قصہ نگران حکومت کا
مسلم لیگ ن کے رہنماء مسلسل کسی سیاسی رہنما کو عبوری وزیر اعظم بنانے پر زور دے رہے ہیں
پارلیمنٹ نے نگران حکومت کو با اختیار بنانے کا قانون منظور کر لیا۔ نگران حکومت کو اقتصادی معاہدوں اور ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں فیصلوں کا اختیار حاصل ہوگیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنماء مسلسل کسی سیاسی رہنما کو عبوری وزیر اعظم بنانے پر زور دے رہے ہیں مگر بعض حلقے کسی ٹیکنو کریٹ کی اس عہدے پر تقرری کے لیے رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔
عبوری حکومت کا با اختیار ہونا انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شبہات پیدا کر رہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات کی خبریں زورشور سے شایع ہوئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے عبوری وزیر اعظم کے نام پر مشاورت کی۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں نے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات پر اس بناء پر اعتراض کیا کہ ان رہنماؤں کی ملاقات میں پی ڈی ایم کے سربراہ کو نہ تو مدعو کیا گیا نہ اس اجلاس کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا۔ مسلم لیگی ذرایع یہ خبر دینے لگے کہ عبوری وزیر اعظم کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
اس مخلوط حکومت میں شریک جماعتوں کے رہنماؤں اور حکومت کے حامی صحافی اسحاق ڈار کی نگراں وزیر اعظم بنانے کی تجویز کے حق میں دلائل دینے لگے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمنٰ اور جمعیت علماء اسلام نے اس خبرکی تردید کی۔ شیری رحمنٰ نے اس خبر کو فیک نیوز کے زمرہ میں ڈالتے ہوئے کہا کہ عوام مہنگائی کے مسلسل اضافہ سے تنگ ہیں اور بعض عناصر اس طرح کی فیک نیوز پھیلا رہے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن اسحاق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خبر مکمل طور پر درست تھی لیکن یہ معاملہ جلد ذرایع ابلاغ پر آنے پر ملتوی ہوگیا۔ خبر میں یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کا نام اب بھی مکمل طور پر مسترد نہیں ہوا ہے۔ اسحاق ڈار کے نگراں وزیر اعظم بننے کے حق میں کچھ دلچسپ دلائل دیے گئے۔
ایک دلیل یہ دی گئی کہ تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو اسحاق ڈار پر اعتماد ہے۔ ایک اور دلیل یہ دی گئی کہ اسحاق ڈار نگراں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونگے تو آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں پر مکمل طور پر عمل ہوگا۔ معیشت کی بحالی کے لیے مسلح افواج کے تعاون سے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد شروع ہو رہا ہے۔ اس پروگرام پر سختی سے عملدرآمد یقینی ہوجائے گا، مگر یہ تمام دلائل شفاف اور منصفانہ انتخابات کی روح کو پامال کرتے ہیں۔
جمہوریت کے ارتقاء پر غور و فکر کرنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے شفاف اور منصفانہ انتخابات انتہائی ضروری ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں جب منتخب حکومتوں کی آئینی میعاد ختم ہوئی تو اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کیا گیا تاکہ نگراں وزیر اعظم کی نگرانی میں کام کرنے والی حکومت غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دے اور حکومت اور اس کے کارندے انتخابی عمل میں کسی بھی صورت کوئی کردار اد ا نہ کریں۔ 1973 کے تحت رخصت ہونے والی حکومت کی ذمے داری ہے کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔
دنیا کے مختلف ممالک کی عبوری حکومت کے تجزیہ کو ملک میں آزمانے پر فیصلہ ساز قوتوں میں اتفاق ہوا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت بے نظیر بھٹو کی قیادت میں 1988 میں بر سرِ اقتدار آئی۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا اور قائد حزب اختلاف غلام مصطفیٰ جتوئی کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔
جتوئی حکومت کا بنیادی مقصد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا احتساب کرنا تھا، یوں اس حکومت کا ایجنڈا شفاف انتخابات نہیں تھا۔ میاں نواز شریف نے پہلی حکومت 6 نومبر 1990 میں بنائی۔ صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے بلغ شیر مزاری کو عبوری وزیر اعظم بنایا تھا، مگر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا تھا۔
اس وقت بعض افراد کی مداخلت پر نواز شریف، غلام اسحاق خان کے ساتھ ایک سمجھوتے پر متفق ہوکر 18 جولائی 1993 کو مستعفی ہوئے اور ڈاکٹر معین قریشی کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا۔ ڈاکٹر معین قریشی نے 90 دن کے دوران معیشت کی بحالی کے لیے کچھ بنیادی اصلاحات کیں اور شفاف انتخابات منعقد ہوئے۔
بے نظیر بھٹو تیسری دفعہ وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے 1996 میں بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کر کے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور پیپلز پارٹی کے منحرف ملک معراج خالد کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ملک معراج خالد نگراں وزیر اعظم تو تھے مگر اختیارات کا منبع صدر فاروق لغاری تھے۔
اس عبوری حکومت کا بنیادی ایجنڈا پیپلز پارٹی کا احتساب کرنا تھا، جب سابق صدر پرویز مشرف نے 2008 میں 1973 کے آئین کے تحت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا، سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔ صدر پرویز مشرف کا واضح ایجنڈا تیسری دفعہ صدر منتخب ہونا تھا، یوں پھر ایک منصوبہ تیار ہوا، مگر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی اور پرویز مشرف اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔
ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام کے تناظر میں 2005 میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت انتہائی اہم ہے۔ اس میثاق میں جہاں دونوں جماعتوں کے ان رہنماؤں میں منتخب حکومتوں کے مینڈٹ کو تسلیم کرنے، انتخابی نتائج کو پولنگ اسٹیشن کے دروازوں پر آویزاں کرنے، امیدواروں کے کاؤنٹنگ ایجنٹ کو انتخابی نتائج فراہم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
وہاں اس میثاق کی دفعہ 31 کے تحت نگراں حکومت کے خدوخال بھی واضح کیے گئے۔ اس دفعہ کے تحت نگراں وزیر اعظم کا کسی ایسی جماعت سے تعلق نہیں ہوگا جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور نہ ہی نگراں وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار انتخابات میں حصہ لے رہے ہوں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے میثاق جمہوریت کی شقوں پر عملدرآمد کے لیے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف اتفاق رائے سے نگراں وزیر اعظم کا نام صدرکو تجویز کریں گے، اگر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ حتمی سمجھا جائے گا۔
جب 2013 میں وزیر اعظم پرویز اشرف اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان میں نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے نہ ہوا تو چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی تجویز پر بلوچستان کی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کھوسہ کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا ۔
گزشتہ سال جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہوئی تو عمران خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ عمران خان نے اس دوران اپنے اراکین سے استعفے وصول کیے، یہ استعفے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیج دیے گئے جنھوں نے کچھ عرصہ بعد یہ اس استعفے قبول کر لیے۔ اب تحریک انصاف کے اراکین نے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
اس دوران تحریک انصاف کے ایک منحرف راجہ ریاض قائد حزب اختلاف ہوئے۔ راجہ ریاض وہ قائد حزب اختلاف ہیں جنھوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا۔ آئین کے تحت راجہ ریاض اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان اتفاق رائے سے نگراں وزیر اعظم مقرر ہوگا۔ راجہ ریاض کی قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے تقرری سے فرینڈلی حزب اختلاف کا تصور سامنے آتا ہے، مگر راجہ ریاض نے بھی اسحاق ڈار کی تقرری پر اعتراض کر دیا ہے۔
میثاق جمہوریت کی شق 33 میں نگران حکومت کے بارے میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ جس غیر جانبدار کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا جائے گا تو اس کے قریبی رشتہ دار بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ حکمران اتحاد کو میثاق جمہوریت کا پاس کرنا چاہیے۔
عبوری حکومت کا با اختیار ہونا انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شبہات پیدا کر رہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات کی خبریں زورشور سے شایع ہوئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے عبوری وزیر اعظم کے نام پر مشاورت کی۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں نے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات پر اس بناء پر اعتراض کیا کہ ان رہنماؤں کی ملاقات میں پی ڈی ایم کے سربراہ کو نہ تو مدعو کیا گیا نہ اس اجلاس کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا۔ مسلم لیگی ذرایع یہ خبر دینے لگے کہ عبوری وزیر اعظم کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
اس مخلوط حکومت میں شریک جماعتوں کے رہنماؤں اور حکومت کے حامی صحافی اسحاق ڈار کی نگراں وزیر اعظم بنانے کی تجویز کے حق میں دلائل دینے لگے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمنٰ اور جمعیت علماء اسلام نے اس خبرکی تردید کی۔ شیری رحمنٰ نے اس خبر کو فیک نیوز کے زمرہ میں ڈالتے ہوئے کہا کہ عوام مہنگائی کے مسلسل اضافہ سے تنگ ہیں اور بعض عناصر اس طرح کی فیک نیوز پھیلا رہے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن اسحاق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خبر مکمل طور پر درست تھی لیکن یہ معاملہ جلد ذرایع ابلاغ پر آنے پر ملتوی ہوگیا۔ خبر میں یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کا نام اب بھی مکمل طور پر مسترد نہیں ہوا ہے۔ اسحاق ڈار کے نگراں وزیر اعظم بننے کے حق میں کچھ دلچسپ دلائل دیے گئے۔
ایک دلیل یہ دی گئی کہ تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو اسحاق ڈار پر اعتماد ہے۔ ایک اور دلیل یہ دی گئی کہ اسحاق ڈار نگراں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونگے تو آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں پر مکمل طور پر عمل ہوگا۔ معیشت کی بحالی کے لیے مسلح افواج کے تعاون سے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد شروع ہو رہا ہے۔ اس پروگرام پر سختی سے عملدرآمد یقینی ہوجائے گا، مگر یہ تمام دلائل شفاف اور منصفانہ انتخابات کی روح کو پامال کرتے ہیں۔
