گوگل اوپن اے آئی اور مائیکروسوفٹ نے محفوظ اے آئی پلیٹ فارم تجویز کردیا
’فرنٹیئرماڈل فورم‘ نامی تنظیم عام استعمال سے لے کر صنعتوں تک کے لیےاے آئی اخلاقیات، قواعد اور ضوابط طے کرے گی
مصنوعی ذہانت، زندگی کے ہرشعبے میں داخل ہوچکی ہے اور گویا ایک ایسا فرماںبردار جن ہے جو ہر کام بجالانے کی قوت رکھتا ہے۔ لیکن کے ان دیکھے اور منفی پہلوؤں کو بھی نظرمیں رکھنا ضروری ہے۔ اب مائیکروسوفٹ، گوگل، اپن اے آئی اور اینتھروپِک نامی بڑے اداروں نے اس کے لیے ایک مشترکہ تنظیم و فورم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
'فرنٹیئرماڈل فورم' نامی تنظیم عام استعمال سے لے کر صنعتوں تک کے لیےاے آئی اخلاقیات، قواعد اور ضوابط طے کرے گی۔ اس طرح ۔ حکومتی اور پالیسی ساز اداروں کو محفوظ، مفید اور مؤثرمصنوعی ذہانت میں مدد فراہم کرے گی۔ اس طرح عام افراد پر اس کا اطلاق ممکن ہوگا۔
اچھی بات یہ ہے کہ خود اے آئی ساز ادارے، آگے بڑھ کر رضاکارانہ خدمات فراہم کررہے ہیں۔ توقع ہے کہ اسی سال امریکہ اور یورپ میں صنعتوں کے لیے آئی اے کی قانون سازی پر باقاعدہ غورکیا جائے گا۔ اس کی روشنی میں ضابطہ سازی کی جائے گی۔
پھر ان اداروں کے ساتھ ساتھ ایمیزون اور میٹا نے بھی امریکی صدر کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ اپنی تمام اے آئی مصنوعات کو غیرجانبدارتھرڈ پارٹی سے ٹیسٹ کرانے کی پابند ہوں گی اور عوام کے لیے ان پر واضح طور پر اے آئی سے تیارشدہ کا واضح لیبل لگایا جائے گا۔
ایک مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فورم کو عوامی رسائی حاصل ہوگی کیونکہ جو بھی کمپنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے جدید ترین ماڈل بنائے گی وہ اسے دوسرے ماہرین کے سامنے رکھے گی۔ اسے ہر طرح سے محفوظ اور عوام دوست بنایا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اینتھروپِک کمپنی کے سی ای اوڈیریو ایموڈائی اور اس سےوابستہ مشہور سائنسداں یوشواع بیجنیو ، دونوں ہی نے آزاد اور غیرضوابط والی اے آئی کو خطرناک بلکہ تباہ کن قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اگلے دو تین برس میں اے آئی حیاتیاتی ہتھیار بناسکے گی جو شرپسندوں کے ہاتھ لگ سکتےہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے ماہرین اس سال اے آئی کے استعمال پر اپنی قانونی دستاویز مکمل کرلیں گے اور توقع ہے کہ جنریٹوو اے آئی پرمکمل پابندی بھی لگ سکتی ہے یا اس کا استعمال بہت محدود کیا جاسکتا ہے۔ اس کےعلاوہ ملکی سلامتی، تحفظ اور ملازمتوں پر اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
'فرنٹیئرماڈل فورم' نامی تنظیم عام استعمال سے لے کر صنعتوں تک کے لیےاے آئی اخلاقیات، قواعد اور ضوابط طے کرے گی۔ اس طرح ۔ حکومتی اور پالیسی ساز اداروں کو محفوظ، مفید اور مؤثرمصنوعی ذہانت میں مدد فراہم کرے گی۔ اس طرح عام افراد پر اس کا اطلاق ممکن ہوگا۔
اچھی بات یہ ہے کہ خود اے آئی ساز ادارے، آگے بڑھ کر رضاکارانہ خدمات فراہم کررہے ہیں۔ توقع ہے کہ اسی سال امریکہ اور یورپ میں صنعتوں کے لیے آئی اے کی قانون سازی پر باقاعدہ غورکیا جائے گا۔ اس کی روشنی میں ضابطہ سازی کی جائے گی۔
پھر ان اداروں کے ساتھ ساتھ ایمیزون اور میٹا نے بھی امریکی صدر کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ اپنی تمام اے آئی مصنوعات کو غیرجانبدارتھرڈ پارٹی سے ٹیسٹ کرانے کی پابند ہوں گی اور عوام کے لیے ان پر واضح طور پر اے آئی سے تیارشدہ کا واضح لیبل لگایا جائے گا۔
ایک مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فورم کو عوامی رسائی حاصل ہوگی کیونکہ جو بھی کمپنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے جدید ترین ماڈل بنائے گی وہ اسے دوسرے ماہرین کے سامنے رکھے گی۔ اسے ہر طرح سے محفوظ اور عوام دوست بنایا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اینتھروپِک کمپنی کے سی ای اوڈیریو ایموڈائی اور اس سےوابستہ مشہور سائنسداں یوشواع بیجنیو ، دونوں ہی نے آزاد اور غیرضوابط والی اے آئی کو خطرناک بلکہ تباہ کن قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اگلے دو تین برس میں اے آئی حیاتیاتی ہتھیار بناسکے گی جو شرپسندوں کے ہاتھ لگ سکتےہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے ماہرین اس سال اے آئی کے استعمال پر اپنی قانونی دستاویز مکمل کرلیں گے اور توقع ہے کہ جنریٹوو اے آئی پرمکمل پابندی بھی لگ سکتی ہے یا اس کا استعمال بہت محدود کیا جاسکتا ہے۔ اس کےعلاوہ ملکی سلامتی، تحفظ اور ملازمتوں پر اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