کوئی بھی چیز واضح نہیں ہے
اسحقٰ ڈار یہ سمجھتے تھے کہ وہ باآسانی IMF سے گفت وشنید کر کے اسے رام کرلیں گے
پی ڈی ایم کی اس حکومت نے جس طرح اپنے دور کے یہ پندرہ ماہ گزارے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اِن پندرہ ماہ میں کبھی کھل کر یہ بتایا نہیں گیا کہ مالی مشکلات کے حل کے لیے جو کوششیں کی گئیں وہ کس طرح کی تھیں۔
اس حکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی کا رول کیا اور کتنا اہم تھا اور وہ اس حکومت کے تمام فیصلوں کی ذمے داری قبول بھی کرتی ہے یا نہیں۔ بظاہر وہ PDMکا حصہ بھی نہیں ہے لیکن ہر فیصلے میں وہ کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کرتی بھی نظر آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے اگلے آنے والے دنوں میں وہ اس کے اچھے کاموں کا کریڈٹ لیتے ہوئے اپنے آپ کو تو ضرور شامل کرے گی لیکن غلط اور ضرر رساں کاموں کا سارا ملبہ شہباز شریف پر ڈالتی نظر آئے گی۔
ویسے بھی عام انتخابات اگلے چند ماہ میں ہونے والے ہیں اور الیکشن مہم میں اس کا نشانہ پی ٹی آئی کے علاوہ مسلم لیگ نون بھی ہوگی، ایسا کرنا اس کی ضرورت اور مجبوری بھی ہے۔ ہمارے یہاں سیاست میں جب تک کسی دوسرے بڑے فریق یا اپنے سب سے اہم حریف پر دشنام طرازی نہ کی جائے الیکشن میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سیاست کا یہ ہنر اچھی طرح جانتی ہے اور اسے اچھی طرح ادا بھی کرتی ہے۔
میاں شہباز شریف کو اس مختصر عرصہ کے لیے وزیر اعظم بنانے میں بھی پیپلزپارٹی کی اس قیادت کا مرکزی رول رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون اس خراب معاشی صورتحال میں حکومت لینے کے حق میں ہرگز نہیں تھی، مگر آصف علی زرداری نے اُسے اپنی طلسماتی اور مفاہمتی پالیسی کا اسیر بنا ہی لیا، وہ اگر چاہتے تو یہ ذمے داری خود بھی لے سکتے تھے لیکن اس کٹھن معاشی حالات میں وہ یہ رسک لے کر اپنی باقی بچی سیاست کو قربان نہیں کرسکتے تھے۔ اُن کا اہم ٹارگٹ اپنے فرزند عظیم کو اپنی زندگی میں اس ملک کا وزیر اعظم بنانا ہے ۔
اسی لیے وہ اگلے الیکشن کو اپنی اس خواہش کے پورا ہونے کا ایک اچھا اور بہترین موقعہ تصور کرتے ہیں۔ دس پندرہ ماہ کی حکومت لے کر وہ اپنی سیاست کو قربان نہیں کرسکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے میاں شہباز شریف کو آگے کیا۔
یہ اُن کاوہ حریف ہے جسے 2018میں پنجاب کا وزیراعلیٰ نہ بننے دینے میں بھی اُن کی کوششیں شامل تھیں اور جس کا کریڈٹ بھی وہ لیا کرتے تھے، مگر اب ایک عارضی دور کا وزیر اعظم بنا کر انھوں نے نہ صرف شہباز شریف پر ایک احسان ِعظیم کردیا ہے بلکہ مسلم لیگ کی ساری سیاست کو سخت خطروں سے دوچار بھی کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت کے ابتدائی چھ ماہ میں وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل جو ایک منتخب پارلیمنٹیرین بھی نہ تھے اس لیے بنائے گئے کیونکہ اسحقٰ ڈار اس وقت دستیاب نہ تھے۔
مفتاح اسمعیل کی قابلیت کے معترف تو بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے ایسے وقت میں اس ملک کو مالی بحران سے نکالا جب IMF بھی ہم سے ناراض ہو چکا تھا، لیکن بہرحال انھیں چھ ماہ بعد یہ عہدہ چھوڑنا ہی تھا، یہ ایک آئینی اور دستوری مجبوری تھی۔ کوئی بھی غیر منتخب شخص چھ ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے وزیر کا عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ہے۔
اسحقٰ ڈار یہ سمجھتے تھے کہ وہ باآسانی IMF سے گفت وشنید کر کے اسے رام کرلیں گے لیکن جب وہ میدان میں اترے تو سامنے مشکلات کا پہاڑ تھا، اس بار IMF کا رویہ کچھ اور ہی تھا، وہ کوئی بھی رعایت دینے کو تیار نہ تھا۔ رفتہ رفتہ پتا چلا کہ اس بار IMF کسی طرح بھی راضی اور رضا مند نہیں ہے۔
بالآخر قوم کو قربانی کی بھینٹ چڑھا کر جون کے مہینے میں یہ کام سر انجام دے دیا گیا، مگر قوم کو ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ IMF سے کن شرائط پر معاہدہ ہوا ہے۔ اِن شرائط کو خفیہ رکھنے کا مقصد مہنگائی اور ٹیکسوں کا آپشن کھلا رکھنا بھی ہے، تاکہ جب چاہیں نئی مہنگائی کر کے الزام IMF سے ہونے والے معاہدہ پر عائد کردیں۔
