انتخابات 2023 اور سیاسی مہم جوئی کا کھیل
انتخابات کی اہمیت کو شفافیت سمیت سب فریقین کے لیے ایک جیسا سیاسی و انتخابی سازگار ماحول درکار ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور بالخصوص انتخابی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں سب کچھ نظر آتا ہے لیکن عوامی مینڈیٹ پر بننے والی حکومت کا مقدمہ کافی کمزور نظر آتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں انتخابات کے نتائج پر ہمیشہ سے بداعتمادی کا کھیل غالب رہا ہے اور ان انتخابات کا عمل نئے تنازعات یا ٹکراؤ کے ماحول کو پیدا کرتا ہے ۔
اس کا ایک نتیجہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے تو دوسری طرف ہم اداروں کی مدد سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرکے انتخابات کے نام پر اپنا سیاسی رنگ سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی طرح ہمارا ایک عمومی سیاسی کلچر بھی ہے ۔
جو جماعت انتخابات جیت جاتی ہے اس کے لیے انتخابات کا عمل شفاف ہوتا ہے جب کہ ہارنے والی جماعت اس کو دھاندلی کی بنیاد پر دیکھتی ہے ۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی روایت بھی ہمارے سیاسی و جمہوری کلچر کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس وقت 2023 کے انتخابات کی کہانی سیاسی منظر نامہ پر غالب ہے ۔ انتخابات کے بروقت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ۔ ایک طبقہ بروقت انتخابات کے ساتھ کھڑا ہے تو دوسرے طبقہ کے بقول انتخابات اس برس ممکن نہیں ہوسکیں گے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نگران حکومت کو آگے جاکر عبوری حکومت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
انتخابات کے بارے میں یہ ابہامی کیفیت پورے سیاسی منظر نامہ میں نئی سیاسی پیچیدگیوں کو بھی جنم دے رہی ہے۔خود پی ٹی آئی کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ آنے والے انتخابات میں اس جماعت کا کیا کردار ہوگا، کیا ان کو انتخابات اور انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے فری ہینڈ یا لیول پلینگ فیلڈ دیا جائے گا اور کیا پی ٹی آئی کے سربراہ کو انتخابی عمل سے پہلے نااہل ، نظربندی یا گرفتاری کی جائے گی اور اسی طرح کیا ان کے سیاسی امیدواروں کو انتخابات کے عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی ؟کیونکہ یہ تاثر سیاسی پنڈتوں میں عام ہے کہ پہلے پی ٹی آئی کا سیاسی بندوبست کیا جائے گا اور پھر عام انتخابات کا راستہ اختیار کیاجائے گا۔
اسی طرح نگران حکومت کی تشکیل اور بالخصوص نگران وزیر اعظم پر اتفاق رائے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہوگا یا اس میں حتمی اور بڑا فیصلہ طاقت کے مراکز ہی طے کریں گے ۔اسی طرح یہ فیصلہ کہ کیا دونوں صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں یہ ہی نگران حکومتیں آگے چلیں گی یا ان میں تبدیلی کی جائے گی۔
پنجاب میں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی سربراہی میں بننے والی '' استحکام پاکستان پارٹی ''اور اسی طرح خیبر پختونخواہ میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان کی سربراہی میں بننے والی نئی جماعت'' پی ٹی آئی پارلیمنٹرین '' اپنے سیاسی مقاصد یا طے شد ہ اہداف میں کامیاب ہوسکے گی؟
جن لوگوں نے بھی ان دو جماعتوں کی تشکیل میں کسی کی حمایت یا مخالفت میں سیاسی مدد کو فراہم کیا ہے وہ اس کھیل سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔کیا محض ان دو جماعتوں کو محض انتخابات سے قبل فوری طور پر کوئی بڑا سیاسی سطح کا ریلیف مل سکے گا یا اس نئی جماعت کو مستحکم ہونے کے لیے ابھی اور چند ماہ درکار ہیں ۔اگر ایسا ہے تو پھر انتخابات کیسے اپنے وقت پر ہوسکیں گے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
