’حقوق نسواں‘ کے نام پر ’سرمایہ دارانہ ضرورتیں‘ پیک نہ کیجیے۔۔۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ کہنا کہ گھر میں موجود عورتیں بے کار ہیں، کوئی درست عمل ہے۔۔۔؟
کچھ دن قبل کراچی آرٹس کونسل میں خواتین کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک بیٹھک میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔
اس میں جہاں خواتین کے مختلف مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، وہیں بہت واضح طور پر یہ بھی کہا گیا کہ اب معاشی ضرورت خواتین کو ''حقوق'' کی جانب 'دھکیل' رہی ہے۔۔۔!
''خواتین اور ہمارا سماجی رویہ'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے محترمہ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ ''اب معاشی ضرورت کے پیش نظر عورت کا گھر پر بیٹھنا ممکن ہی نہیں۔ اب عورت آپ کو کھلا رہی ہے اور آپ کھا رہے ہیں اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔''
اسی حوالے سے محترمہ انیس ہارون کا خیال تھا کہ ''معاشی ضرورت کی سچائی عورت کو حقوق کی جانب دھکیل رہی ہے۔ معاشی خود کفیل عورت کو دبایا نہیں جا سکتا۔''
اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہم نے ایک اور کالم میں یہ بات پڑھی کہ ''آج ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بڑی تیز رفتار انداز سے ترقی کر رہی ہے۔ ہر وہ ملک جو اپنے انسانی وسائل کو بہترین اور منظم طریقے سے کام میں لارہا ہے، وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ آج بھی لوگ بچیوں کو تعلیم دلانے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتے اور نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی بامعنی کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ جان لیا جائے کہ ہم جب تک عورتوں پر مشتمل اپنی آدھی آبادی کی معاشی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم معاشی پس ماندگی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ معاشی بحران یونھی آتے رہیں گے اور ہم کاسہ گدائی لیے دنیا میں مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ اپنی آدھی آبادی کو بے کار رکھ کر ترقی کے خواب دیکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟''
جناب، خواتین کی تعلیم وتربیت اور ان کے مسائل پر کبھی دو رائے نہیں رہیں، لیکن اگر ماضی میں سفاک سرمایہ داری کی چیرہ دستیوں کے خلاف صدائیں بلند کرنے والے بھی اگر سرمایہ دار کے لیے 'افرادی قوت' میں اضافے کو 'خواتین کے حقوق' اور 'آدھی آبادی بے کار' کے نام دے کر انھی کے راستے ہموار کریں گے، تو پھر ہمیں کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے کہ ابھی کل تک یہی وہ حلقے تھے، جو بجا طور پر عالمی مالیاتی نظام اور دنیا بھر میں دولت کا ارتکاز کرتے ہوئے اس 'معاشی نظام' کے ظلم وستم، جبر اور مظلوم عوام اور مزدوروں کے استحصال کے خلاف خود بھی عملی جدوجہد کرتے تھے اور اس کے لیے رائے عامہ بھی ہموار کرتے رہتے تھے۔
پہلے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ناکافی اجرت کا مقصد زیادہ کام کروانا ہے اور زیادہ کام کا مطلب آجران کا زیادہ منافع ہے۔ یہ مہنگائی انھی سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کا باعث بنتی ہے، مزدور زیادہ سے زیادہ کام کرتا ہے تاکہ اتنی مزدوری پالے کہ دو وقت کی روٹی میسر ہو سکے۔۔۔! آخر کیوں اب یہ حلقے اس حقیقت کو یک سر فراموش کرنے لگے ہیں۔
پہلے سیٹھ یا آجر اپنے ایک مزدور کو اتنی اجرت دیتا تھا کہ وہ بہت سہولت سے اپنے بھرے پُرے کنبے کی کفالت کر لیتا تھا، جس میں خواتین اور بچوں کے حوالے سے تو یہ بنیادی حق تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ ان کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کا ضامن ہے۔
