آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی …
لوجی! پٹرول کے نرخ بھی بڑھا دیے گئے ہیں، بجلی پہلے ہی زورکا جھٹکا مار چکی ہے، منی بجٹ بھی آچکا ہے، ٹیکس 'ڈیوٹی اور سرچارج سمیت جتنے بھی چارج ہیں' وہ عوام پر عائد کیے جا چکے ہیں لیکن سرکار کا پیٹ اب بھی خالی ہے۔
وہ عوام کو مخاطب کر کے گنگنا رہی ہے ' مینوں نوٹ وکھا ' میرا موڈ بنے۔ آپ ہی بتائیں !بچارے عوام نوٹ کہاں سے لائیں 'وہ تو جیسے ہوش کھو بیٹھے ہیں، وہ تو غالب کے اس شعر کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ویسے آپس کی بات ہے' رونے دھونے سے پتھر کا صنم کبھی موم نہیں ہوتا' ہمارے حکمران اور ان کے ناک'کان بنے ہوئے وزیر مشیرہم سے کہیں زیادہ قابل اور ذہین ہیں' عوام خصوصاً مڈل کلاس اپنی جمع پونجی کو جتنا مرضی چھپا لیں' ہمارے پالیسی ساز اسے ڈھونڈ نکالنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ میں اور آپ لٹ گئے ' مر گئے کی دہائی دیتے رہتے ہیں اورنیفے اور جرابوں میں چھپائے ہوئے پیسے بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
پٹرول مہنگا ہے ' لیکن پٹرول ڈلوانے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ بجلی کرنٹ مار رہی ہے ' لیکن اے سی کولر ریکارڈ توڑ فروخت ہو رہے ہیں' ایسا لگتا ہے کہ عوام ڈکیتی کی عادی ہو چکی ہے ' یہی وجہ ہے کہ وہ ڈکیت کو دیکھ کر صرف یہ کہتی ہے ' بھائی! کہ اب کی بار بس اتنا ہی ہے'جب ڈکیت وصولی کرکے چلا جاتا ہے تو ہم ہائے دہائی کرتے ہیں اور پھر معمولات زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
بجلی پٹرول کی مہنگائی کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے جھٹکیں تو دیکھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا ہے۔بہاولپور یونیورسٹی کی بچیوںکے ساتھ جو کچھ ہوا ہے' اگر ایسا چین ' امریکا ' یورپ یا سعودی عرب میں ہوا ہوتا تو مجرموں کا انجام کیا ہوتا' اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس پر کوئی اینکر' کوئی تجزیہ نگار ٹی وی اسکرین پر بات نہیں کرتا' ٹاک شوز کے پروڈیوسرز ہوں' اینکرز یا تجزیہ کار سب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔اسی معاشرے کی اخلاقیات ان کے بھی حصے میں آئی ہیں' سیدھی سی بات ہے کہ جب ملک کی سیاسی قیادت ' سرکاری مشینری ' عدلیہ ' علماء و مشائخ 'اہل علم اور شاعر و ادیب چین کی بانسری بجائیں گے تو میڈیا بھی ویسی ہی بانسری بجائے گا۔جن کے ساتھ زیادتی ہونی تھی' وہ ہو گئی'اب آگے مٹی پاؤ کا کھیل شروع ہے۔
اس کو بھی چھوڑ دیں دہشت گردی کے ایشو کو ہی لے لیں' دہشت گردوں نے کون سا وہ ظلم ہے جو نہیں کیا' ہمارے اسکول کے بچوں اور ان کی خاتون اساتذہ کو گولیاں مار کر چھلنی کر دیا گیا' ہم چپ رہے' اب باجوڑ میں 50سے زیادہ شہادتیں ہوئیں' اب بھی ہم خاموش ہیں۔اب میں آگے کیا بات کروں'باتیں تو لسی کی طرح ہوتی ہیں' جیسے لسی میں جتنا پانی ڈالیں' بڑھتی جاتی ہے' اسی طرح باتیں بھی جتنی چاہو کرتے رہو 'یہ ختم نہیں ہو سکتیں۔
سرکار اپنا کام پورا کر رہی ہے 'آپ نے دیکھا نہیں 'سرکاری افسروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے ' پنجاب میں افسروں کے لیے زیرو میٹر گاڑیاں خریدی گئی ہیں 'وزیراعظم اور وزراء اس حبس زدہ گرم موسم میں بھی پینٹ کوٹ پہنے اجلاس کرتے ہیں' کیا کسی محتاج اور فقرے ملک کے حکمران ایسے بن سنور کر آئی ایم ایف کے حکام سے ملتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب تو اب بھی فرماتے ہیں کہ ہم نے بجٹ میں عوام کو بڑا ریلیف دیا ہے ' ریلیف کیا ہوتا ہے ' اس کا انھیں ہی پتہ ہو گا ' ہم جسے ریلیف سمجھتے ہیں ' وہ تو کہیں نظر نہیں آتا ۔میں تو صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ بڑے لوگوں کی باتیں بڑی ہوتی ہیں۔
رعایا کو ان باتوں کا علم نہیں ہو تا ۔امور مملکت اور رموز مملکت کی باریکیاں اور نزاکتیں بڑے لوگوں کو ہی زیبا دیتی ہیں۔چلیں ' آپ کو غالب کا ایک اور شعر سناتے ہیں 'یہ حکمرانوں اور رعایا کے فرق کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
ہاں وہ نہیں خدا پرست 'جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