2023کے انتخابات کی بڑی سیاسی جنگ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ہی لڑی جانی ہے۔ یہ ہی سیاسی جنگ بنیادی طور پر قومی سیاست اور نئے انتخابات اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اقتدار کے کھیل کی تصویر پیش کرے گی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت جو بھی سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس کا مرکز بھی ان ہی دو صوبوں کی سیاست ہے ۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آج بھی پی ٹی آئی کے سیاسی کردار اور سیاسی برتری کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگر انتخابات کو پی ٹی آئی کے بغیر سجایا جاتا ہے تو انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی ۔
یہ جو ہماری سیاسی روایت رہی ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی ہم انتخابات کے نتائج کا تعین کرکے انتخابی عمل کا کھیل کھیلتے ہیں تو اس سے مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ۔ آج کے حکمران اتحاد کا بنیادی نقطہ ہی 2018کے عام انتخابات کے حوالے سے یہ ہی تھا کہ یہ کھیل ایک اسکرپٹ کے تحت لکھا گیا اور پی ٹی آئی کو اسی اسکرپٹ کے تحت اقتدار دیا گیا تھا ۔ لیکن آج بھی صورتحال مختلف نہیں ۔
سیاسی مباحث میں جاری بعض نکات کافی اہمیت رکھتے ہیں اور بڑے بڑے تجزیہ نگار ان ہی باتوں کو بنیاد بنا کر اپنا تجزیہ پیش کررہے ہیں ان میں مقبولیت کے مقابلے میں قبولیت، انتخابات سے پہلے کسی کا سیاسی بندوبست کرنا، سیاسی بندوبست کی عدم موجودگی میں انتخابات کو بروقت کروانے سے گریز کی پالیسی کارفرما ہے۔
بدقسمتی سے یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہورہا ہے جب ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ اب ہمیں انتخابی عمل میں شفافیت اور طاقت کے مراکز کی عدم مداخلت کو بنیاد بنانا ہے ۔لیکن نہ تو ہمیں انتخابات سے قبل شفافیت کا عمل دیکھنے کو مل رہا ہے اور نہ ہی عدم مداخلت کا عمل نظر آتا ہے ۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ جملہ اہمیت رکھتا ہے کہ ان کے بقول اب عام انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ مشق کوئی نتیجہ نہیں دے سکے گی۔
یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ اگر ہم نے واقعی انتخابات کے نام پر ماضی کے کھیل کو ہی جاری رکھنا ہے اور مصنوعی عمل سے سیاسی نظام کی بساط بچھانی ہے تو اس سے سیاست ، جمہوریت ، قانون اور آئین کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوگا اور ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دوبارہ لوٹ جائیں گے ۔
پاکستان کو نہ صرف بروقت انتخابات درکار ہیں بلکہ انتخابات کی اہمیت کو شفافیت سمیت سب فریقین کے لیے ایک جیسا سیاسی و انتخابی سازگار ماحول درکار ہے ۔ انتخابات کو بروقت نہ کرنا اور انتخابات میں تاخیر ی حربے اختیار کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ انتخابات کو ہی بنیاد بنا کر ہم نے اپنے لیے سیاسی اور معاشی استحکام کا راستہ تلاش کرنا ہے تواس کی کنجی شفافیت پر مبنی انتخابات اور اس کے نتیجہ میں بننے والی حکومت ہی ہوسکتی ہے ۔
اگر ہم نے انتخابات کے نام پر نئے بحرانوں میں ہی جانا ہے تو پھر اس مشق سے کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ہمیں ایک مضبوط سیاسی ، جمہوری سمیت معاشی نظام درکار ہے اور اس کا نقطہ عوامی مینڈیٹ پر مبنی حکمرانی کا نظام ہی ہوگا۔نگران حکومت اور نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں تبدیلی یا اضافہ اور اہم مالیاتی فیصلوں کا اختیار کیا خود آئین سے انحراف نہیں اور انتخابات سے گریز کا راستہ نہیں ۔یہ عمل کسی بھی طور پر سیاسی قوتوں کی جیت نہیںہوگی بلکہ یہ عمل ان کو سیاسی طور پر پسپائی کی طرف دھکیلے گا۔
