں کے مکینوں کو میٹھے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ہنستے بستے قصبے اور بستیاں ویران ہو گئیں۔سکندر نے جس علاقے کی چرا گاہوں کی تعریف کی تھی ان پر ریت کی تہیں چڑھ گئیں اور اب وہاں حدِ نگاہ تک ریت کے ٹیلے ہیں۔ماضی کے اس شاداب علاقے کو اب روہی کہتے ہیں۔
ملکی معیشت کی ترقی کا دارو مدار زراعت کی ترقی میں ہے۔اس بات کا ادراک رکھنے کے باوجود کہ وہی ملک حقیقی ترقی کرتے ہیں جو خوراک میں خود کفیل ہوں اور جن کا کاشتکار خوشحال ہو،ہمارے ہاں زراعت کی ترقی کے لیے پوری کوشش نہیں ہوئی۔مشہور ہے کہ جس گھر وچ دانڑے،اس دے کملے بھی سیانڑے یعنی جس گھر میں گزر بسر کے لیے مناسب مقدار میں غلہ موجود ہو اس گھر کے بے وقوف بھی دانا سمجھے جاتے ہیں۔
حیرت ہے کہ یہ ضرب المثل تو ہماری ہے لیکن اس پر عمل پیرا دوسری قومیں ہیں کیونکہ وہ جان چکی ہیں کہ حیرت انگیز صنعتی ترقی کے باوجود زراعت کا شعبہ بہت اہم ہے۔ کاشتکار کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ دلانے کے لیے ریاست سارے جتن کرتی ہے۔
پاکستان دنیا کے چند خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جسے رب العزت نے لاکھوں ایکڑ ہموار زمین، اور بدلتے موسموں سے نوازا ہے۔دنیا میں پیدا ہونے والی ہر سبزی،ہر پھل اور ہر قسم کی زرعی اجناس یہاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ حکومت اور فوج نے زراعت کی ترقی کے لیے ایک نیا منصوبہ بنایا ہے۔
ہمارے ہاں ایک طرف تو جہاں ہر وقت خشک سالی کا عفریت منہ کھولے کھڑا رہتا ہے وہیں دوسری طرف شدید باشوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں۔بے تحاشہ بارشوں میں پانی کو اگر ذخیرہ کرنے کا مناسب بندو بست ہو جائے تو پانی کی قلت کے دنوں میں یہ پانی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔بڑے ڈیموں کی اپنی افادیت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم صرف بڑے ڈیم ہی بنائیں۔
اگر کالا باغ ڈیم بہت مفید بھی ہے لیکن ایک یا ایک سے زیادہ صوبوں کے رہنماء اس پر معترض ہیں تو قومی یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ہم اسے ابھی موقوف رکھیں اور ان پروجیکٹس پر کام کریں جن پر سب متفق ہیں۔ہر علاقے میں اسمال ڈیمز بنا کر ہم پانی کے متعدد ذخیرے پیدا کر سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر ندی نالے کا ماہرین کی مدد سے جائزہ لیں اور جہاں کہیں بھی کوئی ڈیم بن سکتا ہے، بنائیں۔
اس سے بارشوں کا پانی ضایع ہونے سے بچ جائے گا۔آبپاشی کے لیے پانی ہوگا اور بجلی بھی پیدا ہو سکے گی۔بھارت جب وافر پانی کو ستلج اور راوی میں چھوڑے تو ہر طرف تباہی مچ جاتی ہے۔ہمارے پاس اس سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا مناسب بندو بست ہونا چاہیے تاکہ ان مہینوں میں جب یہ دریا خشک ہو جاتے ہیں ہم ذخیرہ شدہ سیلابی پانی کو استعمال کر کے ری چارجنگ کا عمل جاری رکھ سکیں۔
اﷲ رب العزت زمین کے کسی بھی مردہ حصے پر آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے تو وہ مردہ زمین پھبک اُٹھتی ہے اور طرح طرح کی نباتات اگنے سے ہر سو ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے۔پاکستان میں گلوبل وارمنگ و موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔2022 میں خیبر پختون خواہ،سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع میں سیلاب نے بہت تباہی مچائی۔سڑکیں اور پل پانی کے تیز دھاروں میں بہہ گئے۔بلوچستان میں کئی ایک چھوٹے ڈیمز ٹوٹ گئے۔
