بورژوا جمہوریت کو خطرات

jamilmarghuz1@gmail.com

کارل مارکس نے کہاتھا کہ بورژوا جمہوریت ایک دن 'عوام کے مسائل حل کرنے میںناکام ہوگی۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت موجودہ نام نہاد جمہوری نظام سے مایوس ہے 'طاقتور اسٹیبلشمنٹ 'بیورو کریسی، عدلیہ، مذہبی انتہاپسند گروپوں اور بالاتر طبقوں نے جمہوریت کو مذاق بنارکھا ہے'منتخب وزراء اعظم جو جمہوری نظام کا مرکزی ستون ہوتے ہیں۔

ان کو اس طرح نکال دیا جاتا ہے جیسے کوئی چور گھر میں گھس آیا ہو' چپڑاسی کو نکالنے کے لیے شوکاز نوٹس سے لے کر سپریم کورٹ تک کے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں لیکن وزیر اعظم تو موم کی ناک ہوتی ہے 'لات مار کر نکال دیا جاتا ہے۔

غربت اور بے روزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے 'ہمارے پالیسی سازوں نے ڈالروں کے شوق میں جہاد افغانستان برپا کردیا'جس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں ۔

اب آہستہ آہستہ کارل مارکس کے نظریات (جدلیاتی مادیت 'تاریخی مادیت 'سرپلس ویلیو'اور پولیٹیکل اکانومی)جو سائنسی بنیادوں پر استوار ہیں' سچ ثابت ہورہی ہیں 'چونکہ ان کے نظریات کی بنیاد ٹھوس سائنسی بنیادوں پر استوار ہیں' اس لیے آخر میں انھی نظریات نے فتح مند ہونا ہے 'سرمایہ داری کے چار سو سالہ تاریخ نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ یہ نظام انسانوں کے مسائل حل نہیں کرسکتاہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی انسانی استحصال پر قائم ہے۔

اب سرمایہ داری کے دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے لگے ہیں کہ کارل مارکس کی سوچ صحیح تھی 'صحیح سوچ کو کسی بھی طریقے سے ختم نہیں کیا جاسکتا، اگر وقتی طور پر وہ زیر زمین چلا بھی جائے تو جلد پھر سر اٹھا لیتا ہے 'کسی نے سچ کہا ہے کہ ''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے''۔


مارکس نے وارننگ دی تھی کہ سرمایہ داری کے آخری مرحلوں میں ' ملٹی نیشنل کارپوریشنز عالمی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کرلیںگی۔ سرمایہ دار پوری دنیا میں منافع کا تعاقب کرتا ہے۔ یہ کارپوریشنیں خواہ بینکنگ سیکٹر 'زراعت اور خوراک کے شعبے 'اسلحہ کے سیکٹر یا مواصلات کی صنعت میں ہوں۔

ریاستی ڈھانچے پر قبضہ کرکے اپنی طاقت کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرتی ہیں 'جس کی وجہ سے ان کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا 'وہ اپنی مصنوعات کی زیادہ منافع والی قیمت مقرر کرتی ہیں'وہ تجارتی معاہدوں کے ذریعے جیسے کہ TPPاور CAFTA ۔کو استعمال کرتے ہوئے 'قومی ریاست کو کمزور کردیتی ہیں تاکہ وہ استحصال کو روکنے کے قابل نہ رہیں'اس مقصد کے لیے یہ لوگ مختلف حربے استعمال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔

جیسے کہ ماحولیاتی ضابطوں کا استعمال یا کام کے حالات کار'اور آخر میں یہ کارپوریشنیں ان حربوں کے ذریعے فری مارکیٹ کے تصور اور مقابلے کی فضاء کی دھجیاں اڑا دیتی ہیں۔آج سرمایہ داری نظام نے اپنی تمام قدریں ختم کر دی ہیں۔

آزادی 'جمہوریت' انصاف' سیکولرزم' تجارت میں مقابلہ اور قومی آزادی جیسے 'خوشنمانعروں اور اصولوں پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی گئی تھی ' غریب اور پسماندہ ملکوں کی آزادی اور قومی خود مختاری کو جس طرح روندا جا رہا ہے۔جمہوریت کا جنازہ تو ہم پاکستانی کئی دفعہ اپنے کندھوں پر اٹھا چکے ہیں۔

کیونکہ ہر آمریت کی حمایت سرمایہ دار ممالک کرتے رہے ہیں'سیکولر سرمایہ داری نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے دنیا کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے 'تجارت میں منصفانہ مقابلے کو ختم کرکے اجارہ داریاں قائم کردیں گئیں'اسی لیے تو مارکس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ سرمایہ داری' جب خاتمے کے قریب پہنچے گی تو ان تمام قدروں اور بنیادوں کو ختم کردے گی جن پر اس کا ڈھانچہ ایستادہ ہے۔

عام خیال یہ ہے کہ دنیا روز بروز بہتری کی طرف گامزن ہے 'ترقی پذیر اور پسماندہ سماج ترقی یافتہ ہوتے جارہے ہیں'دنیا میںغربت اور مصائب میں کمی آتی جا رہی ہے 'یہ آج عام خیال ہے اور عام لوگوںکے علاوہ دانشور وں کی ایک بڑی تعداد بھی اس پریقین رکھتی ہے ۔
Load Next Story