غریب ملک میں افسروں کی مراعات

غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے کے ساتھ ٹیکس بھی دے رہے ہیں جبکہ وزرا اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں


ملکی خزانہ خالی ہے لیکن وزرا اور افسران کی عیاشیاں ختم نہیں ہورہیں۔ (فوٹو: فائل)

چند روز قبل ایک حیران کن خبر سننے کو ملی، وہ یہ کہ پنجاب میں حکومت نے اعلیٰ افسران کےلیے 200 نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی۔


خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پنجاب حکومت نے ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کےلیے ڈبل کیبن ڈالے کی منظوری دی ہے اور ہر ضلع کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر کےلیے 1300 سی سی گاڑیوں کی منظوری دی ہے۔ اسی طرح تمام اضلاع کے اسسٹنٹ کمشنرز کےلیے 1600 سی سی کرولا کی منظوری دی ہے اور ان تمام گاڑیوں کےلیے 2 ارب 33 کروڑ روپے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔


کس قدر بے حسی ہے کہ پاکستان میں افسر شاہی پہلے ہی کیا کم تھی کہ افسران کو مزید مراعات دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پہلے ان افسران کے پاس کیا گاڑیاں نہیں ہوں گی، کیا یہ پیدل دفاتر کو آتے جاتے ہیں؟ پہلے بھی یقیناً ان کے پاس گاڑیاں ہوں گی لیکن وہ گاڑیاں تھوڑی پرانی ہوگئی ہوں گی یا ان گاڑیوں میں انہیں مزہ نہیں آتا ہوگا تو ان کےلیے نئی گاڑیاں لینے کی منظوری دے دی گئی۔


پاکستان میں افسر شاہی تو ابتدا سے ہی ہے اور ملک کو حقیقت میں افسر ہی چلاتے ہیں، جسے بیوروکریسی کہا جاتا ہے۔ یہی بیوروکریسی ملک کو چلاتی ہے، سیاستدان تو آتے جاتے رہتے ہیں، پانچ سال کےلیے آئے، اپنا وقت پورا کیا اور چلے گئے۔ لیکن افسر تو 60 سال کی عمر تک اپنے عہدوں پر برقرار رہتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے ان کی ترقیاں ہوتی جاتی ہے اور اتنے ہی زیادہ ان کے قدم جمتے رہتے ہیں۔ اس لیے ملک تو حقیقت میں وہی چلاتے ہیں۔ سیاست دانوں کو کیا معلوم ہے۔ افسران جو کہتے ہیں وہ اسی طرح کردیتے ہیں لیکن سیاستدان افسروں کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتے ہیں، جس کےلیے انہیں نوازتے بھی رہتے ہیں۔


ہمارے ملک میں افسروں کو بہت زیادہ مراعات دی جاتی ہیں، انہیں مفت بجلی، مفت گاڑیاں اور مفت پٹرول دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی افسروں کو ملازمین دیے جاتے ہیں، کئی افسروں کو سیکیورٹی گارڈز اور بنگلے بھی ملتے ہیں۔ پھر ان بنگلوں کی حفاظت کےلیے سیکیورٹی گارڈ اور ان کے باغیچوں میں کام کرنے کےلیے مالی اور کچن میں کام کرنے کےلیے خانساماں اور کئی طرح کے ملازمین دیے جاتے ہیں، جو صرف اور صرف ملکی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ہماری حکومتیں افسروں کو یہ مراعات دیتی ہیں اور انہیں اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتی ہیں، کیونکہ یہ پیسہ ہمارے حکمرانوں کی جیبوں سے نہیں آتا، یہ عوام کا پیسہ ہے، اس لیے مفت کا مال سمجھ کر خوب لوٹا جارہا ہے۔


ادھر ہمارے سیاستدان روتے ہیں کہ ملکی خزانہ خالی ہے، آئی ایم ایف نہیں مان رہا اور دوسری طرف ایسی عیاشیاں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم آئی ایم ایف سے قرض نہ لیں تو ہمارے لیے ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہوجاتا ہے، ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف ملکی خزانے کو کتنی بے رحمی کے ساتھ ضائع بھی کیا جارہا ہے۔ عوام کو صبر اور کفایت شعاری کی تلقین کی جاتی ہے اور خود ان کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں بلکہ دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں۔


افسروں کو اتنی زیادہ مراعات دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ ان کو ایک تو تنخواہیں بھی لاکھوں میں دی جاتی ہیں، اس کے باوجود انہیں مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گاڑیاں اور ملازمین دیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ایک عام آدمی جو 20، 25 یا 30 ہزار روپیہ تنخواہ لے رہا ہے، وہ اپنی جیب سے بجلی کے بل بھی ادا کرتا ہے، پٹرول بھی خریدتا ہے، گاڑیوں کے کرائے بھی خود سے لگاتا ہے، سب کچھ اپنی جیب سے کرتا ہے تو لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے اپنی جیب سے کیوں نہیں کرسکتے؟ انہیں تو گاڑی تک نہیں ملنی چاہئیں۔ جتنی ان کی تنخواہیں ہیں یہ تو اپنی تنخواہ سے بھی گاڑی خرید سکتے ہیں۔ بڑی گاڑیاں نہ خریدیں جتنی ان کی تنخواہیں ہیں، ان کے مطابق اپنے لیے گاڑیاں لے لیں۔


اگر عیاشیاں کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو چھوڑیں ملازمت، کاروبار کریں اور اس پر عیاشیاں کریں۔ جب عوام کےلیے کام کر رہے ہیں تو پھر عوام کا خیال بھی کریں۔ عوام کے کام تو انہوں نے کرنے نہیں ہوتے، صرف عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرنی ہوتی ہیں، یہی ہمارے ملک میں چل رہا ہے۔ یہ تمام حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے، چاہے وہ موجودہ حکومت ہو یا گزشتہ کوئی بھی حکومت ہو، سب نے اسی طرح افسروں کو عیاشیاں کروائیں، انہیں خوب مراعات دیں اور ملکی خزانے پر بوجھ ڈالا، جس کی وجہ سے ملک آج ان حالات تک پہنچ چکا ہے کہ قرض نہ لیں تو گزارا نہیں ہوتا۔


غریب عوام پس رہے ہیں، مر رہے ہیں، بھوکے ہیں۔ انہیں ریلیف دینے کے بجائے ہمارے حکمران ان پر مزید ٹیکس عائد کر رہے ہیں اور خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور ساتھ افسروں کو بھی عیاشیاں کروا رہے ہیں۔ عوام ٹیکس دے رہے ہیں اور افسر اور وزرا عیاشیاں کر رہے ہیں، جو کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی قابل برداشت نہیں سمجھا جاتا، چہ جائیکہ ایک غریب ملک میں، جس کی معیشت ہی قرضوں پر چل رہی ہو اس میں ایسا رویہ رکھا جارہا ہو۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