کپتان کی نا اہلی اور سزا

ایک دفعہ سزا ہوجائے اورنااہلی ہوجائے تو ختم کرنا آسان نہیں پھرچیئرمین پی ٹی آئی کے پاس جماعت بھی نہیں لوگ بھی نہیں

msuherwardy@gmail.com

چیئرمین پی ٹی آئی سپریم کورٹ سے توشہ خانہ کا ٹرائل رکوانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ٹرائل کورٹ کے کام میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے ٹرائل کے خلاف حکم امتناعی دینے سے انکار کر دیا۔

اس ناکامی کے بعد قانونی ماہرین کی عمومی رائے یہی ہے کہ توشہ خانہ کیس کا ٹرائل اب منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ یہ رائے بھی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اس کیس میں سزا ہو جائے گی۔ ٹرائل روکنے کی آخری امید سپریم کورٹ ہی تھی۔

جہاں چیئرمین پی ٹی آئی نا کام ہو گئے ہیں۔اس کے بعد اب ان کے پاس کوئی قانونی آپشن نہیں ہے۔ ٹرائل میں گواہیاں ہو چکی ہیں۔ صرف چیئرمین پی ٹی آئی نے 342کا بیان ریکارڈ کروانا ہے۔ جس کے بعد وکیلوں کی بحث رہ جائے گی۔ جس اسپیڈ سے ٹرائل چل رہا ہے۔ یہ دونوں کام آٹھ دس دن میں مکمل ہو سکتے ہیں۔

اس لیے اگر چیئرمین پی ٹی آئی کو اب اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی ٹرائل روکنے کا حکم امتناعی نہ ملا تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگلے دس دن میں انھیں توشہ خانہ کیس میں سزا ہو سکتی ہے۔

اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں عین ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے اور قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ میں سزا ہو جائے۔ قانونی ماہرین کی رائے میں سزا کے زیادہ امکانات ہیں۔

اسی لیے چیئرمین پی ٹی آئی اب تک اس ٹرائل کو ٹیکنیکل گراؤنڈ پر رکوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ ٹرائل میں اپنا دفاع کرنے کی بجائے ٹیکنیکل گراؤنڈ پر کیس کو روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم اب ان کی یہ حکمت عملی ناکام نظر آرہی ہے۔

ٹرائل مکمل ہوتا نظر آرہا ہے۔ ٹیکنیکل طریقے ناکام ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان کا مقدمہ ان کے ہم خیال بنچ میں نہیں لگ سکا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں اگر ان کا کیس ان کے ہم خیال بنچ میں لگ جاتا تو حکم امتناعی مل جاتا۔ یہی ان کی بڑی ناکامی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کتنی سزا ہو گی۔ قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ سزا تین سال تک ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید کی سزا ہو جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں نہیں۔ میری رائے میں انھیں دو سال یا اس سے کم سزا ہوگی۔ لیکن سزا تو ایک دن اور گھنٹے کی بھی کافی ہے۔

یوسف رضا گیلانی کو ایک منٹ سے بھی کم سزا ہوئی تھی اور وہ اس کے نتیجے میں نا اہل ہو گئے تھے۔ انھیں وزارت عظمیٰ چھوڑنی پڑی تھی۔ اس لیے اگر چیئرمین پی ٹی آئی کو دو سال یا اس سے کم کی بھی سزا ہو جاتی ہے تو وہ نا اہل ہو جائیں گے اور انھیں جیل بھی جانا ہوگا۔ اس موقع پر سزا کا یہ بھی مطلب ہے کہ و ہ اگلے الیکشن کے لیے نا اہل ہونگے۔

عین ممکن ہے کہ اگلے الیکشن کے موقع پر وہ جیل میں ہوں۔ اور انتخابی مہم میں بھی حصہ نہ لے سکیں۔ اگر وہ نااہل ہوں لیکن جیل میں نہ ہوں تب بھی وہ انتخابی مہم تو چلا لیں گے۔ لیکن اگر جیل جائیں گے تو انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکیں گے۔ ان کی جماعت میں ان کے بعد ایسی کوئی قیادت نہیں جو انتخابی مہم چلا سکے۔


