نگران سیٹ اپ اور معاشی سرگرمیاں
آپ جتنا مرضی ا چھا وزیر اعظم لے آئیں، اگر اس کے پاس کابینہ میں اچھی ٹیم نہیں ہو گی، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا
نگران حکومت کے لیے ناموں کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سب جماعتیں اپنے اپنے نام دے رہی ہیں۔ قرعہ کس کے نام نکلے گا، جلد پتہ لگ جائے گا۔ لیکن حکومت صرف وزیر اعظم نہیں چلاتا جب کہ ہمارا سارا فوکس نگران وزیر اعظم کے نام پر ہے لیکن حکومت چلانے کے لیے ایک فعال کابینہ بھی ضروری ہے۔
آپ جتنا مرضی ا چھا وزیر اعظم لے آئیں، اگر اس کے پاس کابینہ میں اچھی ٹیم نہیں ہو گی، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اکیلا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ نگران حکومتوں کے حوالے سے آئین میں نگران وزیر اعلیٰ اور نگران وزیر اعظم لگانے کا آئینی طریقہ تو موجود ہے لیکن نگران کابینہ لگانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
ایک سیاسی جماعت کے پاس ایک ٹیم موجود ہوتی ہے، وہاں کابینہ بن جاتی ہے، ایک غیر سیاسی نگران وزیر اعلیٰ یا نگران وزیر اعظم سے یہ توقع رکھنا کہ وہ منصب سنبھالتے ہی کابینہ بھی بنا لیں گے، شاید درست نہیں۔ آئین میں نگران وزیروں کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی ہونا چاہیے۔ بہر حال ابھی جو ہے اس سے ہی گزارا کرنا ہے۔ اب تبدیلی کا کوئی وقت نہیں۔
بہر حال یہ بحث بھی اب دم تور گئی ہے کہ ملک کے معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ایک ماہر معیشت کو نگران وزیر عظم بنانا چاہیے۔
شاید اب یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ ماہر معیشت کو نگران وزیر اعظم بنایا جائے یا نہ بنایا جائے لیکن نگران حکومت میں ایک مضبوط معاشی ٹیم ہونی چاہیے۔
میرے لیے شاید یہ اہم نہیں کہ نگران وزیر اعظم کون ہوگا لیکن یہ اہم ہے کہ نگران وزیر اعظم کی معاشی ٹیم کونسی ہوگی۔ نگران حکومت میں وزیرخزانہ کون ہوگا۔ نگران حکومت میں وزیر خزانہ کی معاشی ٹیم کیا ہوگی۔ ایک مضبوط معاشی ٹیم کے بغیر نگران حکومت کا چلنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
پاکستان ایسے حالت میں ہے کہ ہم چار ماہ ضایع نہیں کر سکتے۔ چار ماہ ایک ماہر معاشی ٹیم کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ میں ماہر معیشت کے نگران وزیر اعظم بننے کے حق میں نہیں ہوں۔ کیونکہ وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر وقت معیشت کو ہی دیکھتا رہے۔
ہمیں معیشت کی دیکھ بھال کے لیے نگران حکومت میں ایک مضبوط معاشی ٹیم کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بہت سے کام جو سیاسی حکومت میں نہیں ہو سکتے، وہ نگران حکومت میں ہو سکتے ہیں۔ اس دلیل کو نگران حکومت کو لمبا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔
میری رائے میں پاکستان کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر اس وقت زیادہ موضوع بحت بنا ہوا ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری ایک مردہ سرمایہ کاری ہے جس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں، ا س سے نہ تو خاطر خواہ نوکریاں پیدا ہوتی ہیں اور نہ ہی معاشی سرگرمی ہوتی ہے۔ لہٰذا خوشحال لوگوں میں پلاٹ خریدنے کا رجحان ہے، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
لیکن دوسری طرف دلیل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی واحد سیکٹر جہاں سے بیرون ملک سر مایہ کاری آئی ہے اور آسکتی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے واحد آپشن ہے۔
بیرون ملک پاکستانی ابھی تو پاکستان میں صرف پلاٹ خرید کر ہی اپنا سرمایہ محفوظ سمجھتے ہیں۔اس لیے اگر ہم رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کریں گے تو بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کا آپشن ختم ہو جائے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ زمینوں اور پلاٹوں کی خرید وفروخت میں فراڈ بھی بہت ہیں۔ ملک میں ایسے فراڈ کو روکنے کے لیے کوئی موثر نظام اور قوانین بھی موجود نہیں ہیں۔