آخر آج کیوں ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں کہ گھر کا ہر فرد مجبوراً پیسے ہی کمانے میں لگا ہوا ہے اور بے رحم سرمایہ دارانہ نظام اسے صبح سے لے کر شام تک اسی روزی روٹی کے پیچھے دوڑائے چلا جا رہا ہے اور ہم بہ خوشی اس کے طے کردہ اس اصول کو مان رہے ہیں، اور اس سے ہمیں ''حقوق'' کی رنگا رنگی دکھا کر دراصل سرمایہ داروں کے منافع میں بے رحم اضافہ کیا جا رہا ہے۔۔۔ ہمارے خاندان کے کفیل تو کفیل پورے کے پورے خاندان سیٹھوں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے لیے دھڑا دھڑ روپیا کمانے اور اس کے لیے اپنے سانس برقرار رکھنے جتنی اجرت ملنے پر نہ صرف مطمئن ہیں، بلکہ خوشی سے رقصاں بھی ہیں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اب ہمارے 'بنیادی انسانی حقوق' کے عَلم بردار حلقے اسی راستے ہی اپنے نام نہاد ''حقوق نسواں'' کی تکمیل دیکھنے لگے ہیں۔ دوسری طرف اس سے مختلف رائے کا اس بری طرح قلع قمع ہو چکا ہے کہ اس سے ذرا سی الگ بات کر دینا آپ پر جہالت، دقیانوسی، اور مولویت وغیرہ جیسی چھاپ لگوانے کو کافی ہے۔۔۔ اب ظاہر ہے کون 'باشعور' چاہے گا کہ ان القابات کے ذریعے اپنی 'ساکھ' خراب کرے، اپنی متوازن شخصیت کو بٹّا لگوائے یا کسی ایسے گروہ یا نقطہ نظر رکھنے والوں کے ساتھ 'بریکٹ' ہو جسے سارا سماج 'زمانے کے خلاف'، 'پس ماندہ' اور 'دقیانوسی' کہہ کر تبرا کرتا رہتا ہے۔
کچھ تو 'اظہار آزادی' کی مالا جَپتے نہیں تھکتے، لیکن اس معاملے میں گویا ہمارے رویے متعین کر دیے گئے ہیں کہ ساری اعتدال پسندی یا مکالمے کے حق میں دلائل ہوا ہوئے جاتے ہیں۔ آواز اونچی، منہ سے جھاگ اور توتکار کا یہ عالم پیدا ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ بات کرنے والے کی خوب ''عزت افزائی'' ہو جاتی ہے، بلکہ ساتھ میں مستقبل میں ایسی کسی رائے کی بھی بیخ کنی ہوئی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں ہمیں بھی یہ وضاحت دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ 'بدشگونی نہ سمجھنا دنیا دارو!' ہمارے سماج میں خواتین کو بالکل دبایا جاتا ہے اور انھیں عزت واحترام اور انصاف کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے 'عالمی مالیاتی نظام' کی طے کردہ 'لائن' پر اور ایسے کہ جیسے 'گلوبل ویلیج' میں عالمی نظام کے ہرکارے ایک ڈھول پیٹے جائیں اور ہم سب بس آنکھیں بند کیے اور اپنے سوچنے سمجھنے کے تمام امکانات پر قفل ڈالے اسی پر گام زن کیے جا رہے رہیں۔ ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ کہنا کہ گھر میں موجود عورتیں بے کار ہیں، کوئی درست عمل ہے۔۔۔؟ کیا یہ عمل 100 فی صد خواتین خانہ کی توہین اور ہتک نہیں ہے، جو صبح سے شام تک امور خانہ داری میں مصروف رہتی ہیں۔۔۔؟ کیوں کہ ہمارے سماج میں ہزاروں مرد تو ضرور بے کار دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں کوئی بھی عورت بے کار نہیں۔۔۔! کیا کبھی ہم نے ان گھریلو خواتین کی خدمات کو یاد کیا۔۔۔؟
کیا کوئی 'عالمی دن' ان گھریلو خواتین سے منسوب کیا گیا ہے۔۔۔؟ کیا کسی دن اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ دراصل ہماری 'مردوں کی دنیا' کو رواں دواں رکھنے والی دراصل یہی خواتین ہیں، جنھیں فَٹ دھنے سے ہر خاص وعام ''بے کار'' اور سماج کا 'عضوِ معطل' کہہ کر دھتکار دیتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے نہ اس کی زبان لرزتی ہے اور نہ قلم تھرتھراتا ہے کہ وہ آخر کیسی ظالمانہ اور بے رحمانہ بات کر رہا ہے!
