خلیل طوقار اورہندکو گرائمر
میرے وطن میں بھی ان کے آنے سے بہار آ جاتی ہے
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کی پاکستان آمد ذاتی طور پر میرے لیے تو خوشی کا باعث ہوتی ہی ہے، میرے وطن میں بھی ان کے آنے سے بہار آ جاتی ہے۔ مجھے اسی بہار کی کچھ جھلکیاں پیش کرنی ہیں لیکن ایک اور معاملہ مجھے متوجہ کر رہا ہے جو فوری نوعیت کا ہے۔
لاہور کے ایم اے او کالج کی تاریخ بڑی شان دار اور رنگا رنگ ہے۔ کچھ ذاتی یادیں بھی تاریخی ادارے سے وابستہ ہیں لیکن اس کا اصل اور بنیادی حوالہ تو سر سید احمد خان اور علی گڑھ یونیورسٹی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا ابتدائی نام محمڈن اینگلو اورینٹل کالج تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے درجے پر بلند ہو گیا۔
ایم اے او کالج لاہور اسی مبارک سلسلے کی کڑی ہے۔ انجمن حمایت اسلام نے سر سید علیہ رحمہ کی پیروی میں بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں امرتسر میں یہ کالج قائم کیا ۔
یہ وہی کالج ہے، جس میں فیض احمد فیض اور محمد دین تاثیر جیسے عبقری اساتذہ نے پڑھایا۔ قیام پاکستان کے وقت یہ بلڈنگ جس میں آج ایم اے او کالج قائم ہے، سناتن دھرم کالج ہواکرتا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ایک معاہدے کے تحت یہ کالج امرتسر منتقل ہو گیا اور ایم اے او کالج لاہور میں آ گیا۔ حق بہ حق دار رسید۔ اتنا شان دار ورثہ رکھنے والا یہ کالج ان دنوں خبروں میں ہے۔
ایک خبر تو اس کالج کی خاتون پرنسپل صاحبہ کی ہے جو لاہور جیسے پر ہجوم شہر میں ٹریفک سے بچتی بچاتی سائیکل سواری کرتے ہوئے کالج پہنچتی ہیں جس پر مخدومی عطا الحق قاسمی جیسے محترم کالم نگار نے ان کی تعریف کی ہے اور اس واقعے کے بہانے سے ان بزرگوں کو یاد کیا ہے جن کے بائیسکل اساطیر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کی سائیکل سواری نے سچ جانئے کہ اہل دل کے دل میں ان کے لیے جگہ بنا دی ہے لیکن ہمارے اس تاریخی کالج سے دکھی کر دینے والی خبریں نہ آتی تو دل کو سکون ملتا۔
توقع یہی ہے کہ ایم اے او کالج کا قضیہ جلد نمٹ جائے گا اس لیے اب آتے ہیں ڈاکٹر خلیل طوقار کی طرف۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے داماد ہیں یعنی پاکستان کے داماد ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا شمار اردو ادب کے ان اساتذہ میں ہوتا ہے تذکروں میں جن کا ذکر سنہری حروف میں کیا جاتا ہے۔
یہ اردو کادائرہ ٔ محبت ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم اردو پڑھانے استنبول تشریف لے گئے اور ان کی دور بیں نگاہ ایک نوجوان پر پڑی جس کا ذہن اردو اور فارسی ہی کیا، ہندکو جیسی زبان کو بھی قبول کرتا تھا۔
یہ نوجوان ان کے دل کو بھا گیا اور انھوں نے یہ جانا کہ ہو نہ ہو، ایک دن یہ ہونہار اردو کے تعلق سے نام کمائے گا لہٰذا انھوں نے خصوصی توجہ دی اور اس کی راہ نمائی کی۔
یہ نوجوان ہمارے جانے پہچانے ڈاکٹر خلیل طوقار تھے۔ استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ محبت کی ایسی ڈوری میں بندھا کہ استاد نے اپنے جگر کا ٹکڑا بھی انھیں سونپ دیا۔ مطلب یہ ہے کہ ہماری بھابھی صاحبہ یعنی ثمینہ طوقار ہمارے اسی بزرگ استاد کی لخت جگر ہیں۔
ڈاکٹر خلیل طوقار اردو میں پچاس کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں، اسی زبان میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ اگلی بات یہ ہے کہ وہ ہندکو زبان کی گریمر بھی لکھ چکے ہیں گویا وہ ہماری اس زبان کے انشا اللہ خان انشا ہیں۔ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ انشا وہی بزرگ ہیں جنھوں نے اردو کی پہلی گریمر 'دریائے لطافت' کے نام سے لکھی تھی۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے ہندکو کی جو گریمر لکھی، وہ امریکا سے شایع ہو کر مقبول ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب کی یہی خدمات ہیں جن پر حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز عطا کیا۔ یہ تمغہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ حکومت ترکیہ نے سوچا کہ کیوں نہ اس شخص کی پاکستان کے ساتھ محبت کے سلسلے کو زیادہ با معنی بنا دیا جائے۔
وزارت ثقافت ترکیہ کے زیر اہتمام یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک ثقافتی ادارہ کام کرتاہے جو ترک ثقافت کے فروغ اور پاکستان جیسے دوست اور برادر ملکوں میں مشترکہ ثقافتی مظاہر کو اجاگر کر کے قربت کو مزید قربت میں بدلتا ہے۔
حکومت ترکیہ نے انھیں 2017 پاکستان بھیجا۔ اس موقع پر انھوں نے لاہور میں یہ سینٹر قائم کیا۔ گزشتہ فروری میں وہ پھر تشریف لائے ہیں۔ اب کی بار آتے ہی انھوں نے علامہ اقبال یونیورسٹی میں اس کی شاخ قائم کر دی ہے اور جامعہ کراچی کے منصوبے پر کام جاری ہے۔
یہ تذکرہ اسی ثقافتی تنظیم کے پہلے شان دار پروگرام کا ہے۔ گرمی کی چھٹیوں کی رعایت سے انھوں نے علامہ اقبال یونیورسٹی میں بچوں کے لیے ایک پندرہ روزہ سمر کیمپ کا انعقاد کیا جس میں بچوں کو مشترکہ ثفاقتی ورثے سے روشناس کرایا گیا۔
ان پروگراموں میں خاص اہمیت خطاطی کو حاصل تھی جو ہمارا مشترکہ ورثہ ہے جس میں ہمارے بھائی واصل شاہد کو اختصاص حاصل ہے ۔ اسی طرح تیر اندازی جس میں رضا محمود کو کمال حاصل ہے، سمیت دیگر کھیل بھی کیمپ میں سکھائے گئے جو اب ہمارے یہاں خواب و خیال ہو چکے ہیں۔
چند روز قبل اس کیمپ کی اختتامی تقریب ہوئی جس میں ترک سفیر جناب مہمیت پاجا جی اورعلامہ اقبال یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ناصر محمود سمیت کئی اہم شخصیات نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر طوقار پہلے پاکستان تشریف لائے تو ثقافتی سطح پر پاکستان میں چہل پہل شروع ہو گئی۔ اب پھر ہم یہی رونقیں دیکھ رہے ہیں۔