پیکر صبر و وفا شہید اوّل کربلا حضرت علی اکبرؓ

حضرت علی اکبرؓ اس قدر خوب صورت، شیریں زباں اور پُرکشش تھے کہ پورے حجاز میں ان کے جمال کا چرچا تھا

حضرت علی اکبرؓ اس قدر خوب صورت، شیریں زباں اور پُرکشش تھے کہ پورے حجاز میں ان کے جمال کا چرچا تھا۔ فوٹو : فائل

شہید کربلا شبیہہ مصطفیؐ حضرت علی اکبر ابن امام حسینؓ نے 11شعبان المعظم 43ھ کے سعید اور مبارک روز مدینۃ النبیؐ میں صفحۂ ارضی پر قدم رکھا۔

سیّد الشہدا حضرت امام حسینؓ اپنے جد رسول کریم خیر البشر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی یاد میں محزون اور مغموم رہا کرتے تھے، اسی سبب اﷲ نے امام حسینؓ کو حضرت علی اکبرؓ جیسا فرزند عطا کیا جو ہم شکل پیمبر اسلام تھے اسی لیے شہزادہ علی اکبرؓ شبیہہ پیغمبرؐ اور ہم شکل مصطفیؐ کہلاتے ہیں۔

حضرت علی اکبرؓ اس قدر خوب صورت، شیریں زباں اور پُرکشش تھے کہ پورے حجاز میں ان کے جمال کا چرچا تھا۔

حضرت علی اکبرؓ کا حسن اخلاق، چال ڈھال سبھی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ سے مشابہ تھا۔ اس بنا پر مدینہ کے باسی حضرت علی اکبرؓ کو دیکھ کر نبی کریم ﷺ کا گمان کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں مرقوم ہے کہ جب بھی اہل بیتؓ پیغمبر اسلام ﷺ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبرؓ کا دیدار کیا کرتے تھے۔

حضرت علی اکبرؓ نے شجاعت اور بہادری اپنے دادا امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ سے وراثت میں حاصل کی تھی۔ آپ کی پرورش فرزندان رسول حسنین شریفین کے دامن شفقت میں ہوئی۔ سپاہ گری حضرت عباس علم دارؓ جیسے اشجع عرب کے سایے میں سیکھی۔ کمالات اور خوبیوں کا ایسا مرقع بنے کہ دشمن بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ جوانی میں بھی آپؓ مروج دین و شریعت تھے۔

حضرت علی اکبرؓ کی مہمان نوازی مشہور تھی۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ جس گھر میں آگ روشن دیکھتے اس کے یہاں مہمان ہوتے تھے۔ جناب علی اکبرؓ بھی ایک بلند مقام پر آگ روشن کرتے تھے تاکہ فقراء و مساکین آئیں اور آپ کے مہمان ہوں۔ شہزادہ علی اکبرؓ نے مدینہ میں غریبوں اور مسکینوں کے لیے ایک بہت بڑا مہمان خانہ بنا رکھا تھا جس میں روز و شب کھانے کھلانے کا انتظام کیا کرتے تھے اور تمام لوگ آپؓ کے دستر خوان سے استفادہ کیا کرتے تھے۔

شہدائے کربلا میں حضرت علی اکبر کا نام آفتاب کی صورت جگمگا رہا ہے۔ حضرت علی اکبرؓ میدان کربلا میں بنی ہاشمؓ کے پہلے شہید تھے۔ اس فخر یوسفؑ کو شہادت سے کس قدر پیار تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب فرزند رسول ؐ امام حسینؓ مکہ سے کربلا کے سفر شہادت پر گام زن تھے مقام زبالہ پر امام حسینؓ کی گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ : ''انا ﷲ و انا الیہ راجعون'' جاری تھا۔

سعادت مند فرزند جناب علی اکبرؓ نے اس کا سبب پوچھا تو امام عالی مقامؓ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: ''یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے،'' سید الشہداؓ کی یہ بات سن کر حضرت علی اکبرؓ نے پریشان ہونے کے بہ جائے سوال کیا: بابا! کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ امام حسینؓ نے فرمایا: ''کیوں نہیں بیٹا!'' جس پر شہزادہ علی اکبرؓ نے جو جواب دیا وہ خاندان رسالتؐ کی سچائی اور عظمت کا مظہر تھا۔

شہزادہ علی اکبرؓ نے فرمایا: ''جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔'' امامؓ نے یہ جواب سن کر علی اکبرؓ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: ''خداوند کریم باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کو بہترین اجر عطا فرمائے۔'' حضرت علی اکبرؓ کے جواب نے بتا دیا کہ وہ علی المرتضیؓ کے حقیقی جانشین ہیں جن کا فرمان تاریخ کے ماتھے پر لکھا ہے: ''موت ہم پر آپڑے یا ہم موت پر جاپڑیں ہمیں موت سے اتنی محبت ہے جتنی بچے کو ماں کے دودھ سے نہیں ہوتی۔''