یہ سب اس لیے ہے کہ چہار سو یہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ صرف وہی خاتون 'کام' کرتی ہے، جو براہ راست معاش کی جدوجہد سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہے! ہے ناں افسوس کی بات۔۔۔ چلیے ہم بھی کچھ دیر کے لیے سرمایہ دارنہ بے رحمی ہی سے سوچ لیتے ہیں کہ وہ خواتین جو ''بے کار'' ہیں، یعنی صرف گھر کے کام کاج ہی کرتی رہتی ہیں، جیسے بچوں کی دیکھ بھال اور ہنڈیا روٹی وغیرہ میں اپنا سارا دن بِتاتی ہیں، کیا واقعی وہ خواتین بے کار ہیں۔۔۔؟ کیا ہمارے آنے والے کل اور سماج کے مستقبل کی تربیت جیسا اہم کرنا۔
کیا یہ 'بے کاری' ہے۔۔۔؟ وہ اپنے بیٹے، بھائی، والد اور شوہر کو روزانہ معاش کی جدوجہد پر جانے کے لائق بنا رہی ہیں۔ کیا یہ بے کاری ہے۔۔۔؟ اِسے آپ کٹر سرمایہ دارنہ سوچ کے تحت بھی دیکھیے، تو یہ ایک فی صد بھی بے کاری نہیں ہے! کیوں کہ وہ بالواسطہ طور پر معاشی جدوجہد میں پوری طرح شامل ہو رہی ہیں۔۔۔! ایسی خواتین کو 'بے کار' کہنا بہت بے رحمانہ اور افسوس ناک فعل ہے۔ ایسی خواتین کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا کہ 'ہم ان کی تخلیقی اور معاشی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا رہے' نہایت ہی غیر منصفانہ اور غیر مناسب چلن ہے۔
ہاں، اگر وہ خواتین چاہیں تو کسی بھی قسم کی معاشی جدوجہد میں بھی حصہ لے سکتی ہیں، لیکن اگر وہ براہ راست حصہ نہ بھی لیں، تو اپنے گھر کے مردوں کے توسط سے وہ برابر اس معاشی جدوجہد میں ان کے ساتھ ساتھ ہی ہیں۔۔۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم یہ بات نہیں کرتے اور ایسی باتوں کا اظہار اتنا برا اور ناپسندیدہ بنا دیا گیا ہے کہ لوگ یہ سب محسوس بھی کریں، تب بھی کہنے سے کتراتے ہیں کہ لوگ کہیں گے، دیکھو اتنا پڑھا لکھا ہو کر کیسی ''جاہلانہ'' بات کر رہا ہے! ہمیں یہ رویے تبدیل کرنے چاہئیں۔
خواتین کے حقوق اور انصاف کی بات ضرور ہونی چاہیے، لیکن جیسی ہوا چلے اسی ہوا کے رخ پر اڑے چلے جانا اور جو راگ چل نکلے اسی کے سُر سے سُر ملائے چلے جانا بھی کوئی درست بات نہیں۔ جب اختلاف رائے اور مکالمے کی اتنی چرچا کی جاتی ہے، تو تحمل مزاجی سے ہمیں خود اپنی رائے بنانے اور اپنے ذہن اور عقل سلیم سے سوچنے سمجھنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ دوسرے نقطۂ نظر پر بھی تیوریاں چڑھانے اور منہ بنانے کے بہ جائے تھوڑا سا غور کر لینا چاہیے، یقیناً یہ امر خود ہمارے بھلے اور بہتری کا باعث ہوگا اور خواتین کے حقوق کا بھی صحیح معنوں میں محافظ ثابت ہوگا۔
اس میں جہاں خواتین کے مختلف مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، وہیں بہت واضح طور پر یہ بھی کہا گیا کہ اب معاشی ضرورت خواتین کو ''حقوق'' کی جانب 'دھکیل' رہی ہے۔۔۔!