اس کا ایک نتیجہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے تو دوسری طرف ہم اداروں کی مدد سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرکے انتخابات کے نام پر اپنا سیاسی رنگ سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی طرح ہمارا ایک عمومی سیاسی کلچر بھی ہے ۔
جو جماعت انتخابات جیت جاتی ہے اس کے لیے انتخابات کا عمل شفاف ہوتا ہے جب کہ ہارنے والی جماعت اس کو دھاندلی کی بنیاد پر دیکھتی ہے ۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی روایت بھی ہمارے سیاسی و جمہوری کلچر کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس وقت 2023 کے انتخابات کی کہانی سیاسی منظر نامہ پر غالب ہے ۔ انتخابات کے بروقت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ۔ ایک طبقہ بروقت انتخابات کے ساتھ کھڑا ہے تو دوسرے طبقہ کے بقول انتخابات اس برس ممکن نہیں ہوسکیں گے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نگران حکومت کو آگے جاکر عبوری حکومت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
انتخابات کے بارے میں یہ ابہامی کیفیت پورے سیاسی منظر نامہ میں نئی سیاسی پیچیدگیوں کو بھی جنم دے رہی ہے۔خود پی ٹی آئی کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ آنے والے انتخابات میں اس جماعت کا کیا کردار ہوگا، کیا ان کو انتخابات اور انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے فری ہینڈ یا لیول پلینگ فیلڈ دیا جائے گا اور کیا پی ٹی آئی کے سربراہ کو انتخابی عمل سے پہلے نااہل ، نظربندی یا گرفتاری کی جائے گی اور اسی طرح کیا ان کے سیاسی امیدواروں کو انتخابات کے عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی ؟کیونکہ یہ تاثر سیاسی پنڈتوں میں عام ہے کہ پہلے پی ٹی آئی کا سیاسی بندوبست کیا جائے گا اور پھر عام انتخابات کا راستہ اختیار کیاجائے گا۔
اسی طرح نگران حکومت کی تشکیل اور بالخصوص نگران وزیر اعظم پر اتفاق رائے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہوگا یا اس میں حتمی اور بڑا فیصلہ طاقت کے مراکز ہی طے کریں گے ۔اسی طرح یہ فیصلہ کہ کیا دونوں صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں یہ ہی نگران حکومتیں آگے چلیں گی یا ان میں تبدیلی کی جائے گی۔
پنجاب میں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی سربراہی میں بننے والی '' استحکام پاکستان پارٹی ''اور اسی طرح خیبر پختونخواہ میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان کی سربراہی میں بننے والی نئی جماعت'' پی ٹی آئی پارلیمنٹرین '' اپنے سیاسی مقاصد یا طے شد ہ اہداف میں کامیاب ہوسکے گی؟
جن لوگوں نے بھی ان دو جماعتوں کی تشکیل میں کسی کی حمایت یا مخالفت میں سیاسی مدد کو فراہم کیا ہے وہ اس کھیل سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔کیا محض ان دو جماعتوں کو محض انتخابات سے قبل فوری طور پر کوئی بڑا سیاسی سطح کا ریلیف مل سکے گا یا اس نئی جماعت کو مستحکم ہونے کے لیے ابھی اور چند ماہ درکار ہیں ۔اگر ایسا ہے تو پھر انتخابات کیسے اپنے وقت پر ہوسکیں گے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
