انتخابی اصلاحات دھاندلی کے کم امکانات
جب بھی نئے انتخابات کا وقت آتا ہے انتخابی اصلاحات کا شور مچ جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اپنا کام موجودہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے صرف پندرہ دن پہلے مکمل کیا۔
پارلیمنٹ نے بہت مختصر سی بحث کے بعد انتخابی اصلاحات کا قانون منظور کیا۔ اس قانون میں ایک طرف تو نگراں حکومت کو زیادہ اختیار دیا گیا، یوں نگراں حکومت کے اختیارات تقریباً منتخب حکومت کے اختیارات کے برابر ہوگئے ہیں مگر انتخابی اصلاحات میں اس ترمیم کے علاوہ کچھ اور اہم ترامیم بھی منظور کی گئی ہیں۔
اس قانون کے تحت پریزائیڈنگ افسر کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر صورت رات 2 بجے تک وہ انتخابی نتائج ریٹرننگ افسر کے حوالے کرنے کا پابند ہوگا۔
پریزائیڈنگ افسر فارم 45 کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسرکو واٹس ایپ کے ذریعہ بھیجے گا، اگر پریزائیڈنگ افسر کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوگی تو وہ ذاتی طور پر انتخابی نتیجہ فارم 45 ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچائے گا۔
پریزائیڈنگ افسر کو ہر صورت پولنگ کے دوسرے دن صبح 10 بجے تک انتخابی نتیجہ ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچانا ہوگا۔ اس قانون میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی نتائج اگر دیر سے ریٹرننگ افسر کے پاس بھیجے گئے تو متعلقہ افسر کو اس التواء کی ٹھوس وجہ بتانی ہوگی ،ورنہ پریزائیڈنگ افسر کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اب نئے قانون میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مقدمہ کا فیصلہ پندرہ دن کے بجائے سات دن میں ہوگا۔
اس قانون میں یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ حلقوں میں ووٹروں کی تعداد میں فرق پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا، تاہم جہاں ضرورت ہوگی تو یہ فرق دس فیصد تک ہوسکتا ہے۔ یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ پولنگ کے دن سے پانچ دن قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں ہونگے۔ پولنگ کے عملہ کا جس تحصیل سے تعلق ہوگا اس کی ڈیوٹی اس تحصیل میں نہیں لگائی جائے گی۔
اس قانون میں امیدواروں کی سہولت کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے سے موجودہ بینک اکاؤنٹ کو انتخابی رقوم کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
انتخابی اصلاحات کے قانون میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر فرائض انجام دیں گے مگر ضرورت کے تحت سیکیورٹی اہلکار کو پولنگ اسٹیشن میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔
قانون میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ امیدوار کی جانب سے دائر پٹیشن پر الیکشن ٹریبونل 180 دن میں فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا اور انٹر پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2لاکھ روپے جرمانہ کرسکتا ہے۔
ان انتخابی اصلاحات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ماضی میں ہونے والے انتخابات کی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ اب تک جتنے انتخابات منعقد ہوئے ان میں ایک اہم مسئلہ دیر سے انتخابی نتائج کے اعلان کا تھا۔ عمومی طور پر جب انتخابات ہوتے تھے تو حیرت انگیز طور پر دور دراز علاقوں کے نتائج فوری طور پر الیکشن کمیشن کو ملنے لگتے تھے مگر بڑے شہروں مثلاً کراچی اور لاہور وغیرہ کے نتائج کا اعلان بہت دیر سے ہوتا تھا۔
90ء کی دہائی میں ہونے والے انتخابا ت میں کراچی کے اکثر نتائج کا اعلان24گھنٹوں بعد ہوا جب کہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں اور سابقہ قبائلی علاقوں کے نتائج فورا آنے لگے۔ یوں کراچی میں 2018کے انتخابات میں نتائج نہ آنے کی بناء پر رات گئے ہجوم کے احتجاج کی شکل سامنے آئی تھی۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور اس کا عملہ انتخابی نتائج میں التواء کی کئی تاویلیں دیتا تھا۔
گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے امیدواروں کے ایجنٹوں نے شکایت کی تھی کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت انھیں پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا۔ پولنگ کے عملہ نے تمام فارمز پر جعلی اندراج کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ 2018 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مکمل استعمال کیا تھا۔
فوری نتائج کے حصول کے لیے آر ٹی ایس کا طریقہ کار رائج کیا گیا۔ پریزائیڈنگ افسروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ انتخابی نتائج فوری طور پر الیکشن کمیشن کو واٹس ایپ پر روانہ کریں گے۔ اس مقصد کے لیے پریزائیڈنگ افسروں کو خصوصی تربیت دی گئی تھی مگر ملک کے پولنگ اسٹیشنوں پر فرائض انجام دینے والے 90 فیصد پریزائیڈنگ افسر نتائج فوری طور پر واٹس ایپ پر روانہ کرنے میں ناکام رہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کی فور ی طور پر کوئی وضاحت نہیں کی تھی، مگر کچھ اخبارات میں یہ رپورٹ شایع ہوئیں کہ نادرا کا ڈیٹابیس سسٹم بند ہوگیا تھا۔ نادرا نے فوری طور پر وضاحت کی تھی کہ اس کا سسٹم مکمل طور پر کام کررہا تھا اور سسٹم میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی تھی۔
ایک اخباری رپورٹ شایع ہوئی کہ کچھ ''نامعلوم'' کرداروں نے پریزائیڈنگ افسروں کو دھمکیاں دی تھی کہ وہ فوری طور پر نتائج الیکشن کمیشن نہ بھیجیں۔ کچھ حلقوں کے نامعلوم کرداروں کو ''محکمہ زراعت'' کے اہلکاروں کا کارنامہ قرار دیا گیا تھا، یوں یہ الزام درست نظر آنے لگا کہ انتخابات میں بڑے پیمانہ پر دھاندلی ہوئی ہے۔
کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی قومی اسمبلی کے انتخابات کو کورکرنے والے صحافیوں کا الزام تھا کہ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں شہباز شریف کو طے شدہ منصوبے کے تحت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جب حزب اختلاف نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تو پارلیمنٹ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی مگر تحریک انصاف نے اس کمیٹی کا اجلاس ہی نہیں بلایا۔ تحریک انصاف کی قیادت اب بھی گزشتہ انتخابات میں آر ٹی ایس کی اچانک معطلی کے بارے میں کوئی ٹھوس وضاحت نہیں کرتی۔ اس قانون میں ایک اور شق پولنگ کے عملہ کی ان کی اپنی تحصیل میں تقرری پر پابندی عائد کرنے کی ہے۔
انتخابات کی شفافیت میں انتخابی عملہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ برسرِ اقتدار حکومت کے منتخب اراکین اساتذہ اور دیگر عملہ کے تقرر میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔
یوں ایک طرف اپنے ووٹروں کو روزگار دلا کر اپنا انتخابی وعدہ پورا کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھرتی ہونے والے افراد انتخابی عملہ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ یہ انتخابی اصلاحات کے قانون کی اس شق میں یہ پابندی اہم ہے کہ سرکاری اہلکار کا جس تحصیل سے تعلق ہوگا وہ اپنی تحصیل میں انتخابی فرائض انجام نہیں دے گا۔
انتخابی دھاندلی میں ایک معاملہ پولنگ آفس کے قیام کا بھی ہوتا تھا۔ الیکشن کمیشن پر بڑا دباؤ ہوتا تھا کہ پولنگ اسٹیشن بااثر افراد کی تجویز پر قائم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پولنگ والے دن تک پولنگ اسٹیشن میں تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔
پولنگ اسٹیشن کسی گنجان آباد علاقہ کے وسط میں قائم اسکول میں بنا دیے جاتے تھے، یوں ووٹروں کے لیے پولنگ اسٹیشن تلاش کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔ بعض اوقات آبادی سے دور کسی سنسان جگہ پر پولنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے تھے، یوں پانچ دن پہلے پولنگ اسٹیشن کے قریب الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کی ویب سائٹ پر آویزاں ہونے پر ہر شخص کو پولنگ اسٹیشن کا پتہ چل جائے گا۔ اس دفعہ الیکشن کمیشن پانچ دن قبل پولنگ اسٹیشن کی فہرست کے اجراء کا فیصلہ شفاف انتخابات کے حوالے سے اہم ہے۔
ضابطہ انتخابات کی خلاف ورزی پر شکایت پر فیصلہ کی مدت ایک ہفتہ کرنے سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ قانون انتخابات میں دھاندلیوں کو روکنے کے حوالے سے بھی اہم ہے ، اگر اس قانون پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوا تو انتخابات شفافیت کے بین الاقوامی معیار کے قریب ہو جائیں گے۔
