سربراہی آمریت و من مانی کا انجام
کسی اور پارٹی میں پی ٹی آئی چیئرمین جیسی آمریت قائم نہیں جس نے اپنے رہنماؤں کا مشورہ نہیں مانا
سانحہ 9 مئی پی ٹی آئی کے مقدر میں لکھا تھا یا پی ٹی آئی کے رہنما ایسے کسی سانحے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ انھیں پارٹی چھوڑنے کا موقعہ ملے اور یہ حادثہ 9 مئی کو ہو گیا جس کی پرورش اس کے سربراہ سالوں سے کر رہے تھے۔ یہ اتفاق نہیں ایک منصوبہ تھا۔
سانحہ 9 مئی کو ڈھائی ماہ گزر چکے ۔پی ٹی آئی کے حامی وکیل عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اب اپنے کارکنوں کے اس میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے مگر ان سے لاتعلقی بھی ظاہر کردی ہے جب کہ وڈیوز میں پی ٹی آئی کارکن پارٹی جھنڈے اٹھائے اور پہنے آگ لگاتے صاف نظر آ رہے ہیں اور انھی وڈیوز کی بنیاد پر وہ پکڑے گئے جن میں متعدد نے اعتراف جرم بھی کیا اور معافی مانگ کر شرمندگی کا اظہار بھی کیا۔
متعدد نے پارٹی قیادت کو ملوث قرار دیا اور جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات میں چیئرمین پی ٹی آئی سمیت نامزد ملزمان کو قصور وار قرار دیا ہے۔ سانحہ 9 مئی کی تحقیقات پولیس نے ہی کرنا تھی پی ٹی آئی کے حامی وکلا یا پارٹی قیادت نے نہیں۔ پی ٹی آئی کے اہم مرکزی رہنما سانحہ 9 مئی کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ جو ہوا وہ پارٹی سربراہ کی ہدایت پر ہوا۔
یوں تو ہر سیاسی اور مذہبی پارٹیوں میں ان کے سربراہوں کی مکمل آمریت قائم ہیں اور ان کی پارٹیاں عوامی پارٹیاں نہیں ٹرسٹ یا اپنی ذاتی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے ایک بار جمہوریت کی غلطی کی تھی اور انٹرا پارٹی الیکشن کرائے تھے جس کے نتائج ان کی مرضی کے برعکس آئے تھے جس کی تحقیقات کے لیے انھوں نے الیکشن کمشنر جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو مقرر کیا تھا جن کی رپورٹ بھی چیئرمین کے پسندیدہ رہنماؤں کے خلاف آئی تھی جنھوں نے بعض رہنماؤں کو نکالنے کو کہا تھا جنھیں چیئرمین نے نہیں نکالا بلکہ رپورٹ دینے والے کو ہی پی ٹی آئی چھوڑنا پڑ گئی تھی ۔
نو مئی نے انھیں موقعہ دیا تو انھوں نے استحکام پارٹی بنا لی اور ناراض اہم رہنما سابق وزرا نئی پارٹی کی چھاؤں میں آگئے اور اپنے پارٹی سربراہ پر آمریت قائم رکھنے اور من مانیوں کے الزامات لگا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں سچ بولنے کا آغاز چیئرمین کے قریبی ساتھی اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کیا جنھیں فوراً چیئرمین نے فارغ کردیا تھا، پھر سانحہ 9 مئی نے چیئرمین کی آمریت میں دراڑیں ڈالیں اور پارٹی چھوڑنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والوں نے دو پارٹیاں بنا لی ہیں اور ایسے ایسے رہنما پی ٹی آئی چھوڑ گئے ہیں کہ جن کے جانے کا لوگ کیا خود انھوں نے بھی نہیں سوچا تھا۔ پی ٹی آئی میں جو ہو رہا ہے اس کی سب سے زیادہ ذمے داری پارٹی سربراہ پر عائد ہوتی ہے جن کی آمریت و من مانیوں نے انھیں یہ دن دکھائے ہیں۔
پی ٹی آئی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم و دیگر کے سربراہوں کا بھی یہی حال ہے، ان کی مرضی کے خلاف بات کرنے والا ہر رہنما پارٹی چھوڑنے یا اپنا گروپ بنانے پر مجبور ہوا۔ ان پارٹیوں میں بھی دکھاؤے کے الیکشن ہوتے ہیں پارٹی سربراہ ہی عہدے پر منتخب ہوتے ہیں اور باقیوں کو نامزد کراتے آ ہے ہیں۔
کسی اور پارٹی میں پی ٹی آئی چیئرمین جیسی آمریت قائم نہیں جس نے اپنے رہنماؤں کا مشورہ نہیں مانا۔ اپنے ارکان قومی اسمبلی سے استعفے دلائے، پنجاب و کے پی کے اسمبلیاں توڑ کر اپنے پیروں پرکلہاڑا مارا، زمان پارک تک محدود ہوئے، اہم رہنما انھیں ان کی من مانیوں کے باعث چھوڑ رہے ہیں۔
ان کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے اور اب وہ اپنے محسن بالاتروں پر الزام تراشی کرکے مزید رسوا ہو رہے ہیں۔ کاش وہ مشہور ڈرامے وارث کے چوہدری حشمت کا انجام یاد رکھتے جو خود ڈوبا تھا انھوں نے تو اپنی پارٹی بھی ڈبو دی۔