پاکستان میںساٹھ فیصد زرعی اراضی کے مالک صرف پانچ فیصد زمیندار ہیں۔ حکومت کی دریا دلی کی بدولت یہ پانچ فیصدطبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔
ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دارطبقہ آٹے، گھی، چینی'دودھ اور صابن وغیرہ پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی ادا کر تا ہے۔ یہ طبقہ ضروریات زندگی کی ہر شے پران ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ اپنی زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کرگزارتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگی کو پر آسائش بنانے کے لیے ایک غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔
تنخواہ دار طبقہ جو بظاہر تین وقت کھاتا ہے۔ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے لیکن مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ ملک کے غریب اور درمیانے طبقے طاقتور اور امیر طبقوں سے زیادہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہوں گے لیکن اس کے بدلے میں انھیں ذلت اور رسوائی ملتی ہے۔
ریاست اس کے بچوں کو ڈھنگ کی تعلیم فراہم نہیں کرتی، انھیںبیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں طاقتور اور امیر اس قدر بے حس اور ناشکرا ہے کہ کروڑوں اربوں کا مالک ہونے کے باوجود اپنے لیے پروٹوکول مانگتا ہے۔ میں ایسے کئی صاحب ثروت افراد کو جانتا ہوں' جو اخبار بھی مفت میں مانگتے ہیں۔
ان کے لیے غیرمعمولی ڈسکاؤنٹ بھی حاضر ہوتا ہے' ایئرپورٹ پر قوانین سے ہٹ کر پروٹوکول مل جاتا ہے' بینکوں سے قرضے لیں تو بھی معاف ہو جاتے ہیں' بڑے سرکاری افسروں کے گھروں میں دھڑلے سے سرکاری گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں ' دفتروں کے مالی' چپڑاسی اور ڈرائیور ورغیرہ صاحب لوگوں کے گھروں میں ڈیوٹی کرتے ہیں' صاحب کے لوگوں کے بچوں کو اسکول اور کالج چھوڑنا ' صاحب لوگوں کی اہلیہ محترمہ کو کہیں ڈراپ کرنا ہو تو سرکاری گاڑی اور ڈرائیور حاضر ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے رپورٹ جاری کی تھی اور بتایا تھا کہ پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات کا حجم کئی ارب ڈالر ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر سب سے زیادہ مراعات حاصل کر رہا ہے۔ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ ان پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔بڑے جاگیردارکل آبادی کا ایک فی صد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فی صدکے مالک ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان میںجاگیرداروں' کارپوریٹ مالکان کی نمایندگی سب سے زیادہ ہے۔ روحانی گدی نشین اور دینی شخصیات بھی ان کی حمایت کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی سرکاری سبسڈیز اور مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب طبقات کو ملنے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں۔
میرا خیال ہے کہ آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ میں کیا بقراتی کر رہا ہوں 'اس لیے عزت اسی میں ہے کہ آپ کے صبر کا امتحا ن نہ لوں اور اپنے قلم کو خاموشی سے دراز میں رکھ لوں۔
وہ عوام کو مخاطب کر کے گنگنا رہی ہے ' مینوں نوٹ وکھا ' میرا موڈ بنے۔ آپ ہی بتائیں !بچارے عوام نوٹ کہاں سے لائیں 'وہ تو جیسے ہوش کھو بیٹھے ہیں، وہ تو غالب کے اس شعر کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ویسے آپس کی بات ہے' رونے دھونے سے پتھر کا صنم کبھی موم نہیں ہوتا' ہمارے حکمران اور ان کے ناک'کان بنے ہوئے وزیر مشیرہم سے کہیں زیادہ قابل اور ذہین ہیں' عوام خصوصاً مڈل کلاس اپنی جمع پونجی کو جتنا مرضی چھپا لیں' ہمارے پالیسی ساز اسے ڈھونڈ نکالنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ میں اور آپ لٹ گئے ' مر گئے کی دہائی دیتے رہتے ہیں اورنیفے اور جرابوں میں چھپائے ہوئے پیسے بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
پٹرول مہنگا ہے ' لیکن پٹرول ڈلوانے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ بجلی کرنٹ مار رہی ہے ' لیکن اے سی کولر ریکارڈ توڑ فروخت ہو رہے ہیں' ایسا لگتا ہے کہ عوام ڈکیتی کی عادی ہو چکی ہے ' یہی وجہ ہے کہ وہ ڈکیت کو دیکھ کر صرف یہ کہتی ہے ' بھائی! کہ اب کی بار بس اتنا ہی ہے'جب ڈکیت وصولی کرکے چلا جاتا ہے تو ہم ہائے دہائی کرتے ہیں اور پھر معمولات زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