پلاٹوں کی خریدو فروخت پر ٹیکس بہت کم ہے۔ انھیں ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارے زیادہ تر معاشی ماہر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو معیشت کا اہم جزو سمجھتے ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کو اس سیکٹر کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہوتا۔ ان کا علم بھی میری طرح سطحی ہی ہوتا ہے، اسی لیے ہم نے دیکھا ہے کہ ہر دفعہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے بارے میں جو بھی ٹیکس اصلاحات کی جاتی ہیں۔
ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ کبھی زیادہ ٹیکس لگ جاتے ہیں اور سیکٹر بیٹھ ہی جاتا ہے، کبھی اتنے کم کر دیے جاتے ہیں کہ حکومت کو فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ کبھی ایمنسٹی دے دی جاتی ہے کبھی ٹیکس کو سخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے پاس اس سیکٹر کے لیے کوئی مربوط پالیسی نہیں پالیسی ہے۔
ہر دفعہ نیا تجربہ کیا جاتا ہے۔ اس کی شاید ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت میں کوئی رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ماہر موجود ہی نہیں ہوتا۔ ابھی حال ہی میں 7 Eڈیم اکم ٹیکس کے معاملہ میں جو اصلاحات کی گئی ہیں۔
اس نے عام آدمی کے لجئے مشکلا ت ہی پیدا کی ہیں۔ نان فائلر کی حد تک تو شاید یہ ٹیکس ٹھیک تھا لیکن فائلرز کوایگزمیشن لینے کے لیے جس مرحلہ سے گزرانے کا طریقہ کار بنایا گیا ہے، اس نے ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔ ایف بی آر میں بیٹھی افسر شاہی کو شاید اس سیکٹر کی مبادیات اور حرکایات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ نگران حکومت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک الگ مشیر برائے وزیر اعظم لگایا جائے جس کا تعلق اس ہی سے ہونا چاہیے۔ اسے اس شعبے میں ٹیکس اصلاحات کی سمجھ ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ بھی سمجھ آجانی چاہیے کہ روایتی معاشی ماہر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ٹیکنیکل شعبہ ہے جس کی مہارت الگ ہی ہے۔
ہم نے ٹیکس بھی لینا ہے اور اس سیکٹرکو بھی چلانا ہے۔ نگران حکومت میں ایک مشیر برائے رئیل اسٹیٹ سیکٹر تعنات کرنے اگر نتائج مثبت آگئے تو آگے یہ آگے بھی چلے گا لیکن آغاز نگران حکومت سے ہونا چاہیے۔ میں کسی کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ لیکن جنھوں نے لگانا ہے ان کے لیے مناسب امیدوار ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں۔
آپ جتنا مرضی ا چھا وزیر اعظم لے آئیں، اگر اس کے پاس کابینہ میں اچھی ٹیم نہیں ہو گی، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اکیلا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ نگران حکومتوں کے حوالے سے آئین میں نگران وزیر اعلیٰ اور نگران وزیر اعظم لگانے کا آئینی طریقہ تو موجود ہے لیکن نگران کابینہ لگانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
ایک سیاسی جماعت کے پاس ایک ٹیم موجود ہوتی ہے، وہاں کابینہ بن جاتی ہے، ایک غیر سیاسی نگران وزیر اعلیٰ یا نگران وزیر اعظم سے یہ توقع رکھنا کہ وہ منصب سنبھالتے ہی کابینہ بھی بنا لیں گے، شاید درست نہیں۔ آئین میں نگران وزیروں کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی ہونا چاہیے۔ بہر حال ابھی جو ہے اس سے ہی گزارا کرنا ہے۔ اب تبدیلی کا کوئی وقت نہیں۔
بہر حال یہ بحث بھی اب دم تور گئی ہے کہ ملک کے معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ایک ماہر معیشت کو نگران وزیر عظم بنانا چاہیے۔
شاید اب یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ ماہر معیشت کو نگران وزیر اعظم بنایا جائے یا نہ بنایا جائے لیکن نگران حکومت میں ایک مضبوط معاشی ٹیم ہونی چاہیے۔
میرے لیے شاید یہ اہم نہیں کہ نگران وزیر اعظم کون ہوگا لیکن یہ اہم ہے کہ نگران وزیر اعظم کی معاشی ٹیم کونسی ہوگی۔ نگران حکومت میں وزیرخزانہ کون ہوگا۔ نگران حکومت میں وزیر خزانہ کی معاشی ٹیم کیا ہوگی۔ ایک مضبوط معاشی ٹیم کے بغیر نگران حکومت کا چلنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
پاکستان ایسے حالت میں ہے کہ ہم چار ماہ ضایع نہیں کر سکتے۔ چار ماہ ایک ماہر معاشی ٹیم کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ میں ماہر معیشت کے نگران وزیر اعظم بننے کے حق میں نہیں ہوں۔ کیونکہ وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر وقت معیشت کو ہی دیکھتا رہے۔