''خواتین اور ہمارا سماجی رویہ'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے محترمہ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ ''اب معاشی ضرورت کے پیش نظر عورت کا گھر پر بیٹھنا ممکن ہی نہیں۔ اب عورت آپ کو کھلا رہی ہے اور آپ کھا رہے ہیں اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔''
اسی حوالے سے محترمہ انیس ہارون کا خیال تھا کہ ''معاشی ضرورت کی سچائی عورت کو حقوق کی جانب دھکیل رہی ہے۔ معاشی خود کفیل عورت کو دبایا نہیں جا سکتا۔''
اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہم نے ایک اور کالم میں یہ بات پڑھی کہ ''آج ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بڑی تیز رفتار انداز سے ترقی کر رہی ہے۔ ہر وہ ملک جو اپنے انسانی وسائل کو بہترین اور منظم طریقے سے کام میں لارہا ہے، وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ آج بھی لوگ بچیوں کو تعلیم دلانے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتے اور نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی بامعنی کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ جان لیا جائے کہ ہم جب تک عورتوں پر مشتمل اپنی آدھی آبادی کی معاشی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم معاشی پس ماندگی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ معاشی بحران یونھی آتے رہیں گے اور ہم کاسہ گدائی لیے دنیا میں مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ اپنی آدھی آبادی کو بے کار رکھ کر ترقی کے خواب دیکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟''
جناب، خواتین کی تعلیم وتربیت اور ان کے مسائل پر کبھی دو رائے نہیں رہیں، لیکن اگر ماضی میں سفاک سرمایہ داری کی چیرہ دستیوں کے خلاف صدائیں بلند کرنے والے بھی اگر سرمایہ دار کے لیے 'افرادی قوت' میں اضافے کو 'خواتین کے حقوق' اور 'آدھی آبادی بے کار' کے نام دے کر انھی کے راستے ہموار کریں گے، تو پھر ہمیں کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے کہ ابھی کل تک یہی وہ حلقے تھے، جو بجا طور پر عالمی مالیاتی نظام اور دنیا بھر میں دولت کا ارتکاز کرتے ہوئے اس 'معاشی نظام' کے ظلم وستم، جبر اور مظلوم عوام اور مزدوروں کے استحصال کے خلاف خود بھی عملی جدوجہد کرتے تھے اور اس کے لیے رائے عامہ بھی ہموار کرتے رہتے تھے۔
پہلے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ناکافی اجرت کا مقصد زیادہ کام کروانا ہے اور زیادہ کام کا مطلب آجران کا زیادہ منافع ہے۔ یہ مہنگائی انھی سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کا باعث بنتی ہے، مزدور زیادہ سے زیادہ کام کرتا ہے تاکہ اتنی مزدوری پالے کہ دو وقت کی روٹی میسر ہو سکے۔۔۔! آخر کیوں اب یہ حلقے اس حقیقت کو یک سر فراموش کرنے لگے ہیں۔
پہلے سیٹھ یا آجر اپنے ایک مزدور کو اتنی اجرت دیتا تھا کہ وہ بہت سہولت سے اپنے بھرے پُرے کنبے کی کفالت کر لیتا تھا، جس میں خواتین اور بچوں کے حوالے سے تو یہ بنیادی حق تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ ان کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کا ضامن ہے۔