2023کے انتخابات کی بڑی سیاسی جنگ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ہی لڑی جانی ہے۔ یہ ہی سیاسی جنگ بنیادی طور پر قومی سیاست اور نئے انتخابات اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اقتدار کے کھیل کی تصویر پیش کرے گی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت جو بھی سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس کا مرکز بھی ان ہی دو صوبوں کی سیاست ہے ۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آج بھی پی ٹی آئی کے سیاسی کردار اور سیاسی برتری کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگر انتخابات کو پی ٹی آئی کے بغیر سجایا جاتا ہے تو انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی ۔
یہ جو ہماری سیاسی روایت رہی ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی ہم انتخابات کے نتائج کا تعین کرکے انتخابی عمل کا کھیل کھیلتے ہیں تو اس سے مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ۔ آج کے حکمران اتحاد کا بنیادی نقطہ ہی 2018کے عام انتخابات کے حوالے سے یہ ہی تھا کہ یہ کھیل ایک اسکرپٹ کے تحت لکھا گیا اور پی ٹی آئی کو اسی اسکرپٹ کے تحت اقتدار دیا گیا تھا ۔ لیکن آج بھی صورتحال مختلف نہیں ۔
سیاسی مباحث میں جاری بعض نکات کافی اہمیت رکھتے ہیں اور بڑے بڑے تجزیہ نگار ان ہی باتوں کو بنیاد بنا کر اپنا تجزیہ پیش کررہے ہیں ان میں مقبولیت کے مقابلے میں قبولیت، انتخابات سے پہلے کسی کا سیاسی بندوبست کرنا، سیاسی بندوبست کی عدم موجودگی میں انتخابات کو بروقت کروانے سے گریز کی پالیسی کارفرما ہے۔
بدقسمتی سے یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہورہا ہے جب ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ اب ہمیں انتخابی عمل میں شفافیت اور طاقت کے مراکز کی عدم مداخلت کو بنیاد بنانا ہے ۔لیکن نہ تو ہمیں انتخابات سے قبل شفافیت کا عمل دیکھنے کو مل رہا ہے اور نہ ہی عدم مداخلت کا عمل نظر آتا ہے ۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ جملہ اہمیت رکھتا ہے کہ ان کے بقول اب عام انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ مشق کوئی نتیجہ نہیں دے سکے گی۔
یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ اگر ہم نے واقعی انتخابات کے نام پر ماضی کے کھیل کو ہی جاری رکھنا ہے اور مصنوعی عمل سے سیاسی نظام کی بساط بچھانی ہے تو اس سے سیاست ، جمہوریت ، قانون اور آئین کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوگا اور ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دوبارہ لوٹ جائیں گے ۔
پاکستان کو نہ صرف بروقت انتخابات درکار ہیں بلکہ انتخابات کی اہمیت کو شفافیت سمیت سب فریقین کے لیے ایک جیسا سیاسی و انتخابی سازگار ماحول درکار ہے ۔ انتخابات کو بروقت نہ کرنا اور انتخابات میں تاخیر ی حربے اختیار کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ انتخابات کو ہی بنیاد بنا کر ہم نے اپنے لیے سیاسی اور معاشی استحکام کا راستہ تلاش کرنا ہے تواس کی کنجی شفافیت پر مبنی انتخابات اور اس کے نتیجہ میں بننے والی حکومت ہی ہوسکتی ہے ۔
اگر ہم نے انتخابات کے نام پر نئے بحرانوں میں ہی جانا ہے تو پھر اس مشق سے کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ہمیں ایک مضبوط سیاسی ، جمہوری سمیت معاشی نظام درکار ہے اور اس کا نقطہ عوامی مینڈیٹ پر مبنی حکمرانی کا نظام ہی ہوگا۔نگران حکومت اور نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں تبدیلی یا اضافہ اور اہم مالیاتی فیصلوں کا اختیار کیا خود آئین سے انحراف نہیں اور انتخابات سے گریز کا راستہ نہیں ۔یہ عمل کسی بھی طور پر سیاسی قوتوں کی جیت نہیںہوگی بلکہ یہ عمل ان کو سیاسی طور پر پسپائی کی طرف دھکیلے گا۔