آئی ایم ایف معاہدہ سیکھنے کو بہت کچھ ہے

آیندہ ایسی گمبھیر صورت حال پیدا ہوگی یا نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا

zahedahina@gmail.com

آئی ایم ایف معاہدے کے بعد ڈیفالٹ کا فوری خطرہ ٹل چکا ہے، آیندہ ایسی گمبھیر صورت حال پیدا ہوگی یا نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ اگر مضبوط عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے انقلابی ادارہ جاتی معاشی اصلاحات کر لی جائیں تو کم از کم دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوبارہ بچا جانا ممکن ہے۔

اس حوالے سے آنے والے چھ ماہ فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے حامی کم اور مخالفین زیادہ ہیں۔ یہ دونوں حلقے، اپنے نکتہ نظر کے حق میں جو مضبوط دلائل رکھتے ہیں، ان سے زیادہ تر لوگ آگاہ ہیں۔ تاہم، اس امر کی جانب بھی غور کرنا چاہیے کہ اس پروگرام کو بحال کرانے کی اذیت ناک جدوجہد کے دوران کون سے نئے اور غیر متوقع حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں بعض حقائق درج ذیل ہیں۔

1۔ ہم اپنی غلط معاشی پالیسیوں کے ذریعے معیشت کو بحران کا شکار کرتے ہیں اور جب صورتحال بے قابو ہونے لگتی ہے تو ہم مختلف عالمی مالیاتی اداروں کے در پر جا کھڑے ہوتے ہیں جن میں آئی ایم ایف سر فہرست ہوتا ہے۔

2۔ مذکورہ بالا عالمی مالیاتی ادارے کا ہنگامی پروگرام چونکہ جاں بہ لب معیشتوں کے لیے وینٹی لیٹر کا کام کرتا ہے لہٰذا متاثرہ معیشت کی زندگی بچانے کی خاطر مشکل شرائط اور معاشی و مالیاتی اصلاحات کی شکل میں کئی'' ادویات'' تجویز کر دی جاتی ہیں۔

اس نسخے کو کیسے استعمال کرنا ہے، اس کے لیے ایک نظام اوقات کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل معیشت کے لیے تو شاید بہتر ہو لیکن سیاسی طور پر حکمرانوں کے لیے سخت تکلیف دہ ہوتا ہے۔

3۔ ہماری حکومتیں معاشی دباؤ سے نکلنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ انھیں مشکل شرائط کے سیاسی اثرات کا پہلے سے اندازہ ہوتا ہے لیکن وہ معاہدہ کر لیتی ہیں۔

پہلے مرحلے پر جو رقم ملتی ہے اس سے دباؤ میں کمی آتی ہے تاہم، افراط زر، مہنگائی، بیروزگاری اور کساد بازاری جیسے ضمنی اثرات سے سیاسی مقبولیت میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونے لگتی ہے جس سے گھبرا کر حکومتیں پروگرام پر مزید عملدرآمد کے حوالے سے پس و پیش کا مظاہرہ لگتی ہیں۔

اس کے جواب میں یہ مالیاتی ادارہ قسطوں کا اجرا روک دیتا ہے جس سے متاثرہ ملک دوبارہ تیزی سے نادہندگی کی قریب جانے لگتا ہے اور اس کی عالمی مالی ساکھ بھی خراب ہو جاتی ہے۔

اس پس منظر میں جب آئی ایم ایف سے ایک بار پھر رجوع کرنا پڑتا ہے تو اس کا رویہ پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اس کی جانب سے مزید سخت شرائط رکھ دی جاتی ہیں جن کے سامنے حکومتوں کو بالاخر ہتھیار ڈالنے پڑ جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہم اسی نوعیت کی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔

4۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال کرانے کے حالیہ کرب ناک عمل سے گزرنے کے دوران، ہمیں ایک ایسا تجربہ ہوا جو ہمارے لیے بالکل نیا تھااور جس کے ماضی میں ہم کبھی عادی نہیں رہے تھے۔


