صرف قانون کافی نہیں

اگر معاشر ے میں لوگ قانون کا احترام نہیں کر رہے تو لازمی بات ہے کہ قانون انھیں تحفظ فراہم نہیں کر رہا

gmohyuddin@express.com.pk

1960کی دہائی میں دو برس تک امریکا کے اٹارنی جنرل رہنے والے رابرٹ ایف کینیڈی (امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے چھوٹے بھائی) نے قانون کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا ''عدل و انصاف کی شان شوکت اور قانون کا دبدبا آئین اور عدالتوں کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ نہ ہی محکمہ قانون کے افسران اور وکلاء اسے جنم دیتے ہیں بلکہ درحقیقت اس کا باعث وہ عام مرد و خواتین ہوتے ہیں جن سے ہمارا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہی عوام خود قانون کے محافظ ہوتے ہیں کیونکہ قانون ان لوگوں کا محافظ ہوتا ہے۔''

مطلب اس کا یہ ہوا کہ اگر معاشر ے میں لوگ قانون کا احترام نہیں کر رہے تو لازمی بات ہے کہ قانون انھیں تحفظ فراہم نہیں کر رہا یا پھر اسی بات کو اُلٹ دیں کہ اگر قانون لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کر رہا تو لوگ قانون کے تحفظ کو یقینی بنانے کی فکر کرنے کے بجائے اپنے تحفظ کے دیگر ذرایع کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کو ترجیح دیں گے، خواہ وہ علاقے کا بدمعاش ہی کیوں نہ ہو۔

ہمارے ہاں بھی عوام کا قانون کے ساتھ رشتہ عمومی طور پر مخاصمت کا ہے موافقت کا نہیں، کیونکہ قوانین کے نفاذ میں مجاز اداروں اور اتھارٹی کی دلچسپی ذاتی اور طبقاتی مفادات کے تابع رہتی ہے لہٰذا جب Selected Justice (من چاہا انصاف) کا دور دورہ ہو تو اداروں سے اُمید لگانے کے بجائے بہترین حکمت عملی یہی ہو سکتی ہے کہ اس بالادست طبقے کی تابعداری کا دم بھرا جائے جو تھانہ کچہری سے لے کر عدل و انصاف کے نظام تک پر براہ راست اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ صورتحال کوئی اتفاقی بات نہیں ہوتی بلکہ ریاست کی اشرافیہ منصوبہ بندی کے تحت اسے رواج دیتی ہے۔ اشرافیہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ داد رسی کی اُمید اور سزا کا خوف براہ راست ریاستی اداروں کے بجائے خود ان کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔

یہ بات انھیں ہر گز گوارا نہیں ہوتی کہ عوام براہ راست ریاستی اداروں پر اعتماد کرنا شروع کر دیں۔ وہ عوام میں یہ یقین راسخ کرنا چاہتے ہیں کہ اداروں کے ان کے ساتھ رویے کا دار و مدار اس بالا دست طبقے کا مرہون منت ہے۔

اسی حوالے سے براہم لنکن کا ایک قول انتہائی تہہ دار مفہوم کا حامل ہے لنکن کا ماننا ہے ''ایک بُرے قانون کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ اس کو پوری قوت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔''یعنی جب تک لوگ کسی قانون کے نافذ العمل ہونے کی حالت کاخود سامنا کر کے' اسے بھوگ کر خود اس کے فائدے یا مُضرت رسانی کا پورا تجربہ نہ کر لیں اس کے موثر ہونے یا رد کر دیے جانے کا فیصلہ مبنی برحق نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ایک عمومی اصول ٹھہرا، لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔

یہاں پر ''عوامی نمایندے'' کسی ایک شخص کی سزا ختم کرانے، مُٹھی بھر سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کے عمومی قوانین تو ایک طرف رہ گئے آئین تک کو بدل دینے پر تیار رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں قانون سازی، قوانین کے اطلاق اور آئین کے بارے میں اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کا تباہ کُن نتیجہ ہی برآمد ہوا ہے خواہ ہم لوگوں کو یہ یقین دلاتے رہیں کہ پاکستان مملکت خدا داد ہے۔

اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سیاسی اکابرین کسی قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کرواتے ہی اس کا اتنا کریڈٹ چاہتے ہیں' جیسے لوگوں نے اس قانون سے برآمد ہونے والی تمام کی تمام خیر کو اپنی جھولیوں میں بھر لیا ہے حالانکہ اس قانون نے ہمارے نظام عدل اور انتظامی مشنری کے ذریعے ہی روبہ عمل آنا ہوتا ہے جو ہمیشہ سے مخصوص طاقت کے مراکز کو تشکیل دینے والے طبقات کی خدمت پر مامور ہیں۔


