مہنگائی کا اثر بیلٹ بکس پر پڑے گا
اب تک ہر حکومت نے قرض اتارنے کے لیے مزید قرضہ لیا یا عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا
''ایکسپریس نیوز'' کے پروگرام سیاست میں شہریوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا دیا ہوا قرض عوام کی جیبوں سے ہی نکلے گا۔ سارے سیاستدان ایک جیسے ہیں کوئی ملک و قوم سے مخلص نہیں، یہ سب اپنے مفادات کے لیے حکومت بناتے ہیں۔
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے، ٹیکس بڑھا کر مہنگائی میں اضافہ کر کے قرضہ عوام سے ہی وصول کیا جائے گا۔ مہنگائی نے پہلے ہی عوام کا جینا مشکل کر رکھا تھا جو اب مزید عذاب بن گیا ہے۔
آٹا، چاول، چینی اب مزید مہنگی ہوگئی ہیں، اب تو دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے، جو حکومت بھی آتی ہے مہنگائی بڑھاتی ہے عوام کا کسی نے سوچا نہ سوچیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے سروے میں عام شہریوں کے تاثرات لیے گئے جس میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت سابق حکومت کی مہنگائی کو جواز بنا کر عوام کو ریلیف دینے آئی تھی جس نے تو مہنگائی کا نیا ریکارڈ بنا لیا ہے۔
ایک شہری نے کہا کہ ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کو الزام دے کر مہنگائی بڑھایا کرتی ہے، عوام کو کسی نے ریلیف نہیں دیا۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے مہنگائی بڑھائی جاتی ہے جب تک آئی ایم ایف کے قرضوں سے ہماری جان نہیں چھوٹے گی ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ قرضہ ملنے سے وقتی ریلیف ملا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔
ملک کو ڈیفالٹ تک بھی حکمران ہی لے کر گئے تھے ہر حکومت ایسا ہی کرتی آئی ہے اور نئی حکومت بھی یہی کچھ کرے گی اصل بات یہ ہے کہ جب تک درست فیصلے نہیں کیے جائیں گے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
ایک دکاندار نے کہا کہ اس نے 35 سال میں ملک کے اتنے برے حالات نہیں دیکھے جتنے آج ہیں۔ ہر حکمران نے حکومت کو کاروبار سمجھ رکھا ہے۔ اس حکومت نے بھی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بجلی ہے نہ گیس مگر نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں اور گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بل کم نہیں آ رہے بلکہ بڑھ کر ہی آ رہے ہیں۔
اتحادی حکومت اب دو ہفتے کی مہمان ہے، جس نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرضہ منظور کرایا ہے جس کی صرف ایک قسط اس حکومت کو ملی ہے، جس کے لیے جاتے جاتے اس حکومت نے معاہدے کے تحت مہنگائی مزید بڑھا دی ہے۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور وزیر داخلہ نے اپنی اس خوش فہمی کا اظہار کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب سے قومی اسمبلی کی ایک سو اور پنجاب اسمبلی کی دو سو نشستیں جیت لے گی ۔یہ خواب تو ہو سکتا ہے مگر اس کا فیصلہ تو انتخابات ہی میں ہو گا کہ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے۔انتخابات میں بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کے برج الٹ جاتے ہیں۔
یہ مقابلہ ہوگا یا نہیں یہ حکومت اگست میں ختم ہوگی اور اکتوبر یا نومبر میں الیکشن ہوئے تو عوام انتخابی مہم میں کھل کر اظہار خیال کریں گے اور سوا سال قبل مہنگائی ختم کرنے کے لیے اقتدار میں آنے والوں کو عوام سے منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور وہ انتخابی مہم میں عوام کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔
ہر حکومت نے آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی اداروں اور دوست ممالک سے قرضے لے کر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی مقروض کر رکھا ہے اور جو بچے پیدا نہیں ہوئے وہ بھی دو لاکھ روپے سے زائد رقم کے مقروض ہو کر پیدا ہوں گے مگر قرض مانگنے کے عادی حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہونا اور واقعی یہ قرض مع سود عوام کی جیبوں سے نکل رہا ہے بلکہ اب تو عوام کو نچوڑ کر نکالا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ہر حکومت عوام دشمن ثابت ہوئی ہے اور کسی نے بھی عوام کا خیال رکھا نہ کوئی ریلیف دیا اور سب کا زور مہنگائی بڑھانے پر رہا ہے۔
اتحادی مہنگائی بڑھانے والی حکومت ہے جو سابق حکومت کی مہنگائی کو بنیاد بنا کر عوام کو ریلیف دینے اقتدار میں آئی تھی جو سب سے زیادہ ظالم اور عوام دشمن ثابت ہوئی ہے جس نے اپنے حکومتی اخراجات گھٹانے کے بجائے کابینہ بڑھائی جس سے حکومتی اخراجات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔
ملک کے سرکاری ملازمین عوام کی اکثریت نہیں جن کی ہر سال تنخواہ بڑھائی جاتی ہے حالانکہ ان کی ایک بڑی تعداد کی مالی آمدن کے دیگر بھی ذرایع ہیں مگر نجی ملازمین، کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کو نہ ریلیف دیا گیا بلکہ پٹرول، بجلی و گیس آئے دن مہنگی کر کے حکومت نے ان کے اخراجات بڑھائے۔
ججوں کی تنخواہوں میں دو لاکھ روپے سے زیادہ اضافہ کرکے قومی خزانے پر مزید بوجھ بڑھایا گیا حالانکہ ان کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں اور سرکاری مراعات الگ ہیں۔
اعلیٰ افسران، ارکان اسمبلی و پارلیمنٹ اور حکومتی لوگوں کو پہلے ہی مراعات و مالی فوائد حاصل ہیں جن کی حکومت کو بہت فکر تھی مگر عام لوگوں کے مسائل کی کسی حکومت کو فکر نہیں۔ عوام صرف قربانی دینے، حکومتی اخراجات کے لیے ٹیکس دینے اور مہنگائی و بے روزگاری برداشت کرنے اور آئی ایم ایف کے قرضے اتارنے کے لیے رہ گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط بھی صرف عوام کے لیے ہیں جو عوام پر تو ٹیکس لگواتا آ رہا ہے مگر حکومتوں کو حکومتی اخراجات کم کرنے، بڑی کابینہ بنانے اور سرکاری اداروں میں اپنوں کو بھرتی کرنے سے روکنے کا کبھی نہیں کہتا نہ کہے گا کیونکہ جب ہماری حکومتوں کو ہی اپنے عوام کی مشکلات کا احساس نہیں تو آئی ایم ایف کو پاکستانیوں کی مشکلات کا کیوں احساس ہوگا؟ آئی ایم ایف نے اپنے مفادات دیکھنے ہیں کہ اس کا دیا ہوا قرض مع سود کیسے واپس ہوگا کیونکہ وہ بھی ایک بینک ہے۔
اب تک ہر حکومت نے قرض اتارنے کے لیے مزید قرضہ لیا یا عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا۔ آئی ایم ایف کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا دیا ہوا قرضہ کہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ سابق حکومت نے پونے چار سال میں سب سے زیادہ قرضے لیے وہ کہاں خرچ ہوئے اتحادی حکومت اس کی تفصیل بھی نہیں بتا رہی کہ وہ خود بھی ایسا کرچکی ہے۔
سابق حکومت کے چرب زبان سربراہ نے اپنے دعوؤں سے 2018 میں ووٹ دینے کے لیے عوام کو باہر نکال لیا تھا مگر اتحادی حکومت میں شامل پارٹیاں تو عوام کے سامنے آنے کی جرأت بھی نہیں کرسکیں گی، ایسے حالات میں لوگ ووٹ دینے کیوں گھروں سے نکلیں گے۔
قوم نے ہر پارٹی کو آزما لیا سب ان کے لیے عوام دشمن ثابت ہوئی ہیں جو اب ان سب پارٹیوں سے بیزار ہو چکے ہیں تو نگران حکومتیں ووٹ دینے کے لیے بھی کیا آئی ایم ایف سے درخواست کریں گی جو ملکوں کو قرضے دے سکتا ہے ووٹ دینے کے لیے مقروض عوام کو سڑکوں پر آنے کا بھی نہیں کہہ سکتا۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا ہے کہ مہنگائی کا یقینی اثر بیلٹ بکس پر پڑے گا۔