جب ہم نے عالمی مالیاتی ادارے کے مطالبے پر زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کی غرض سے دوست ملکوں سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی ہمیں ان سے توقع تھی۔ ان کی جانب سے فوری نقد رقم دینے کے بجائے قرضوں کو رول اور، کر کے ہماری مدد کی گئی اور یہ کہا گیا آئی ایم ایف سے معاہدے ہونے کے بعد وہ مالی اعانت اور سرمایہ کاری کریں گے۔

اس امر سے یہ نئی حقیقت اجاگر ہوئی ہے کہ ہمیں اب اپنی پرانی نفسیات بدلنی ہوگی۔ وہ دن گنے جا چکے جب دوست ملک مدد کے نام پر ہماری کفالت کیا کرتے تھے۔

ان دنوں عالمی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ دوست ملکوں کے اپنے مسائل ہیں جن کا ہمیں بھی ادراک کرنا ہوگا۔ ان کی سیاسی اور تجارتی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے یہی مناسب ہے کہ ہم ان کو غیر ضروری امتحان میں نہ ڈالیں وگرنہ پہلے مرحلے میں، رواداری کا سرد مہری اور بعد ازاں، دوری میں تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

4۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ معیشت کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے سے گریز اب بہت ضروری ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعت یا جماعتیں اگر اقتدار میں آنا چاہتی ہیں تو ان میں درست وقت پر مشکل فیصلے کرنے اور اس کے عوض اپنی سیاسی مقبولیت کو داؤ پر لگانے کی ہمت بھی ہونی چاہیے۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ مشکل فیصلوں کا نقصان عارضی ہوتا ہے جب کہ اس کے فوائد دور رس ہوا کرتے ہیں۔

حکومتیں عالمی اداروں اور ملکوں سے ایسے معاہدے اور وعدے نہ کیا کریں جن پر وہ عمل نہ کر سکیں لیکن وہ اگر ایسا کر لیں تو پھر ہر قیمت پر انھیں پورا کریں۔

بنیادی مذاکرات معاہدوں سے پہلے کیے جاتے ہیں، جب کوئی معاہدہ طے پا جائے تو اس پر عملدرآمد میں لیت و لعل سے ہرگز کام نہیں لینا چاہیے۔ اس طرز عمل سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اور مستقبل میں اس کے بڑے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔

یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے حکومتیں ہر حال میں عوام کو اعتماد میں لیں اور ایسا کرنے سے گھبرانا چھوڑ دیں۔ عوام کو بتانا چاہیے تھا کہ ملک کی حقیقی معاشی صورتحال کیا ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا کیوں ضروری تھا۔ لوگوں کے سامنے عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کھل کر رکھنے کی ضرورت تھی۔

یہ بھی صاف طور پر بتانا چاہیے تھا کہ ان شرائط پر عمل درآمد سے عوام پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے اور انھیں کب تک مشکل برداشت کرنی پڑے گی۔ اس بات کو بتانا تھا کہ بحران سے نکلنے کی قیمت کیا صرف عوام ادا کریں گے یا اشرافیہ اور سرکاری ادارے بھی کوئی قربانی دیں گے؟

5۔ ملک جس مشکل دور سے گزر رہا ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ناگزیر ہو گئی ہے۔

معاشرے کے تمام طبقات اور اہم آئینی ادارے یہ عہد کریں کہ وہ اپنے محدود اور مخصوص مفادات کے لیے ملک اور اس کے عوام کے مفادات کو کسی قیمت پر قربان نہیں کریں گے اور کوئی بھی ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرے گا۔

ممکن ہے کئی لوگ اس بات کو ناقابل عمل خواہش قرار دیں لیکن سچ یہی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی اس قدر مشکل بحالی کے تجربے کے بعد اب اس کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے۔ اس تجربے کی روشنی میں ہمارے لیے سیکھنے کو بہت ہے، اگر ہم کچھ سیکھنا چاہیں۔
Load Next Story