لاہور چڑیا گھر بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کیلیے وائلڈ لائف متحرک
جنگلی جانوروں اور پرندوں کو لوہے کے تنگ پنجروں میں رکھنے والے چڑیا گھروں کے روایتی تصور کو بدلنا ہوگا
نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی ہدایات پرلاہور چڑیا گھر کی اپ گریڈیشن اور اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے پنجاب وائلڈلائف حکام نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔
دوسری طرف جنگی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنیوالے اداروں کا کہنا ہے جنگلی جانوروں اور پرندوں کو لوہے کے تنگ پنجروں میں رکھنے والے چڑیا گھروں کے روایتی تصور کو بدلنا ہوگا، سفاری زو کی طرز پر چڑیاگھروں کی تعمیر کی ضرورت ہے۔
وزیراعلی پنجاب نے پنجاب وائلڈلائف کو ہدایات دی ہیں کہ لاہور زو سمیت صوبے کے دیگر اہم چڑیا گھروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے جس پر وائلڈلائف حکام نے مختلف تجاویز پر مشاورت شروع کر دی ہے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے فیصل آباد سے آئی ایک فیملی کا کہنا تھا چڑیا گھر واقعی خوبصورت ہے تاہم یہاں ہاتھی کی کمی محسوس ہوتی ہے، شیروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، انتظامیہ کو چاہیے کہ شیروں کی تعداد کم کرکے دیگر جانور لائے جائیں۔
ایک خاتون سیاح حفصہ فیاض کا کہنا تھا جنگلی جانوروں اور پرندوں کو اس طرح پنجروں میں بند نہیں کرنا چاہیے۔ چڑیا گھر تفریح کے ساتھ ریسرچ اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بریڈنگ کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے جانوروں کو پنجروں میں رکھا جاتا ہے۔
نیشنل الائنس آف اینیمل رائٹس ایڈوکیٹ اینڈ ایکٹویسٹ (نارا) کی فوکل پرسن عنیزہ خان عمرزئی نے کہا اب ہمیں لوہے کے پنجروں سے بنائے گئے چڑیا گھروں کے روایتی تصور سے باہرنکلنا ہوگا۔ حکومت اگر انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانا چاہتی ہے تو پھر سفاری کی طرز پر چڑیا گھر بنائے جائے جہاں جانوروں اور پرندوں کو پنجروں کی بجائے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ کھلے ماحول اور انکلوژر میں رکھا جائے۔
دوسری طرف لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر عظیم ظفر نے کہا کہ دنیا بھر میں چڑیا گھروں کے اندر سیاحوں اور جانوروں کے درمیان فاصلہ کم سے کم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ قریب سے جانوروں کے رہن سہن اور ان کے برتاؤ کو دیکھ سکیں لیکن ہمارے یہاں پنجروں کا نظام ہے جو اب بدل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چڑیا گھر کو بین الاقوامی معیارکے مطابق بنانے کے لیے جن اہم تجاویز پر کام ہورہا ہے ان میں لائن اور ٹائیگر ہاؤس کے پنجروں کو ختم کرکے لوہے کی سلاخوں کی جگہ موٹا شیشہ لگایا جائیگا اسی طرح پرندوں کو بھی پنجروں سے نکال کر برڈ ایوری میں رکھا جائیگا جبکہ فش ایکوریم کی بھی تجویز ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چڑیا گھروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے صرف انفراسٹرکچر میں تبدیلی کافی نہیں ہے بلکہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی ٹریننگ بھی کرنا ہوگی۔ اس وقت چڑیا گھروں کے کیپر مڈل اور میٹرک پاس ہیں جبکہ لاہور چڑیا گھر کا آدھے سے زیادہ عملہ ڈیلی ویجز پر کام کررہا ہے۔
دوسری طرف جنگی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنیوالے اداروں کا کہنا ہے جنگلی جانوروں اور پرندوں کو لوہے کے تنگ پنجروں میں رکھنے والے چڑیا گھروں کے روایتی تصور کو بدلنا ہوگا، سفاری زو کی طرز پر چڑیاگھروں کی تعمیر کی ضرورت ہے۔
وزیراعلی پنجاب نے پنجاب وائلڈلائف کو ہدایات دی ہیں کہ لاہور زو سمیت صوبے کے دیگر اہم چڑیا گھروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے جس پر وائلڈلائف حکام نے مختلف تجاویز پر مشاورت شروع کر دی ہے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے فیصل آباد سے آئی ایک فیملی کا کہنا تھا چڑیا گھر واقعی خوبصورت ہے تاہم یہاں ہاتھی کی کمی محسوس ہوتی ہے، شیروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، انتظامیہ کو چاہیے کہ شیروں کی تعداد کم کرکے دیگر جانور لائے جائیں۔
ایک خاتون سیاح حفصہ فیاض کا کہنا تھا جنگلی جانوروں اور پرندوں کو اس طرح پنجروں میں بند نہیں کرنا چاہیے۔ چڑیا گھر تفریح کے ساتھ ریسرچ اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بریڈنگ کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے جانوروں کو پنجروں میں رکھا جاتا ہے۔
نیشنل الائنس آف اینیمل رائٹس ایڈوکیٹ اینڈ ایکٹویسٹ (نارا) کی فوکل پرسن عنیزہ خان عمرزئی نے کہا اب ہمیں لوہے کے پنجروں سے بنائے گئے چڑیا گھروں کے روایتی تصور سے باہرنکلنا ہوگا۔ حکومت اگر انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانا چاہتی ہے تو پھر سفاری کی طرز پر چڑیا گھر بنائے جائے جہاں جانوروں اور پرندوں کو پنجروں کی بجائے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ کھلے ماحول اور انکلوژر میں رکھا جائے۔
دوسری طرف لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر عظیم ظفر نے کہا کہ دنیا بھر میں چڑیا گھروں کے اندر سیاحوں اور جانوروں کے درمیان فاصلہ کم سے کم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ قریب سے جانوروں کے رہن سہن اور ان کے برتاؤ کو دیکھ سکیں لیکن ہمارے یہاں پنجروں کا نظام ہے جو اب بدل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چڑیا گھر کو بین الاقوامی معیارکے مطابق بنانے کے لیے جن اہم تجاویز پر کام ہورہا ہے ان میں لائن اور ٹائیگر ہاؤس کے پنجروں کو ختم کرکے لوہے کی سلاخوں کی جگہ موٹا شیشہ لگایا جائیگا اسی طرح پرندوں کو بھی پنجروں سے نکال کر برڈ ایوری میں رکھا جائیگا جبکہ فش ایکوریم کی بھی تجویز ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چڑیا گھروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے صرف انفراسٹرکچر میں تبدیلی کافی نہیں ہے بلکہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی ٹریننگ بھی کرنا ہوگی۔ اس وقت چڑیا گھروں کے کیپر مڈل اور میٹرک پاس ہیں جبکہ لاہور چڑیا گھر کا آدھے سے زیادہ عملہ ڈیلی ویجز پر کام کررہا ہے۔