جمہوریت کے ارتقاء پر غور و فکر کرنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے شفاف اور منصفانہ انتخابات انتہائی ضروری ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں جب منتخب حکومتوں کی آئینی میعاد ختم ہوئی تو اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کیا گیا تاکہ نگراں وزیر اعظم کی نگرانی میں کام کرنے والی حکومت غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دے اور حکومت اور اس کے کارندے انتخابی عمل میں کسی بھی صورت کوئی کردار اد ا نہ کریں۔ 1973 کے تحت رخصت ہونے والی حکومت کی ذمے داری ہے کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔
دنیا کے مختلف ممالک کی عبوری حکومت کے تجزیہ کو ملک میں آزمانے پر فیصلہ ساز قوتوں میں اتفاق ہوا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت بے نظیر بھٹو کی قیادت میں 1988 میں بر سرِ اقتدار آئی۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا اور قائد حزب اختلاف غلام مصطفیٰ جتوئی کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔
جتوئی حکومت کا بنیادی مقصد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا احتساب کرنا تھا، یوں اس حکومت کا ایجنڈا شفاف انتخابات نہیں تھا۔ میاں نواز شریف نے پہلی حکومت 6 نومبر 1990 میں بنائی۔ صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے بلغ شیر مزاری کو عبوری وزیر اعظم بنایا تھا، مگر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا تھا۔
اس وقت بعض افراد کی مداخلت پر نواز شریف، غلام اسحاق خان کے ساتھ ایک سمجھوتے پر متفق ہوکر 18 جولائی 1993 کو مستعفی ہوئے اور ڈاکٹر معین قریشی کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا۔ ڈاکٹر معین قریشی نے 90 دن کے دوران معیشت کی بحالی کے لیے کچھ بنیادی اصلاحات کیں اور شفاف انتخابات منعقد ہوئے۔
بے نظیر بھٹو تیسری دفعہ وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے 1996 میں بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کر کے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور پیپلز پارٹی کے منحرف ملک معراج خالد کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ملک معراج خالد نگراں وزیر اعظم تو تھے مگر اختیارات کا منبع صدر فاروق لغاری تھے۔
اس عبوری حکومت کا بنیادی ایجنڈا پیپلز پارٹی کا احتساب کرنا تھا، جب سابق صدر پرویز مشرف نے 2008 میں 1973 کے آئین کے تحت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا، سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔ صدر پرویز مشرف کا واضح ایجنڈا تیسری دفعہ صدر منتخب ہونا تھا، یوں پھر ایک منصوبہ تیار ہوا، مگر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی اور پرویز مشرف اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔
ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام کے تناظر میں 2005 میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت انتہائی اہم ہے۔ اس میثاق میں جہاں دونوں جماعتوں کے ان رہنماؤں میں منتخب حکومتوں کے مینڈٹ کو تسلیم کرنے، انتخابی نتائج کو پولنگ اسٹیشن کے دروازوں پر آویزاں کرنے، امیدواروں کے کاؤنٹنگ ایجنٹ کو انتخابی نتائج فراہم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
وہاں اس میثاق کی دفعہ 31 کے تحت نگراں حکومت کے خدوخال بھی واضح کیے گئے۔ اس دفعہ کے تحت نگراں وزیر اعظم کا کسی ایسی جماعت سے تعلق نہیں ہوگا جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور نہ ہی نگراں وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار انتخابات میں حصہ لے رہے ہوں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے میثاق جمہوریت کی شقوں پر عملدرآمد کے لیے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف اتفاق رائے سے نگراں وزیر اعظم کا نام صدرکو تجویز کریں گے، اگر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ حتمی سمجھا جائے گا۔
جب 2013 میں وزیر اعظم پرویز اشرف اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان میں نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے نہ ہوا تو چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی تجویز پر بلوچستان کی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کھوسہ کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا ۔
گزشتہ سال جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہوئی تو عمران خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ عمران خان نے اس دوران اپنے اراکین سے استعفے وصول کیے، یہ استعفے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیج دیے گئے جنھوں نے کچھ عرصہ بعد یہ اس استعفے قبول کر لیے۔ اب تحریک انصاف کے اراکین نے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
اس دوران تحریک انصاف کے ایک منحرف راجہ ریاض قائد حزب اختلاف ہوئے۔ راجہ ریاض وہ قائد حزب اختلاف ہیں جنھوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا۔ آئین کے تحت راجہ ریاض اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان اتفاق رائے سے نگراں وزیر اعظم مقرر ہوگا۔ راجہ ریاض کی قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے تقرری سے فرینڈلی حزب اختلاف کا تصور سامنے آتا ہے، مگر راجہ ریاض نے بھی اسحاق ڈار کی تقرری پر اعتراض کر دیا ہے۔
میثاق جمہوریت کی شق 33 میں نگران حکومت کے بارے میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ جس غیر جانبدار کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا جائے گا تو اس کے قریبی رشتہ دار بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ حکمران اتحاد کو میثاق جمہوریت کا پاس کرنا چاہیے۔