ہمارے پڑھے لکھے طبقے میں عموماً نظام عدل پر بات کرتے ہوئے سب سے زیادہ مخالفانہ تنقید عدالتوں میں مقدمات کے لامتناہی التوا پر کی جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہماری عدالتوں میں لوگ پیشیاں بُھگتتے اگلے جہاں پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں جہاں بہت سے وکیلوں کو مقدمہ جلد از جلد جیتنے یا ریلیف دلانے کے لیے فیس ادا کی جاتی ہے بالکل اسی طرح ہزاروں وکیلوں کو محض اس مقصد کے لیے فیس ادا کی جاتی ہے کہ وہ مقدمے کی کارروائی چلنے نہ دیں یعنی بڑی تعداد میں وکلاء اپنی ساری محنت مقدمے کا فیصلہ نہ ہونے دینے پر صرف کرتے ہیں۔ عوام کو یہ اذیت اس لیے بھگتنا پڑتی ہے کہ اس لامتناہی التوا کی ضرورت ہمارے حکمران طبقے کے افراد کو بھی پڑتی ہے۔

سو اس منفی سرگرمی کو بھی حصول انصاف کی تگ و دو کا ایک جائز حصہ تصورکر لیا گیا ہے اور اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں کہ مقدمے کا وہ فریق جس کا موقف مبنی برحق ہے' ہمارا نظام عدل اس کے ساتھ کس قدر سفاکانہ سلوک کر رہا ہے۔

تصور کریں جہاں موکلین اور ان کے وکیلوںکی ایک بڑی تعداد مقدموں کو زیرالتوا رکھنے پر کمربستہ ہو اور نظام عدل اس رویے کو جاری رکھنے کی گنجائش بھی فراہم کرتا ہو وہاں بلا امتیاز عدل کی جلد فراہمی کے مقصد کا حصول کس قدر دشوار ہو سکتا ہے۔

قانون کا احترام کرنے والے معاشروں کے بالکل برعکس ہمارے ہاں بااختیار اور طاقتور لوگ کسی سے زیادتی کے بعد سب سے آسانی کے ساتھ جو فقرہ بولتے ہیں وہ ہے ''جاؤ مجھ پر کیس کر دو'' ہمارے معاشرے میں عمومی تاثر یہ بن چکا ہے کہ جس میں ذرا دم ہے وہ عدالت کا سامنا کرنے کو سب سے آسان راستہ گردانتا ہے حالانکہ زندہ معاشروں میں عدالت میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہونے کا تصور ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہوتا ہے۔

اس ایک مثال سے یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ قوانین کی تحریری شکل میں موجودگی سے معاشرے کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اصل چیز اس پر عملدرآمد کو اس کی اصل روح کے مطابق یقینی بنانا ہے۔ اور اسے یقینی بنانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے فالو اپ Follow up۔ ادارہ جاتی سطح پر احکامات سے پہلو تہی' قوانین پر عملدرآمد میں بدنیتی' پیش رفت میں غیرمعمولی سست روی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ فالو اپ کے کلچر کی عدم موجودگی ہے۔

عمومی صورتحال یہی ہے کہ کسی معاملے میں احکامات پر عملدرآمد کی کیفیت کا پیچھا ہی نہیں کیا جاتا۔ اگر ہر سطح پر یہ کلچر فروغ پا جائے کہ قوانین اور احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے اس وقت تک جان نہیں چھوٹے گی جب تک مجاز اتھارٹی مطمئن نہ ہو جائے تو پھر ہر معاملے میں فوری بہتری کا عمل شروع ہو جائے گا۔

ممتاز برطانوی فلسفی' شاعر' دانشور اور اپنی مدد آپ تحریک' کا بانی جیمز ایلن کہتا ہے، ''کاشت کاری کا فطری قانون یہ ہے کہ آپ جو بوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ کاٹتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ ایک اچھا ایکٹ (قانون) بوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں آپ کو ایک عمومی عادت حاصل ہو جاتی ہے۔

اس عادت کو بو دیں تو اس سے ایک کردار پیدا ہو جاتا ہے اور جب کردار کو بویا جائے تو اس کے نتیجے میں آپ کی تقدیر آپ کے تابع ہو جاتی ہے۔'' لیکن جیمز ایلن کی یہ بات انھی معاشروں میں برگ و بار لائے گی جہاں قانون سازی اور اس کے نفاذ میں مکمل غیر جانبداری اور Conflict of interest کے خاتمے کو یقینی بنا دیا جائے۔
Load Next Story