فوجی عدالتیں فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا
فیصل صدیقی صاحب نے ملٹری کورٹس کے معاملے ہر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔
عدالتی عملے نے آگاہ کیا کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ کل ساڑھے گیارہ بجے سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم آپس میں مشاورت کرکے بتائیں گے، اگر 10 سے 15 منٹ میں مشاورتی عمل مکمل ہو گیا تو آگاہ کر دیں گے اور اگر مشاورتی عمل میں تاخیر ہوئی تو کل کے لیے آگاہ کر دیں گے۔
وکیل درخواست گزار فیصل صدیقی کے علاوہ دیگر تمام درخواست گزاران نے 6رکنی بینچ پر اعتماد کا اظہار کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے فل کورٹ کی مخالفت کر دی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اعتزاز احسن کی حمایت کرتا ہوں کہ اس کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت
قبل ازیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ کے سامنے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب نے ملٹری کورٹس کے معاملے ہر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے، ہم جواد ایس خواجہ کے وکیل کو سنے گے۔
وکیل درخواست گزار خواجہ حسین احمد نے کہا کہ میرے موکل سابق چیف جسٹس ہیں اور میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالت میرے ساتھ خصوصی برتاو کے بجائے عام شہری کی طرح کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ گوشہ نشین انسان ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی آئینی درخواست غیر سیاسی ہے، کیا فیصل صدیقی صاحب چھپ رہے ہیں۔ وکیل نے بتایا کہ وکیل فیصل صدیقی کمرہ عدالت سے باہر ہیں کچھ دیر میں آتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا کہ زیر حراست 7 ملزمان جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں جن میں سے 4 ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیا جبکہ 28 ملزمان نے کور کمانڈر ہاوس لاہور میں حملہ کیا۔ 5 ملزمان ملتان اور 10 ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں، 8ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد اور پانچ ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 14 ملزمان چکدرہ حلے میں ملوث ہیں، 7 ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا، 3 ملزمان ایبٹ آباد اور 10 ملزمان بنوں گریژن حملے میں ملوث ہیں، ایک ملزم آٸی ایس آٸی حمزہ کیمپ حملے میں ملوث ہے۔
انہوں نے دلائل میں کہا کہ زیر حراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی کیمرے اور دیگر شواہد کی بنیاد پر کی گئی، فوجی ٹرائل کا سامنا کرنے والے زیر حراست افراد سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی ہے، تحریری جواب میں پورا چارٹ ہے کتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، 102 افراد زیر حراست ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور شواہد کی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا، کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں داخل ہونے والے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، صرف 102 افراد کو گرفتار کیا گیا بہت احتیاط برتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ مجسٹریٹ کے آرڈر میں ملزمان کو ملٹری کورٹس بھیجنے کی وجوہات کا ذکر نہیں جبکہ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے ملزمان کے خلاف مواد کے نام پر صرف فوٹو گراف ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان سوالات پر پوری طرح تیار نہیں، ہمارے سامنے ابھی وہ معاملہ ہے بھی نہیں ہم نے معاملے کی آئینی حیشت کو دیکھنا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے ایک درخواست اپنے موکل کی طرف سے فل کورٹ کی دی ہے اس لیے ہم پہلے فیصل صدیقی کو سن لیتے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی کے دلائل
فیصل صدیقی نے فل کورٹ بینچ کے تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل شروع کیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بینچ پر جو اعتراضات اٹھائے گئے، ہماری درخواست کا اس سے تعلق نہیں اور پہلے میں واضح کروں گا کہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔ ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے میں تین وجوہات بیان کیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فوجی آمر پرویز مشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کر سکا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی۔ اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہوگی اور اٹارنی جنرل یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں کہ عدالت کے علم میں لائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ سیاست دانوں اور وزراء کی جانب سے عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے، جب اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہو تو فل کورٹ بنانی چاہیے اس لیے فل کورٹ کا بنایا جانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب ایف بی علی کیس میں ہے۔
سپریم کورٹ نے پہلے فل کورٹ تشکیل دینے کے متعلق درخواستوں کو سننے کا فیصلہ کرلیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے اگر ایک جج کیس سننے سے انکار کرے تو اسے وہ کیس سننے کا نہیں کہا جاسکتا ہے، عدالتی تاریخ میں ملٹری کورٹس کیسز فل کورٹ نے ہی سنے ہیں البتہ حکومت کا سپریم کورٹ کے لیے توہین آمیز رویہ ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ جن تین ججز کی آپ بات کر رہے ہیں انہوں نے ملٹری کورٹس کیس سننے سے انکار نہیں کیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جس انداز میں عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کا حل نکالنا چاہیے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا دیگر درخواست گزاران کا بھی یہی موقف ہے، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں صرف اپنی بات کر رہا ہوں، اگر کچھ ماہ کی تاخیر ہو جائے تو مسئلہ نہیں کیونکہ یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے، ہم باقی درخواست گزاروں کا موقف بھی سننا چاہتے ہیں۔
درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آگئے
اعتزاز احسن نے دلائل میں کہا کہ یہ سب میرے لیے حیران کن ہے کہ اس مرحلے پر آ کر بینچ کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے اور ہمیں اس بینچ پر مکمل اعتماد ہے، عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا اور دو ججوں کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ میں خود 1980 میں 80 دیگر وکلاء کے ساتھ گرفتار ہوا تھا، ہم مارشل لاء کے خلاف کھڑے ہوئے تھے دو ججز اٹھنے سے کوئی تنازعہ موجود نہیں، 102 افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ ہم نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر دو ججز بینچ چھوڑ گئے اور ایک پر اعتراض کیا گیا۔