اس لیے چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہونگے تو ان کی انتخابی مہم ختم ہی سمجھیں۔ اب تو یہ خبریں ہیں کہ نگران آنے سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا ہو جائے گی ۔ نگران کے آنے سے پہلے وہ جیل میں ہونگے۔ دو چار دن اوپر نیچے ہو سکتے ہیں۔ لیکن منظر نامہ یہی بن رہا ہے۔

میرے خیال میں اگر چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا ہو جاتی ہے تو ان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ سے فوری معطل نہیں ہوگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وہ اپیل دائر کریں گے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی اپیل اگر باری پر لگے گی تو تین چار ماہ لگ جائیں گے۔ اور اگر اپیل تین چار ماہ بعد لگتی ہے تو اتنے میں انتخابات ہو جائیں گے۔

پھر دیکھا جائے گا کہ سزا معطل ہوتی ہے کہ نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل جانے کا انھیں بہت نقصان ہوگا۔ دیگر جن مقدمات کو وہ ٹیکنیکل گراؤنڈ پر روک رہے ہیں، وہ بھی نہیں رکیں گے اور ان کے ٹرائل بھی تیزی سے مکمل ہو جائیں گے۔

اگر دیکھا جائے تو چیئرمین پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ میں نیب نے دو دن کے لیے گرفتار کیا تھا تو اس گرفتاری کا چیئرمین پی ٹی آئی کو سب سے بڑا نقصان یہی ہوا کہ توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد ہو گئی اگر وہ گرفتار نہ ہوتے تو وہ فرد جرم نہ لگنے دیتے۔ گرفتاری کی وجہ سے فرد جرم لگ گئی۔ اب بھی جب وہ جیل جائیں گے باقی مقدمات بھی تیز ہو جائیں گے اور سزاؤں کے قریب پہنچ جائیں گے۔

میں سمجھتا ہوں جیسے جیسے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا قریب آرہی ہے۔ ویسے ویسے ملک میں بروقت انتخابات کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔ انتخابات کا اس سے بہترین وقت ہو ہی نہیں سکتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نااہل بھی ہوں جیل میں بھی ہوں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس اب زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ وہ ٹرائل کورٹ میں ہی ٹرائل کو لمبا کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن کتنے دن ۔ زیادہ دن نہیں گزر سکتے۔ اس لیے آپشن بھی کم ہیں۔

جب میاں نواز شریف کو ایسے ہی نا اہل کیا جا رہا تھا، سزا سنائی جا رہی تھی، جیل میں ڈالا جا رہا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی جیت کا جشن منا رہے تھے میں نے تب بھی لکھا تھا کہ اس لڑائی میں ہو جائے گی گم ایک کی چونچ ایک کی دم کے مصداق دونوں ہی نا اہل ہو جائیں گے۔ میری بات کو مذاق سمجھا گیا۔ ایکسپریس میں میرے چھپے ہوئے وہ کالم موجود ہیں۔

دوستوں کی رائے میں تب میں غلط تھا۔ ان کا خیال تھا شریف خاندان کی سیاست ختم ہو گئی ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی کا سورج کئی سال کے لیے چڑھ گیا ہے۔ لیکن آج دیکھ لیں چیئرمین پی ٹی آئی وہیں کھڑے ہیں جہاں گذشتہ الیکشن سے قبل نواز شریف تھے۔ نواز شریف کی پارٹی تو اقتدار میں آئی ہے لیکن وہ ابھی تک نا اہل ہیں۔ سزا یافتہ ہیں۔

اس لیے چیئرمین پی ٹی آئی کی نا اہلی اور سزا ختم ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک دفعہ سزا ہو جائے اورنا اہلی ہو جائے تو ختم کرنا آسان نہیں پھر چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس جماعت بھی نہیں۔ لوگ بھی نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس کوئی شہباز شریف بھی نہیں ہے۔ نا اہلی کا یہ کھیل چیئرمین پی ٹی آئی نے شروع کیا تھا۔

اب ان پر ہی ختم ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی بھی کوئی اچھی نہیں تھی۔ لیکن اس کے ساتھ جیل نہیں تھی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے جو کنواں نواز شریف کے لیے کھودا تھا۔ آج اس میں خود بھی گر رہے ہیں۔ یہی سیاست ہے۔
Load Next Story