آخر آج کیوں ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں کہ گھر کا ہر فرد مجبوراً پیسے ہی کمانے میں لگا ہوا ہے اور بے رحم سرمایہ دارانہ نظام اسے صبح سے لے کر شام تک اسی روزی روٹی کے پیچھے دوڑائے چلا جا رہا ہے اور ہم بہ خوشی اس کے طے کردہ اس اصول کو مان رہے ہیں، اور اس سے ہمیں ''حقوق'' کی رنگا رنگی دکھا کر دراصل سرمایہ داروں کے منافع میں بے رحم اضافہ کیا جا رہا ہے۔۔۔ ہمارے خاندان کے کفیل تو کفیل پورے کے پورے خاندان سیٹھوں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے لیے دھڑا دھڑ روپیا کمانے اور اس کے لیے اپنے سانس برقرار رکھنے جتنی اجرت ملنے پر نہ صرف مطمئن ہیں، بلکہ خوشی سے رقصاں بھی ہیں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اب ہمارے 'بنیادی انسانی حقوق' کے عَلم بردار حلقے اسی راستے ہی اپنے نام نہاد ''حقوق نسواں'' کی تکمیل دیکھنے لگے ہیں۔ دوسری طرف اس سے مختلف رائے کا اس بری طرح قلع قمع ہو چکا ہے کہ اس سے ذرا سی الگ بات کر دینا آپ پر جہالت، دقیانوسی، اور مولویت وغیرہ جیسی چھاپ لگوانے کو کافی ہے۔۔۔ اب ظاہر ہے کون 'باشعور' چاہے گا کہ ان القابات کے ذریعے اپنی 'ساکھ' خراب کرے، اپنی متوازن شخصیت کو بٹّا لگوائے یا کسی ایسے گروہ یا نقطہ نظر رکھنے والوں کے ساتھ 'بریکٹ' ہو جسے سارا سماج 'زمانے کے خلاف'، 'پس ماندہ' اور 'دقیانوسی' کہہ کر تبرا کرتا رہتا ہے۔
کچھ تو 'اظہار آزادی' کی مالا جَپتے نہیں تھکتے، لیکن اس معاملے میں گویا ہمارے رویے متعین کر دیے گئے ہیں کہ ساری اعتدال پسندی یا مکالمے کے حق میں دلائل ہوا ہوئے جاتے ہیں۔ آواز اونچی، منہ سے جھاگ اور توتکار کا یہ عالم پیدا ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ بات کرنے والے کی خوب ''عزت افزائی'' ہو جاتی ہے، بلکہ ساتھ میں مستقبل میں ایسی کسی رائے کی بھی بیخ کنی ہوئی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں ہمیں بھی یہ وضاحت دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ 'بدشگونی نہ سمجھنا دنیا دارو!' ہمارے سماج میں خواتین کو بالکل دبایا جاتا ہے اور انھیں عزت واحترام اور انصاف کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے 'عالمی مالیاتی نظام' کی طے کردہ 'لائن' پر اور ایسے کہ جیسے 'گلوبل ویلیج' میں عالمی نظام کے ہرکارے ایک ڈھول پیٹے جائیں اور ہم سب بس آنکھیں بند کیے اور اپنے سوچنے سمجھنے کے تمام امکانات پر قفل ڈالے اسی پر گام زن کیے جا رہے رہیں۔ ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ کہنا کہ گھر میں موجود عورتیں بے کار ہیں، کوئی درست عمل ہے۔۔۔؟ کیا یہ عمل 100 فی صد خواتین خانہ کی توہین اور ہتک نہیں ہے، جو صبح سے شام تک امور خانہ داری میں مصروف رہتی ہیں۔۔۔؟ کیوں کہ ہمارے سماج میں ہزاروں مرد تو ضرور بے کار دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں کوئی بھی عورت بے کار نہیں۔۔۔! کیا کبھی ہم نے ان گھریلو خواتین کی خدمات کو یاد کیا۔۔۔؟
کیا کوئی 'عالمی دن' ان گھریلو خواتین سے منسوب کیا گیا ہے۔۔۔؟ کیا کسی دن اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ دراصل ہماری 'مردوں کی دنیا' کو رواں دواں رکھنے والی دراصل یہی خواتین ہیں، جنھیں فَٹ دھنے سے ہر خاص وعام ''بے کار'' اور سماج کا 'عضوِ معطل' کہہ کر دھتکار دیتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے نہ اس کی زبان لرزتی ہے اور نہ قلم تھرتھراتا ہے کہ وہ آخر کیسی ظالمانہ اور بے رحمانہ بات کر رہا ہے!
