ہندوستان سے دشمنی کم کیجیے
قطعاً عرض نہیں کر رہا کہ ہندوستان پر مکمل بھروسہ کریں مگر آہستہ آہستہ گنجائش پیدا کریں ، تجارت کو آسان بنایئے
چودہ اگست 1947 سے لے کر آج تک، اگر برصغیر میں کسی بھی جذبے کو مسلسل بڑھاوا ملا ہے، تو وہ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی دشمنی ہے۔
یہ دشمنی قومی نہیں ہے بلکہ مذہبی بنیاد پر قائم ہے، ایک دوسرے کو برباد کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہندوستانی قیادت، ہمارے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کرتی اور چند لمحوں میں ہمارا ردعمل بھی ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت کے دلوں میں بھی نفرت رچ بس گئی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی اس نفرت کو کم کرنے کے بجائے اسے پارٹی منشور کا حصہ بنایا اور الیکشن مہم کی بنیاد اسی نفرت پر رکھی ہے۔ اگر کوئی جذبہ چاہے وہ سچ یا جھوٹ اوائل عمری میں ذہن میں نقش کر دیا جائے یا کرا دیا جائے، تو وہ اسے ذہنوں سے نکالنا ممکن نہیں ہوتا ،ان کی دلیل کی بنیاد بھی بن جاتا ہے۔
بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دھند کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان باہمی نفرت اس سطح پر پہنچ چکی ہے ، جو شخص، گروہ یا تنظم اسے کم یا ختم کرنے کی بات کرتا ہے، اسے غدار، سازشی ملک دشمنی اور ہندو کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے۔
یہ بدقسمتی سرحد کے دونوں اطراف ایک جیسی ہے۔ ہندوستان میں تو نریندر مودی نے الیکشن میں پاکستان کو ختم کرنے کا بارہا اعلان کیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن الیکشن جیتنے کے لیے نفرت کا سہارا لیا گیا۔
راہول گاندھی کیونکہ معتدل نظریات کا کانگریسی لیڈر ہے لہٰذا بی جے پی اسے ''بھارت دشمن'' قرار دے رہی ہے۔ معاف کیجیے! پاکستان میں بھی بعینہٖ یہی معاملہ ہے۔ لہٰذا اب دشمنی پاگل پن کی انتہا کو چھو رہی ہے۔
کم لوگوں کو یاد ہو کہ دونوں ممالک کی پہلی جنگ، اکتوبر 1947 میں ہی شروع ہو چکی تھی۔ اسے پہلی کشمیر جنگ کہا جاتا ہے۔ سابقہ فاٹا کے قبائلی افراد کے جتھے اس جنگ میں شریک ہوئے، ہماری افواج کے ہمراہ سری نگر کے نزدیک تک پہنچ چکے تھے۔
پھر کچھ ایسی فاش غلطیاں ہوئیں جن سے ہم کشمیر پر مکمل غلبہ حاصل نہ کرپائے۔ ان وجوہات میں جانا نہیں چاہتا۔ کیونکہ باتیں تلخ ہو جاتی ہیں اور ویسے بھی ہمارے جیسے عقل دشمن معاشرے میں سچی بات کرنا، جان گنوانے کے برابر ہے۔
1947 سے لے کر آج تک دونوں ممالک کی تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1965، 1971 اور 1999 ۔ نتائج جو بھی ہوں لیکن امن کی فاختہ کو اڑنے سے پہلے ہی لہو میں نہلا دیا گیا۔ مگر ایک حقیقت ایسی ہے جسے سمجھنا ہماری بقا کے لیے اشد ضروری ہے۔ ہندوستان نے معاشی ترقی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، ان کی سیاسی قیادت پارلیمانی جمہوری نظام کو ساتھ لے کر چلتی رہی ، ہر پانچ سال بھی الیکشن کا تسلسل جاری رہا، سیاسی جماعتیں فعال اور مضبوط ہوتی گئیں۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ ہندوستان کا وہ وزیراعظم تھا جس نے موجودہ اقتصادی ماڈل کی بنیاد رکھی۔ من موہن سنگھ کے بعد آنے والی حکومت نے اس ماڈل کو تبدیل نہیں کیا بلکہ مزید بہتر بنانے کی کوشش کی، یوں انڈیا کی معاشی کایا پلٹ گئی۔ آج بھارت میں معاشی ترقی کی شرح چھ فیصد سے زیادہ ہے۔ جی ڈی پی 3.75 ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے۔
انڈیا کی ایک مالی سال کی برآمدات آٹھ سو بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ فارن کرنسی ریزرو چھ سو بلین ڈالر کی حد چھو رہے ہیں۔ صرف آئی ٹی کی سالانہ برآمدات تین سو بیس بلین ڈالر ہے۔ یہ رقم سعودی عرب کی تیل کی برآمدات سے زیادہ ہے۔
اب خاکسار آپ کے سامنے اپنے ملک اور اس کی معیشت کے اعداد وشمار رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں ہماری قومی پالیسی کو پرکھا جائے۔ ہمارے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً نو بلین ڈالر کے قریب ہیں۔
یہ اعداد وشمار آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے پیکیج کے بعد کے ہیں۔ برآمدات تقریباً چوبیس ارب ڈالر ہیں جن میں ایک سال سے مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی تقریباً چار سو ارب ڈالر کے نزدیک ہے۔ اقتصادی اعداد وشمار بڑے بے رحم ہوتے ہیں، انھیں چھپایا نہیں جا سکتا۔