ہمیں معیشت کی دیکھ بھال کے لیے نگران حکومت میں ایک مضبوط معاشی ٹیم کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بہت سے کام جو سیاسی حکومت میں نہیں ہو سکتے، وہ نگران حکومت میں ہو سکتے ہیں۔ اس دلیل کو نگران حکومت کو لمبا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔
میری رائے میں پاکستان کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر اس وقت زیادہ موضوع بحت بنا ہوا ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری ایک مردہ سرمایہ کاری ہے جس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں، ا س سے نہ تو خاطر خواہ نوکریاں پیدا ہوتی ہیں اور نہ ہی معاشی سرگرمی ہوتی ہے۔ لہٰذا خوشحال لوگوں میں پلاٹ خریدنے کا رجحان ہے، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
لیکن دوسری طرف دلیل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی واحد سیکٹر جہاں سے بیرون ملک سر مایہ کاری آئی ہے اور آسکتی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے واحد آپشن ہے۔
بیرون ملک پاکستانی ابھی تو پاکستان میں صرف پلاٹ خرید کر ہی اپنا سرمایہ محفوظ سمجھتے ہیں۔اس لیے اگر ہم رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کریں گے تو بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کا آپشن ختم ہو جائے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ زمینوں اور پلاٹوں کی خرید وفروخت میں فراڈ بھی بہت ہیں۔ ملک میں ایسے فراڈ کو روکنے کے لیے کوئی موثر نظام اور قوانین بھی موجود نہیں ہیں۔
پلاٹوں کی خریدو فروخت پر ٹیکس بہت کم ہے۔ انھیں ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارے زیادہ تر معاشی ماہر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو معیشت کا اہم جزو سمجھتے ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کو اس سیکٹر کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہوتا۔ ان کا علم بھی میری طرح سطحی ہی ہوتا ہے، اسی لیے ہم نے دیکھا ہے کہ ہر دفعہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے بارے میں جو بھی ٹیکس اصلاحات کی جاتی ہیں۔
ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ کبھی زیادہ ٹیکس لگ جاتے ہیں اور سیکٹر بیٹھ ہی جاتا ہے، کبھی اتنے کم کر دیے جاتے ہیں کہ حکومت کو فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ کبھی ایمنسٹی دے دی جاتی ہے کبھی ٹیکس کو سخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے پاس اس سیکٹر کے لیے کوئی مربوط پالیسی نہیں پالیسی ہے۔
ہر دفعہ نیا تجربہ کیا جاتا ہے۔ اس کی شاید ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت میں کوئی رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ماہر موجود ہی نہیں ہوتا۔ ابھی حال ہی میں 7 Eڈیم اکم ٹیکس کے معاملہ میں جو اصلاحات کی گئی ہیں۔
اس نے عام آدمی کے لجئے مشکلا ت ہی پیدا کی ہیں۔ نان فائلر کی حد تک تو شاید یہ ٹیکس ٹھیک تھا لیکن فائلرز کوایگزمیشن لینے کے لیے جس مرحلہ سے گزرانے کا طریقہ کار بنایا گیا ہے، اس نے ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔ ایف بی آر میں بیٹھی افسر شاہی کو شاید اس سیکٹر کی مبادیات اور حرکایات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ نگران حکومت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک الگ مشیر برائے وزیر اعظم لگایا جائے جس کا تعلق اس ہی سے ہونا چاہیے۔ اسے اس شعبے میں ٹیکس اصلاحات کی سمجھ ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ بھی سمجھ آجانی چاہیے کہ روایتی معاشی ماہر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ٹیکنیکل شعبہ ہے جس کی مہارت الگ ہی ہے۔
ہم نے ٹیکس بھی لینا ہے اور اس سیکٹرکو بھی چلانا ہے۔ نگران حکومت میں ایک مشیر برائے رئیل اسٹیٹ سیکٹر تعنات کرنے اگر نتائج مثبت آگئے تو آگے یہ آگے بھی چلے گا لیکن آغاز نگران حکومت سے ہونا چاہیے۔ میں کسی کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ لیکن جنھوں نے لگانا ہے ان کے لیے مناسب امیدوار ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں۔