پارلیمنٹ نے بہت مختصر سی بحث کے بعد انتخابی اصلاحات کا قانون منظور کیا۔ اس قانون میں ایک طرف تو نگراں حکومت کو زیادہ اختیار دیا گیا، یوں نگراں حکومت کے اختیارات تقریباً منتخب حکومت کے اختیارات کے برابر ہوگئے ہیں مگر انتخابی اصلاحات میں اس ترمیم کے علاوہ کچھ اور اہم ترامیم بھی منظور کی گئی ہیں۔
اس قانون کے تحت پریزائیڈنگ افسر کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر صورت رات 2 بجے تک وہ انتخابی نتائج ریٹرننگ افسر کے حوالے کرنے کا پابند ہوگا۔
پریزائیڈنگ افسر فارم 45 کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسرکو واٹس ایپ کے ذریعہ بھیجے گا، اگر پریزائیڈنگ افسر کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوگی تو وہ ذاتی طور پر انتخابی نتیجہ فارم 45 ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچائے گا۔
پریزائیڈنگ افسر کو ہر صورت پولنگ کے دوسرے دن صبح 10 بجے تک انتخابی نتیجہ ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچانا ہوگا۔ اس قانون میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی نتائج اگر دیر سے ریٹرننگ افسر کے پاس بھیجے گئے تو متعلقہ افسر کو اس التواء کی ٹھوس وجہ بتانی ہوگی ،ورنہ پریزائیڈنگ افسر کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اب نئے قانون میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مقدمہ کا فیصلہ پندرہ دن کے بجائے سات دن میں ہوگا۔
اس قانون میں یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ حلقوں میں ووٹروں کی تعداد میں فرق پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا، تاہم جہاں ضرورت ہوگی تو یہ فرق دس فیصد تک ہوسکتا ہے۔ یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ پولنگ کے دن سے پانچ دن قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں ہونگے۔ پولنگ کے عملہ کا جس تحصیل سے تعلق ہوگا اس کی ڈیوٹی اس تحصیل میں نہیں لگائی جائے گی۔
اس قانون میں امیدواروں کی سہولت کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے سے موجودہ بینک اکاؤنٹ کو انتخابی رقوم کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
انتخابی اصلاحات کے قانون میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر فرائض انجام دیں گے مگر ضرورت کے تحت سیکیورٹی اہلکار کو پولنگ اسٹیشن میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔
قانون میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ امیدوار کی جانب سے دائر پٹیشن پر الیکشن ٹریبونل 180 دن میں فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا اور انٹر پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2لاکھ روپے جرمانہ کرسکتا ہے۔
ان انتخابی اصلاحات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ماضی میں ہونے والے انتخابات کی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ اب تک جتنے انتخابات منعقد ہوئے ان میں ایک اہم مسئلہ دیر سے انتخابی نتائج کے اعلان کا تھا۔ عمومی طور پر جب انتخابات ہوتے تھے تو حیرت انگیز طور پر دور دراز علاقوں کے نتائج فوری طور پر الیکشن کمیشن کو ملنے لگتے تھے مگر بڑے شہروں مثلاً کراچی اور لاہور وغیرہ کے نتائج کا اعلان بہت دیر سے ہوتا تھا۔
90ء کی دہائی میں ہونے والے انتخابا ت میں کراچی کے اکثر نتائج کا اعلان24گھنٹوں بعد ہوا جب کہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں اور سابقہ قبائلی علاقوں کے نتائج فورا آنے لگے۔ یوں کراچی میں 2018کے انتخابات میں نتائج نہ آنے کی بناء پر رات گئے ہجوم کے احتجاج کی شکل سامنے آئی تھی۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور اس کا عملہ انتخابی نتائج میں التواء کی کئی تاویلیں دیتا تھا۔
گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے امیدواروں کے ایجنٹوں نے شکایت کی تھی کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت انھیں پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا۔ پولنگ کے عملہ نے تمام فارمز پر جعلی اندراج کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ 2018 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مکمل استعمال کیا تھا۔