سوات میں دریا کنارے ہوٹلز دریا برد ہو گئے۔ امسال مون سون شروع ہونے سے بہت پہلے بادلوں نے ڈیرے ڈال دئے۔پورے پنجاب میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔بادل جم کر برس رہے ہیں۔لاہور میں تو ایک ایک دن میں سیکڑوں ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
لاہور شہر کے وسط میں بہنے والی نہر کم از کم دو مرتبہ اپنے کناروں سے اُچھل کر بے کراں ہو چکی ہے۔ایسے لگتا ہے پورے پنجاب میں چھاجوں پانی آسمان سے انڈیلا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میںکراچی سمیت سارے سندھ میں کبھی موسلا دھار اور کبھی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔وہاں زیادہ تر سڑکیں جوہڑ بنی ہوئی ہیں۔
آج دنیا بھر میں پھیلے جو وسیع و عریض صحرا نظر آتے ہیں گزرے کل میں یہ سر سبز و شاداب لہلہاتے کھیتوں اور باغوں کی سرزمینیں تھیں۔کھیلتی کودتی،ہنستی بستی زندگیاں ان میں رواں دواں تھیں۔جب ان بستیوں کو پانی سے سیراب کرنے والے دریا اور ندی نالے خشک ہو گئے تو زندگیوں سے بھر پور آبادیاں آہستہ آہستہ اجڑ کر ویرانی کا منظر پیش کرنے لگیں۔
ان کے گلستانوں نے ریت کے کفن اوڑھ لیے۔دنیا کے تمام صحرا زندہ لوگوں کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ اگر تم نے اپنے پانیوں کی حفاظت نہ کی تو تمھارے گلستانوں کا حشر بھی ہم سے مختلف نہیں ہو گا۔تمھارے ہرے بھرے لہلہاتے کھیت بھی ریت کا کفن اوڑھ کر سو جائیں گے۔
پاکستان کے پہلے آمر جنرل ایوب خان نے ایک بھیانک جرم یہ کیا کہ دریاؤں کے پانی کے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستان کے سارا سال بہتے تین دریاؤں راوی،ستلج اور بیاس کے پانیوں کو بھارت کے حوالے کر دیا۔اس پہلو کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے کہ پانی کے گراؤنڈ لیول کی ری چارجنگ کے لیے کم از کم سال میں تین ماہ دریاؤں کے سیلابی پانی کا تیز بہاؤ بہت ہی ضروری ہے۔
اگر ری چارجنگ ہوتی رہے تو ان دریاؤں کے کنارے آباد لوگوں کو میٹھا پانی ملتا رہے۔راوی،ستلج اور بیاس کے علاقوں میں لاکھوں ٹیوب ویل لاکھوں کیوسک پانی روزانہ زمین کے اندر سے نکال رہے ہیں جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرتی جا رہی ہے۔
خدشہ ہے کہ ان علاقوں کی سرزمین کی زرخیزی متاثر نہ ہو۔اگر دنیا کے مختلف خطوں کے موسمی حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ کہیں سات سات سال کا،کہیں اس سے کم اور کہیں سات سال سے زیادہ کا جغرافیائی سائیکل ہوتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں جغرافیائی سائیکل دس دس سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بارے میں تمام معلومات اکٹھی کر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور موسموں کی تبدیلی کو اپنے حق میں لائیں۔
دنیا میں کئی ایسے دریا ہیں جو ایک سے زیادہ ممالک سے گزر کر سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔عالمی قانون کے تابع ہر ملک اپنے حصے کا پانی ان دریاؤں سے حاصل کر کے ضروریات پورا کرتا ہے۔دنیا میں کسی جگہ بھی ایسا معاہدہ نہیں ہوا کہ کسی دریا کا پانی ایک ملک تک محدود ہو جائے اور دوسرے ملک کے لیے اس دریا کا پانی بند کر دیا جائے۔
حیرت کی بات ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے ستلج،بیاس اور راوی کے پانی سے فائدہ تو بھارت اٹھا رہا ہے لیکن تمام نقصانات پاکستان کے حصے میں آئے ہیں جس کا ثبوت حالیہ سیلاب ہیں۔ان سیلابوں میں پاکستان کے عوام،ان کے مال مویشی اور گھر بار خش و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔کئی انسانی جانیں ان سیلابوں کی نذر ہو چکی ہیں۔