پہلے تو ضروری ہے کہ ہم پسماندگی کی بنیاد تلاش کریں اور کوشش کریں کہ ہمارے معاملات بہتر ڈگر پر چلنا شروع ہوجائیں۔ دیکھیے! دونوں ہمسایہ ممالک ایک وقت آزاد ہوئے تھے۔ اگر ہم خوشحال نہیں ہو پائے تو یہ بغیر وجہ کے تو نہیں ہے۔
ہماری بربادی کی وجوہات کیا ہیں۔ ان پر اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی سوچئے کہ ہندوستان اتنی تیز معاشی ترقی کیسے کر گیا۔ اس کی بھی وجوہات ہیں جنھیں جاننا چاہیے۔
سیاسی استحکام، اداروں کی فعالیت، غیر مبہم قوانین، اختیارات اور فرائض و ذمے داری کا متوازن نظام، الیکشن کا شفاف نظام، معاشی پالیسیوں کا تسلسل، متوسط طبقے کی معاشی ترقی اور فرسودہ روایات سے کنارہ کشی، وہ چند عوامل ہیں جن کی بدولت ہندوستان ہر لحاظ سے ایک معاشی طاقت بن چکا ہے۔ جب ملک میں دولت کی فراوانی ہو تو جدید ترین جنگی ہتھیار اور بہترین نظام دفاع خودبخود آ جاتا ہے۔
عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان سے مرعوب ہونا یا کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر چلانا اصل مقصد ہے۔ ناقص خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تنہائی، شدید ترین سیاسی عدم استحکام،سیاسی قیادت جمہوریت کے ساتھ کمزور تعلق، اختیارات اور فرائض کے درمیان عدم توازن ، قوانین میں ابہام کا ہونا اور کرپشن نے ہمارے ملک کو آکٹوپس کی طرح شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ ہمارے ریاستی ا دارے بھی عدم توزان کا شکار ہو چکے ہیں۔
جس کی بدولت قومی دولت کی لوٹ مار کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ مقامی دانشور اور لکھاریوں کی اکثریت بھی روایتی سوچ کی مالک ہے لیکن دنیا ہمارے ملکی معاملات کے بگاڑ سے پریشان ہے۔
امریکی کانگریس میں حالیہ سیشن کسی بھی طور پر ہمارے لیے خوشگوار نہیں ہے۔سوال تو یہ ہے کہ جب تک ہم حقائق پرکھے بغیر صرف دشمنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر پالیسیاں ترتیب دیتے رہیں گے، تو اقتصادی ترقی ہمارے نزدیک نہیں پھٹک سکتی۔
ترکی، سعودی عرب، یو اے ای اور چین ہمارے دوست ممالک ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بھی انڈیا سے تعلقات خراب نہیں ہیں۔ چین اور ہندوستان سرحدی جھڑپوں کا شکار ہیں مگر ان کی باہمی تجارت عروج پر جا رہی ہے۔ گزشتہ برس یہ تجارت 135 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
سعودی عرب اور انڈیا کی باہمی تجارت بتالیس بلین ڈالر ہے۔ آگے سنیے ! یو اے ای اور ہندوستان کی تجارت تو چوراسی (84) بلین ڈالر ہو چکی ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کاروبار شرمناک حد تک کم ہے۔
ہم بھارت سے سستی اشیاء نہیں خریدتے لیکن چین ، کوریا اور یورپ کی مہنگی اشیاء خریدتے ہیں ، اس کے لیے قرض لینے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ مگر اب یہ پالیسی نہیں چل سکتی۔ ہمارے مقتدر طبقے کے ذاتی مالی مفادات ریاست کے مفادات سے ٹکرا رہے ہیں، یہ ذاتی مفادات کسی نہ کسی طور پر بھارت کے ساتھ تجارت سے متاثر ہوتے ہیں،کھل کر بات کرنا مناسب اور دانش مندی نہیں۔ مگر ہاتھیوں کی لڑائی میں پہلے تو صرف عوام پستے رہے ہیں لیکن اب ریاست کا وجود بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔
قطعاً عرض نہیں کر رہا کہ ہندوستان پر مکمل بھروسہ کریں مگر آہستہ آہستہ گنجائش پیدا کریں ، تجارت کو آسان بنایئے۔ سرمائے کی زبان سب سے طاقت ور ہوتی ہے۔
یہاں میاں نواز شریف کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بطور وزیراعظم وہ یہ نکتہ سمجھ چکے تھے کہ پاکستان دشمنی کے بوجھ کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میاں صاحب نے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی داغ بیل ڈالنے کی مخلصانہ کوشش کی۔ پاداش میں انھیں ہر قسم کا طعنہ سننا پڑا۔ اس چپقلش نے ان کو وزارت عظمیٰ سے بھی محروم کر دیا۔ ہ
ماری موجودہ قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ کیا موجودہ معاشی بربادی کی موجودگی میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا دانشمندی ہے یا دشمنی برقرار رکھنا بہتر ہے۔ خیر یہ اکابرین کے فیصلے ہیں مگر ایک امر تو طے ہے، باہمی دشمنی کو کم کیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