فوری نتائج کے حصول کے لیے آر ٹی ایس کا طریقہ کار رائج کیا گیا۔ پریزائیڈنگ افسروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ انتخابی نتائج فوری طور پر الیکشن کمیشن کو واٹس ایپ پر روانہ کریں گے۔ اس مقصد کے لیے پریزائیڈنگ افسروں کو خصوصی تربیت دی گئی تھی مگر ملک کے پولنگ اسٹیشنوں پر فرائض انجام دینے والے 90 فیصد پریزائیڈنگ افسر نتائج فوری طور پر واٹس ایپ پر روانہ کرنے میں ناکام رہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کی فور ی طور پر کوئی وضاحت نہیں کی تھی، مگر کچھ اخبارات میں یہ رپورٹ شایع ہوئیں کہ نادرا کا ڈیٹابیس سسٹم بند ہوگیا تھا۔ نادرا نے فوری طور پر وضاحت کی تھی کہ اس کا سسٹم مکمل طور پر کام کررہا تھا اور سسٹم میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی تھی۔
ایک اخباری رپورٹ شایع ہوئی کہ کچھ ''نامعلوم'' کرداروں نے پریزائیڈنگ افسروں کو دھمکیاں دی تھی کہ وہ فوری طور پر نتائج الیکشن کمیشن نہ بھیجیں۔ کچھ حلقوں کے نامعلوم کرداروں کو ''محکمہ زراعت'' کے اہلکاروں کا کارنامہ قرار دیا گیا تھا، یوں یہ الزام درست نظر آنے لگا کہ انتخابات میں بڑے پیمانہ پر دھاندلی ہوئی ہے۔
کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی قومی اسمبلی کے انتخابات کو کورکرنے والے صحافیوں کا الزام تھا کہ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں شہباز شریف کو طے شدہ منصوبے کے تحت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جب حزب اختلاف نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تو پارلیمنٹ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی مگر تحریک انصاف نے اس کمیٹی کا اجلاس ہی نہیں بلایا۔ تحریک انصاف کی قیادت اب بھی گزشتہ انتخابات میں آر ٹی ایس کی اچانک معطلی کے بارے میں کوئی ٹھوس وضاحت نہیں کرتی۔ اس قانون میں ایک اور شق پولنگ کے عملہ کی ان کی اپنی تحصیل میں تقرری پر پابندی عائد کرنے کی ہے۔
انتخابات کی شفافیت میں انتخابی عملہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ برسرِ اقتدار حکومت کے منتخب اراکین اساتذہ اور دیگر عملہ کے تقرر میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔
یوں ایک طرف اپنے ووٹروں کو روزگار دلا کر اپنا انتخابی وعدہ پورا کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھرتی ہونے والے افراد انتخابی عملہ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ یہ انتخابی اصلاحات کے قانون کی اس شق میں یہ پابندی اہم ہے کہ سرکاری اہلکار کا جس تحصیل سے تعلق ہوگا وہ اپنی تحصیل میں انتخابی فرائض انجام نہیں دے گا۔
انتخابی دھاندلی میں ایک معاملہ پولنگ آفس کے قیام کا بھی ہوتا تھا۔ الیکشن کمیشن پر بڑا دباؤ ہوتا تھا کہ پولنگ اسٹیشن بااثر افراد کی تجویز پر قائم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پولنگ والے دن تک پولنگ اسٹیشن میں تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔
پولنگ اسٹیشن کسی گنجان آباد علاقہ کے وسط میں قائم اسکول میں بنا دیے جاتے تھے، یوں ووٹروں کے لیے پولنگ اسٹیشن تلاش کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔ بعض اوقات آبادی سے دور کسی سنسان جگہ پر پولنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے تھے، یوں پانچ دن پہلے پولنگ اسٹیشن کے قریب الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کی ویب سائٹ پر آویزاں ہونے پر ہر شخص کو پولنگ اسٹیشن کا پتہ چل جائے گا۔ اس دفعہ الیکشن کمیشن پانچ دن قبل پولنگ اسٹیشن کی فہرست کے اجراء کا فیصلہ شفاف انتخابات کے حوالے سے اہم ہے۔
ضابطہ انتخابات کی خلاف ورزی پر شکایت پر فیصلہ کی مدت ایک ہفتہ کرنے سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ قانون انتخابات میں دھاندلیوں کو روکنے کے حوالے سے بھی اہم ہے ، اگر اس قانون پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوا تو انتخابات شفافیت کے بین الاقوامی معیار کے قریب ہو جائیں گے۔