امام حسینؓ کو جب بھی اپنے نانا ﷺ کی آواز سننے کا شوق ہوتا آ پ جناب علی اکبرؓ سے کہتے: ''بیٹا! اذان و اقامت کہو۔'' اور پھر اپنے نانا کے انداز میں عبادات و مناجات میں مشغول ہو جاتے اسی وجہ سے 10 محرم الحرام کی صبح کو بھی امام حسینؓ نے جناب علی اکبرؓ سے اذان دلوائی تا کہ لہجۂ رسول ﷺ سن کر شاید اس شقی القلب لشکر یزید کو ندامت کا احساس ہو لیکن دنیا کے طلب گاروں پر کو ئی اثر نہ ہوا۔


میدان کربلا میں حضرت علی اکبرؓ بنی ہاشم کے جوانوں میں سب سے پہلے آکر امام حسینؓ سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے بعد جب علی اکبرؓ میدان کی طرف جا رہے تھے تو اس موقع پر امام حسینؓ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ''اے میرے اﷲ! میں تجھے اس قوم پر گواہ بنا رہا ہوں۔

ان کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جا رہا ہے جو تمام انسانوں میں ظاہری شکل و شمائل اور باطنی اخلاقی صفات میں تیرے رسول محمد مصطفی ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ ہم جب بھی تیرے پیغمبرؐ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کیا کرتے تھے۔''

پہلے حملے میں حضرت علی اکبر کبھی دائیں، بائیں اور کبھی قلب لشکر پر حملے کرتے تھے۔ کوئی گروہ بھی ان کے حملے کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ کہتے ہیں اس حملے میں 120 افراد کو زمیں پر گرایا لیکن پیاس کی وجہ سے مزید حملے کی سکت نہ رہی تو نئی توانائی حاصل کرنے کے لیے امام کی طرف لوٹ آئے اور اپنی پیاس سے اپنے والد کو آگاہ کیا۔

علی اکبرؓ کی پیاس کو دیکھ کر امامؓ کے آنسو نکل آئے، آپ نے اپنی زبان چوسائی تو حضرت علی اکبرؓ تڑپ اٹھے کہ بابا کی زبان تو بیٹے سے بھی زیادہ خشک تھی، امام حسینؓ نے حضرت علی اکبرؓ سے فرمایا: ''اے میرے بہادر فرزند! امید ہے کہ تم اپنے جد رسول خدا ﷺ سے جلد ہی ملاقات کرو گے، وہ تمہیں آب کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی تشنگی نہ ہوگی۔''

علی اکبرؓ دوبارہ حملے کے لیے روانہ ہوئے، آپؓ کی شجاعت ایسی تھی کہ کوفہ کا کوئی فرد بھی آپؓ سے مقابلہ کرنے پر راضی نہیں تھا۔ علی اکبرؓ اس بہادری سے حملے کر رہے تھے اچانک مْرّۃْ بن مْنقذ کی نگاہ حضرت علی اکبر پر پڑی تو اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا: اہل عرب کے تمام گناہ میری گردن پر، اگر میں اس کے باپ کو اس کے غم میں نہ بٹھا دوں۔

اس نے اچانک آپ کی پیشانی مبارک پر وار کیا کہ آپ اس کی تاب نہ لا سکے اسی اثنا میں دشمن کے دوسرے سپاہی بھی آپ پر حملہ آور ہوئے۔ لشکر نے ہر طرف سے آپ پر وار کرنا شروع کٰے، اتنے میں علی اکبرؓ کی فریاد بلند ہوئی: ''اے بابا! آپ پر میرا سلام ہو! یہ رسول خدا ﷺ ہیں جنہوں نے مجھے جام کوثر سے سیراب کیا اور مجھے اپنی طرف جلدی بلایا ہے۔''

جب شہزادہ علی اکبر گرے تو ایک شقی القلب نے حضرت علی اکبرؓ کے سینے میں برچھی پیوست کردی آپ کی شہادت سینے میں برچھی کے پیوست ہونے سے ہوئی۔ جب امام حسینؓ بیٹے کی لاش پر آئے تو آپ نے اپنے آپ کو بیٹے پر گرا دیا اور اپنے رخسار بیٹے کے رخسار پر رکھ دیے اور فرمایا: ''اے بیٹا! یہ قوم اپنے خدا کی نسبت کس قدر گستاخ اور بے شرم ہیں اور رسول اﷲ ﷺ کے حرم کی توہین کرتے ہیں۔'' پھر فرمایا: ''اے میرے بیٹے! تیرے بعد اس دنیا پر تف ہے۔''

جناب علی اکبرؓ کی قبر اطہر امام حسینؓ کی قبر کے پائینتی طرف ہے۔ آج بھی ہر مسلمان شہزادہ علی اکبرؓ کی عظیم قربانی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتا ہے: سلام ہو! آپ پر اے شہید اوّل، سلام اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت سے تعلق رکھنے والے شہید۔ ہمارا سلام ہو اس عظیم شہید پر جس کی شہادت نے خطرے میں پڑے اسلام میں نئی روح پھونک دی۔

یہ کربلا والوں کاری و جاں نثاری ہی تھی جو آج بھی کشمیر و فلسطین میں مائیں اور بوڑھے باپ اپنے جوان بچوں کو بلا خوف و خطر ظلم و جبر کے مقابلے میں بھیجنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔

یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو

در پردہ یہ حسینؓ کے انفاس کی ہے رو
Load Next Story