اس معاہدے میں جو 28 صفحات ابھی قوم کے سامنے نہیں رکھے گئے ہیں، اس میں کتنی اور سخت شرائط شامل ہیں جنھیں سن کر ہر کوئی حیران و پریشان ہوسکتا ہے۔
ہم آج کل معدنیات کے جن بڑے بڑے ذخائر کی خبریں سن رہے ہیں، اس میں وزیرستان کے محمد خیل کے ذخائر پر کام 2016 میں شروع ہوچکا ہے اور اب تک تو اس میں سے ایک تہائی تانبا نکال کر ایکسپورٹ بھی کیا جاچکا ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ ہمارے قومی خزانے میں شامل کیوں نہیں ہوا۔ اسی طرح بیس سال قبل ریکوڈک کے خزانوں سے اب تک کیا حاصل ہوا ہے۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ معدنیات کے اِن خزانوں سے ہماری قمست بدل جائے گی۔ جب محمد خیل کے خزانوں سے نکلنے والے تانبے کا پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب ایکسپورٹ ہوگیا اور اس سے کتنا پیسہ قومی خزانے میں شامل ہوا، اگر واقعی ایسا ہوتا تو ہم آج کیوں IMF کی اتنی منت سماجت کررہے ہیں۔
بجلی کے دام دنیا میں سب سے مہنگے ہمارے یہاں ہیں۔ اس میں شامل مختلف ٹیکس اورTV اور ریڈیو کی فیسیں ملا کر یہ ہماری نصف تنخواہ کے برابر ہو جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود گردشی قرضے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ ہر سال مزید بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
حکومت عوام سے بجلی بل باقاعدہ پابندی سے وصول کرتی ہے لیکن بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادا نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گردشی قرضے مسلسل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جسے پورا کرنے کے لیے وہ فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر اچھی خاصی رقم بلوں میں بھی وصول کرتی ہے۔ یہ ملک کس طرح چلایا جا رہا ہے سمجھ نہیں آتا، کوئی بھی چیز واضح اور شفاف نہیں ہے۔ سبھی کچھ مبہم اور مشکوک ہے۔
ابھی تک ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ نئے الیکشن وقت پر ہونگے بھی یا نہیں، نگراں حکومت کتنے عرصے کے لیے ہوگی یا پھر وہ اگلے ایک سال کے لیے بنائی جارہی ہے۔ سبھی کچھ عوام سے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
اس حکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی کا رول کیا اور کتنا اہم تھا اور وہ اس حکومت کے تمام فیصلوں کی ذمے داری قبول بھی کرتی ہے یا نہیں۔ بظاہر وہ PDMکا حصہ بھی نہیں ہے لیکن ہر فیصلے میں وہ کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کرتی بھی نظر آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے اگلے آنے والے دنوں میں وہ اس کے اچھے کاموں کا کریڈٹ لیتے ہوئے اپنے آپ کو تو ضرور شامل کرے گی لیکن غلط اور ضرر رساں کاموں کا سارا ملبہ شہباز شریف پر ڈالتی نظر آئے گی۔
ویسے بھی عام انتخابات اگلے چند ماہ میں ہونے والے ہیں اور الیکشن مہم میں اس کا نشانہ پی ٹی آئی کے علاوہ مسلم لیگ نون بھی ہوگی، ایسا کرنا اس کی ضرورت اور مجبوری بھی ہے۔ ہمارے یہاں سیاست میں جب تک کسی دوسرے بڑے فریق یا اپنے سب سے اہم حریف پر دشنام طرازی نہ کی جائے الیکشن میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سیاست کا یہ ہنر اچھی طرح جانتی ہے اور اسے اچھی طرح ادا بھی کرتی ہے۔
میاں شہباز شریف کو اس مختصر عرصہ کے لیے وزیر اعظم بنانے میں بھی پیپلزپارٹی کی اس قیادت کا مرکزی رول رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون اس خراب معاشی صورتحال میں حکومت لینے کے حق میں ہرگز نہیں تھی، مگر آصف علی زرداری نے اُسے اپنی طلسماتی اور مفاہمتی پالیسی کا اسیر بنا ہی لیا، وہ اگر چاہتے تو یہ ذمے داری خود بھی لے سکتے تھے لیکن اس کٹھن معاشی حالات میں وہ یہ رسک لے کر اپنی باقی بچی سیاست کو قربان نہیں کرسکتے تھے۔ اُن کا اہم ٹارگٹ اپنے فرزند عظیم کو اپنی زندگی میں اس ملک کا وزیر اعظم بنانا ہے ۔
اسی لیے وہ اگلے الیکشن کو اپنی اس خواہش کے پورا ہونے کا ایک اچھا اور بہترین موقعہ تصور کرتے ہیں۔ دس پندرہ ماہ کی حکومت لے کر وہ اپنی سیاست کو قربان نہیں کرسکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے میاں شہباز شریف کو آگے کیا۔