یہ سب اس لیے ہے کہ چہار سو یہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ صرف وہی خاتون 'کام' کرتی ہے، جو براہ راست معاش کی جدوجہد سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہے! ہے ناں افسوس کی بات۔۔۔ چلیے ہم بھی کچھ دیر کے لیے سرمایہ دارنہ بے رحمی ہی سے سوچ لیتے ہیں کہ وہ خواتین جو ''بے کار'' ہیں، یعنی صرف گھر کے کام کاج ہی کرتی رہتی ہیں، جیسے بچوں کی دیکھ بھال اور ہنڈیا روٹی وغیرہ میں اپنا سارا دن بِتاتی ہیں، کیا واقعی وہ خواتین بے کار ہیں۔۔۔؟ کیا ہمارے آنے والے کل اور سماج کے مستقبل کی تربیت جیسا اہم کرنا۔
کیا یہ 'بے کاری' ہے۔۔۔؟ وہ اپنے بیٹے، بھائی، والد اور شوہر کو روزانہ معاش کی جدوجہد پر جانے کے لائق بنا رہی ہیں۔ کیا یہ بے کاری ہے۔۔۔؟ اِسے آپ کٹر سرمایہ دارنہ سوچ کے تحت بھی دیکھیے، تو یہ ایک فی صد بھی بے کاری نہیں ہے! کیوں کہ وہ بالواسطہ طور پر معاشی جدوجہد میں پوری طرح شامل ہو رہی ہیں۔۔۔! ایسی خواتین کو 'بے کار' کہنا بہت بے رحمانہ اور افسوس ناک فعل ہے۔ ایسی خواتین کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا کہ 'ہم ان کی تخلیقی اور معاشی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا رہے' نہایت ہی غیر منصفانہ اور غیر مناسب چلن ہے۔
ہاں، اگر وہ خواتین چاہیں تو کسی بھی قسم کی معاشی جدوجہد میں بھی حصہ لے سکتی ہیں، لیکن اگر وہ براہ راست حصہ نہ بھی لیں، تو اپنے گھر کے مردوں کے توسط سے وہ برابر اس معاشی جدوجہد میں ان کے ساتھ ساتھ ہی ہیں۔۔۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم یہ بات نہیں کرتے اور ایسی باتوں کا اظہار اتنا برا اور ناپسندیدہ بنا دیا گیا ہے کہ لوگ یہ سب محسوس بھی کریں، تب بھی کہنے سے کتراتے ہیں کہ لوگ کہیں گے، دیکھو اتنا پڑھا لکھا ہو کر کیسی ''جاہلانہ'' بات کر رہا ہے! ہمیں یہ رویے تبدیل کرنے چاہئیں۔
خواتین کے حقوق اور انصاف کی بات ضرور ہونی چاہیے، لیکن جیسی ہوا چلے اسی ہوا کے رخ پر اڑے چلے جانا اور جو راگ چل نکلے اسی کے سُر سے سُر ملائے چلے جانا بھی کوئی درست بات نہیں۔ جب اختلاف رائے اور مکالمے کی اتنی چرچا کی جاتی ہے، تو تحمل مزاجی سے ہمیں خود اپنی رائے بنانے اور اپنے ذہن اور عقل سلیم سے سوچنے سمجھنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ دوسرے نقطۂ نظر پر بھی تیوریاں چڑھانے اور منہ بنانے کے بہ جائے تھوڑا سا غور کر لینا چاہیے، یقیناً یہ امر خود ہمارے بھلے اور بہتری کا باعث ہوگا اور خواتین کے حقوق کا بھی صحیح معنوں میں محافظ ثابت ہوگا۔