عالمی قوانین کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے پانی کی تقسیم کرنے کے بجائے دریا تقسیم کر دئے گئے۔ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ سکندر جب یونان سے نکل کر مختلف ممالک کو فتح کرتے ہوئے دریائے ہاکڑہ کے کنارے پہنچا تو اس کے کناروں کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی سر سبز و شاداب زمینوں پر لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنی تھکی ماندی فوج کو حکم دیا کہ یہاں پڑاؤ کیا جائے۔سکندر نے اس دریا کے کنارے کی زرخیز زمینوں کو دنیا کی خوبصورت ترین چراگاہیں قرار دیا۔پھر موسموں نے کروٹ لی۔یہاں پر بہنے والا دریا خشک ہو گیا۔
اس کے کنارے بسنے والی آبادیوں کے مکینوں کو میٹھے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ہنستے بستے قصبے اور بستیاں ویران ہو گئیں۔سکندر نے جس علاقے کی چرا گاہوں کی تعریف کی تھی ان پر ریت کی تہیں چڑھ گئیں اور اب وہاں حدِ نگاہ تک ریت کے ٹیلے ہیں۔ماضی کے اس شاداب علاقے کو اب روہی کہتے ہیں۔
ملکی معیشت کی ترقی کا دارو مدار زراعت کی ترقی میں ہے۔اس بات کا ادراک رکھنے کے باوجود کہ وہی ملک حقیقی ترقی کرتے ہیں جو خوراک میں خود کفیل ہوں اور جن کا کاشتکار خوشحال ہو،ہمارے ہاں زراعت کی ترقی کے لیے پوری کوشش نہیں ہوئی۔مشہور ہے کہ جس گھر وچ دانڑے،اس دے کملے بھی سیانڑے یعنی جس گھر میں گزر بسر کے لیے مناسب مقدار میں غلہ موجود ہو اس گھر کے بے وقوف بھی دانا سمجھے جاتے ہیں۔
حیرت ہے کہ یہ ضرب المثل تو ہماری ہے لیکن اس پر عمل پیرا دوسری قومیں ہیں کیونکہ وہ جان چکی ہیں کہ حیرت انگیز صنعتی ترقی کے باوجود زراعت کا شعبہ بہت اہم ہے۔ کاشتکار کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ دلانے کے لیے ریاست سارے جتن کرتی ہے۔
پاکستان دنیا کے چند خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جسے رب العزت نے لاکھوں ایکڑ ہموار زمین، اور بدلتے موسموں سے نوازا ہے۔دنیا میں پیدا ہونے والی ہر سبزی،ہر پھل اور ہر قسم کی زرعی اجناس یہاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ حکومت اور فوج نے زراعت کی ترقی کے لیے ایک نیا منصوبہ بنایا ہے۔
ہمارے ہاں ایک طرف تو جہاں ہر وقت خشک سالی کا عفریت منہ کھولے کھڑا رہتا ہے وہیں دوسری طرف شدید باشوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں۔بے تحاشہ بارشوں میں پانی کو اگر ذخیرہ کرنے کا مناسب بندو بست ہو جائے تو پانی کی قلت کے دنوں میں یہ پانی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔بڑے ڈیموں کی اپنی افادیت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم صرف بڑے ڈیم ہی بنائیں۔
اگر کالا باغ ڈیم بہت مفید بھی ہے لیکن ایک یا ایک سے زیادہ صوبوں کے رہنماء اس پر معترض ہیں تو قومی یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ہم اسے ابھی موقوف رکھیں اور ان پروجیکٹس پر کام کریں جن پر سب متفق ہیں۔ہر علاقے میں اسمال ڈیمز بنا کر ہم پانی کے متعدد ذخیرے پیدا کر سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر ندی نالے کا ماہرین کی مدد سے جائزہ لیں اور جہاں کہیں بھی کوئی ڈیم بن سکتا ہے، بنائیں۔
اس سے بارشوں کا پانی ضایع ہونے سے بچ جائے گا۔آبپاشی کے لیے پانی ہوگا اور بجلی بھی پیدا ہو سکے گی۔بھارت جب وافر پانی کو ستلج اور راوی میں چھوڑے تو ہر طرف تباہی مچ جاتی ہے۔ہمارے پاس اس سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا مناسب بندو بست ہونا چاہیے تاکہ ان مہینوں میں جب یہ دریا خشک ہو جاتے ہیں ہم ذخیرہ شدہ سیلابی پانی کو استعمال کر کے ری چارجنگ کا عمل جاری رکھ سکیں۔