یہ اُن کاوہ حریف ہے جسے 2018میں پنجاب کا وزیراعلیٰ نہ بننے دینے میں بھی اُن کی کوششیں شامل تھیں اور جس کا کریڈٹ بھی وہ لیا کرتے تھے، مگر اب ایک عارضی دور کا وزیر اعظم بنا کر انھوں نے نہ صرف شہباز شریف پر ایک احسان ِعظیم کردیا ہے بلکہ مسلم لیگ کی ساری سیاست کو سخت خطروں سے دوچار بھی کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت کے ابتدائی چھ ماہ میں وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل جو ایک منتخب پارلیمنٹیرین بھی نہ تھے اس لیے بنائے گئے کیونکہ اسحقٰ ڈار اس وقت دستیاب نہ تھے۔
مفتاح اسمعیل کی قابلیت کے معترف تو بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے ایسے وقت میں اس ملک کو مالی بحران سے نکالا جب IMF بھی ہم سے ناراض ہو چکا تھا، لیکن بہرحال انھیں چھ ماہ بعد یہ عہدہ چھوڑنا ہی تھا، یہ ایک آئینی اور دستوری مجبوری تھی۔ کوئی بھی غیر منتخب شخص چھ ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے وزیر کا عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ہے۔
اسحقٰ ڈار یہ سمجھتے تھے کہ وہ باآسانی IMF سے گفت وشنید کر کے اسے رام کرلیں گے لیکن جب وہ میدان میں اترے تو سامنے مشکلات کا پہاڑ تھا، اس بار IMF کا رویہ کچھ اور ہی تھا، وہ کوئی بھی رعایت دینے کو تیار نہ تھا۔ رفتہ رفتہ پتا چلا کہ اس بار IMF کسی طرح بھی راضی اور رضا مند نہیں ہے۔
بالآخر قوم کو قربانی کی بھینٹ چڑھا کر جون کے مہینے میں یہ کام سر انجام دے دیا گیا، مگر قوم کو ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ IMF سے کن شرائط پر معاہدہ ہوا ہے۔ اِن شرائط کو خفیہ رکھنے کا مقصد مہنگائی اور ٹیکسوں کا آپشن کھلا رکھنا بھی ہے، تاکہ جب چاہیں نئی مہنگائی کر کے الزام IMF سے ہونے والے معاہدہ پر عائد کردیں۔
اس معاہدے میں جو 28 صفحات ابھی قوم کے سامنے نہیں رکھے گئے ہیں، اس میں کتنی اور سخت شرائط شامل ہیں جنھیں سن کر ہر کوئی حیران و پریشان ہوسکتا ہے۔
ہم آج کل معدنیات کے جن بڑے بڑے ذخائر کی خبریں سن رہے ہیں، اس میں وزیرستان کے محمد خیل کے ذخائر پر کام 2016 میں شروع ہوچکا ہے اور اب تک تو اس میں سے ایک تہائی تانبا نکال کر ایکسپورٹ بھی کیا جاچکا ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ ہمارے قومی خزانے میں شامل کیوں نہیں ہوا۔ اسی طرح بیس سال قبل ریکوڈک کے خزانوں سے اب تک کیا حاصل ہوا ہے۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ معدنیات کے اِن خزانوں سے ہماری قمست بدل جائے گی۔ جب محمد خیل کے خزانوں سے نکلنے والے تانبے کا پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب ایکسپورٹ ہوگیا اور اس سے کتنا پیسہ قومی خزانے میں شامل ہوا، اگر واقعی ایسا ہوتا تو ہم آج کیوں IMF کی اتنی منت سماجت کررہے ہیں۔
بجلی کے دام دنیا میں سب سے مہنگے ہمارے یہاں ہیں۔ اس میں شامل مختلف ٹیکس اورTV اور ریڈیو کی فیسیں ملا کر یہ ہماری نصف تنخواہ کے برابر ہو جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود گردشی قرضے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ ہر سال مزید بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
حکومت عوام سے بجلی بل باقاعدہ پابندی سے وصول کرتی ہے لیکن بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادا نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گردشی قرضے مسلسل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جسے پورا کرنے کے لیے وہ فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر اچھی خاصی رقم بلوں میں بھی وصول کرتی ہے۔ یہ ملک کس طرح چلایا جا رہا ہے سمجھ نہیں آتا، کوئی بھی چیز واضح اور شفاف نہیں ہے۔ سبھی کچھ مبہم اور مشکوک ہے۔
ابھی تک ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ نئے الیکشن وقت پر ہونگے بھی یا نہیں، نگراں حکومت کتنے عرصے کے لیے ہوگی یا پھر وہ اگلے ایک سال کے لیے بنائی جارہی ہے۔ سبھی کچھ عوام سے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