دہشت گردوں سے مذاکرات سے انکار

ٹی ٹی پی کی سرپرستی ترک کردے تو تب ہی افغانستان عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرکے دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرسکتا ہے

ٹی ٹی پی کی سرپرستی ترک کردے تو تب ہی افغانستان عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرکے دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرسکتا ہے۔ فوٹو:فائل

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کے قتل عام میں ملوث افراد سے مذاکرات نہیں کریں گے، صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے، ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان کے نمایندہ خصوصی نے حال ہی میں افغانستان کا پہلا دورہ کیا اور افغان عبوری حکومت کی قیادت سے ملاقاتیں کی، بھارتی جارحانہ بیان بازی علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے، پاکستان اور امریکا کے درمیان کثیر الجہتی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کا کردار اور قربانیاں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے، امریکا، یورپی یونین اور دوسرے ملکوں نے بھی ان قربانیوں کو تسلیم کیا ہے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں کی جانیوالی دہشت گردی کی کارروائیاں افغانستان کی سر پرستی میں ہی کی جا رہی ہیں۔

پاکستان تو کئی بار ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکا ہے مگر مذاکرات کی کوئی بھی نشست کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائی جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی، جس کے پیچھے بھارت بھی ملوث ہو سکتا ہے جو شروع دن سے پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اور اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

پاکستان عالمی سطح کے ہر فورم پر افغانستان کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے۔ افغان عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کا دورہ افغانستان بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی، مگر افسوس افغانستان کی جانب سے پاکستان کی کوششوں کو سراہنے کے بجائے اس کی سرزمین پر دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے اس کے خلوص کا صلہ دیا گیا اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرپرستی کر کے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا عملی ثبوت دیا گیا۔

دوسری جانب پاکستان کے دشمن بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اس کی سازشوں کو تقویت پہنچائی گئی۔ اس کے باوجود پاکستان نے نیک نیتی کے ساتھ افغان امن عمل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں کیونکہ پرامن افغانستان پاکستان سمیت خطے کے لیے ناگزیر ہے۔

اس وقت افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے کئی دہشت گرد تنظیمیں فروغ پا رہی ہیں، جن پر قابو پانے میں افغان حکومت مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے پالیسی ساز اس آس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جب افغانستان میں افغان طالبان کی دوست حکومت قائم ہوگی تو پھر ٹی ٹی پی جو کہ '' را '' کی پیداوار ہے اور افغان طالبان کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں وہ خود بخود ختم ہوجائے گی۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کی تمام لیڈر شپ کو امریکی ڈرون حملوں میں مار دیا گیا جس میں مولانا نیک محمد، بیت اللہ محسود اور ملا فضل اللہ اور حکیم اللہ محسود بھی شامل ہیں، جب دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات معطل ہوئے تو اسی پاکستان نے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کی مدد کے لیے اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس طلب کیا اور افغانستان کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کا کام شروع کیا۔

اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان گزشتہ بیس سالوں میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور خانہ جنگی کے کڑے مراحل سے گزرا ہے جس میں پونے ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران جو ایک بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ کسی بھی گروہ یا تنظیم کو اس وقت تک کارروائی کی جرات نہیں ہوتی جب تک ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کے اندر اس کے لیے ہمدردی پیدا نہ ہو۔

یہ ہمدردی گروہی یا انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور ادارہ جاتی بھی جو سہولت کاری کی شکل میں ان کو دستیاب ہوتی ہے۔دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے اپنے بچے یورپ اور امریکا میں پڑھتے ہیں مگر وہ قبائلی علاقوں، سوات اور مالاکنڈ کے اسکولوں کو تباہ کرنے والوں کو '' اگر، مگر '' کے ساتھ جواز فراہم کرتے ہیں۔

ایک اور عنصر جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عام شہریوں کا رویہ ہے۔ ان دہشت گردوں کے ہمدردوں اور ہمنوا گروہوں اور افراد کے علاوہ کچھ لوگ خوف سے اور کچھ ہمدردی میں خاموش رہتے ہیں جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں ہم سبھی شامل ہیں جو کھل کر برائی کی مخالفت نہیں کرتے۔


دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کی جو سب سے بڑی وجہ اب تک سامنے آئی ہے وہ ریاستی اداروں اور حکومت کی غیر متوازن پالیسی ہے۔ حکومت ہمیشہ مصلحت کی وجہ سے ایک پالیسی اپنانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کبھی سختی اور کبھی نرمی برتی گئی۔

ہر بار فوجی آپریشن کے بعد دہشت گردوں کے ساتھ بار بار کیے جانے والے مذاکرات اور معاہدوں کی وجہ سے ہی ان گروہوں کو سنبھلنے کا موقع ملتا رہا۔ ہر بار کمر توڑنے کے ریاستی دعوؤں کے باوجود ان گروہوں کی کارروائیاں جاری رہیں۔

ریاست کسی دوسری ریاست سے تو مذاکرات کر سکتی ہے مگر اپنے ملک کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد سے مذاکرات کس قانون اور آئین کے تحت کیے جاتے ہیں؟ ریاستیں اپنے مجرموں سے مذاکرات اور معاہدے نہیں کرتیں بلکہ ان کو پکڑ کر قانون کے تحت سزا دلواتی ہیں تاکہ دوسرے شہریوں کو تحفظ حاصل ہو جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

جب تک ریاست اس یک نکاتی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوتی اپنی رٹ قائم نہیں کرسکے گی اور یہ بات ذہن میں ہمیشہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس کی رٹ قائم نہ ہو وہ ناکام ریاست کہلاتی ہے۔

اس ملک کا ہر علاقہ دہشت گردی سے متاثر ہوچکا ہے۔ خیبر پختون خوا کے بہت سے علاقے تو مسلسل اس عذاب کو جھیل رہے ہیں اور وہاں پر دہشت گردوں کی حکومتیں بھی قائم ہوتی رہتی ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے اس عفریت کا شکار ہونے کے باعث اس ملک کے عوام بھی اہم نتائج اخذ کرچکے ہیں۔

عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ اس تمام تر دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ریاست کے مختلف حصے ملوث ہیں اور ان کی پشت پناہی اور امداد کے بغیر یہ سب نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان، بھارت یا کسی دوسرے ملک میں سامراجی مفادات کے ٹکراؤ کا ملبہ بھی دہشت گردی کی صورت میں عوام پر ہی گرتا ہے۔

ماضی میں پاکستانی ریاست ان جنگجوؤں سے متعدد بار مذاکرات بھی کر چکی ہے۔ ایک بار پھر دہشت گرد پوری توانائیوں کے ساتھ موجود ہیں اور کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان دہشت گردوں کی مکمل معاونت کرنے والے اور ان کے لیے خام مال مہیا کرنے والے پورے ملک میں پھیلتے جا رہے ہیں۔

افغانستان کے اندر جو عدم استحکام ہے اس کی وجہ سے داعش جیسی تنظیمیں بھی وہاں اپنی جگہ بنا رہی ہیں مشرقِ وسطیٰ کے حالات کی وجہ سے داعش کے جو ارکان وہاں سے آرہے ہیں وہ افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں یہ سلسلہ اگر بڑھتا رہا تو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کے لیے خطر ناک ہوگا جو افغان تنظیمیں غیر ملکی افواج کے خلاف سرگرم عمل ہیں وہ افغانستان کے اندر سے ہی آپریٹ کررہی ہیں اور یہ کہنا محض الزام تراشی ہے کہ انھیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان اپنی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عہد پر سختی سے کار بند ہے اور افغان حکام کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے تعاون کا راستہ اختیار کریں اور اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ بھارت کے جال میں پھنس کر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے سے افغان حکام کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔

اب چونکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان اور وسط ایشیا کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے تو اس کے لیے افغانستان پر ہی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارتی سازشوں کو بھانپتے ہوئے اس سے کنارہ کرے۔

ٹی ٹی پی کی سرپرستی ترک کردے تو تب ہی افغانستان عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرکے دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرسکتا ہے۔

پاکستان کی افغان پالیسی پر نظرثانی کیے بغیر، صرف دہشت گردی کے خلاف ایک نئی مہم سے پاکستان کی دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مزید برآں پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کے بارے میں طویل نظریہ رکھنا ہوگا، کیونکہ اس کے برقرار رہنے کا امکان ہے۔ پاکستانی ردعمل سے قطع نظر، پاکستان میں دہشت گردی کے خطرے کے خاتمے یا بگاڑ کا انحصار افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر ہوگا۔
Load Next Story