بجلی پٹرول کی مہنگائی کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے جھٹکیں تو دیکھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا ہے۔بہاولپور یونیورسٹی کی بچیوںکے ساتھ جو کچھ ہوا ہے' اگر ایسا چین ' امریکا ' یورپ یا سعودی عرب میں ہوا ہوتا تو مجرموں کا انجام کیا ہوتا' اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس پر کوئی اینکر' کوئی تجزیہ نگار ٹی وی اسکرین پر بات نہیں کرتا' ٹاک شوز کے پروڈیوسرز ہوں' اینکرز یا تجزیہ کار سب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔اسی معاشرے کی اخلاقیات ان کے بھی حصے میں آئی ہیں' سیدھی سی بات ہے کہ جب ملک کی سیاسی قیادت ' سرکاری مشینری ' عدلیہ ' علماء و مشائخ 'اہل علم اور شاعر و ادیب چین کی بانسری بجائیں گے تو میڈیا بھی ویسی ہی بانسری بجائے گا۔جن کے ساتھ زیادتی ہونی تھی' وہ ہو گئی'اب آگے مٹی پاؤ کا کھیل شروع ہے۔
اس کو بھی چھوڑ دیں دہشت گردی کے ایشو کو ہی لے لیں' دہشت گردوں نے کون سا وہ ظلم ہے جو نہیں کیا' ہمارے اسکول کے بچوں اور ان کی خاتون اساتذہ کو گولیاں مار کر چھلنی کر دیا گیا' ہم چپ رہے' اب باجوڑ میں 50سے زیادہ شہادتیں ہوئیں' اب بھی ہم خاموش ہیں۔اب میں آگے کیا بات کروں'باتیں تو لسی کی طرح ہوتی ہیں' جیسے لسی میں جتنا پانی ڈالیں' بڑھتی جاتی ہے' اسی طرح باتیں بھی جتنی چاہو کرتے رہو 'یہ ختم نہیں ہو سکتیں۔
سرکار اپنا کام پورا کر رہی ہے 'آپ نے دیکھا نہیں 'سرکاری افسروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے ' پنجاب میں افسروں کے لیے زیرو میٹر گاڑیاں خریدی گئی ہیں 'وزیراعظم اور وزراء اس حبس زدہ گرم موسم میں بھی پینٹ کوٹ پہنے اجلاس کرتے ہیں' کیا کسی محتاج اور فقرے ملک کے حکمران ایسے بن سنور کر آئی ایم ایف کے حکام سے ملتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب تو اب بھی فرماتے ہیں کہ ہم نے بجٹ میں عوام کو بڑا ریلیف دیا ہے ' ریلیف کیا ہوتا ہے ' اس کا انھیں ہی پتہ ہو گا ' ہم جسے ریلیف سمجھتے ہیں ' وہ تو کہیں نظر نہیں آتا ۔میں تو صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ بڑے لوگوں کی باتیں بڑی ہوتی ہیں۔
رعایا کو ان باتوں کا علم نہیں ہو تا ۔امور مملکت اور رموز مملکت کی باریکیاں اور نزاکتیں بڑے لوگوں کو ہی زیبا دیتی ہیں۔چلیں ' آپ کو غالب کا ایک اور شعر سناتے ہیں 'یہ حکمرانوں اور رعایا کے فرق کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
ہاں وہ نہیں خدا پرست 'جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
پاکستان میںساٹھ فیصد زرعی اراضی کے مالک صرف پانچ فیصد زمیندار ہیں۔ حکومت کی دریا دلی کی بدولت یہ پانچ فیصدطبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔
ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دارطبقہ آٹے، گھی، چینی'دودھ اور صابن وغیرہ پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی ادا کر تا ہے۔ یہ طبقہ ضروریات زندگی کی ہر شے پران ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ اپنی زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کرگزارتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگی کو پر آسائش بنانے کے لیے ایک غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔
تنخواہ دار طبقہ جو بظاہر تین وقت کھاتا ہے۔ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے لیکن مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ ملک کے غریب اور درمیانے طبقے طاقتور اور امیر طبقوں سے زیادہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہوں گے لیکن اس کے بدلے میں انھیں ذلت اور رسوائی ملتی ہے۔
ریاست اس کے بچوں کو ڈھنگ کی تعلیم فراہم نہیں کرتی، انھیںبیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں طاقتور اور امیر اس قدر بے حس اور ناشکرا ہے کہ کروڑوں اربوں کا مالک ہونے کے باوجود اپنے لیے پروٹوکول مانگتا ہے۔ میں ایسے کئی صاحب ثروت افراد کو جانتا ہوں' جو اخبار بھی مفت میں مانگتے ہیں۔
ان کے لیے غیرمعمولی ڈسکاؤنٹ بھی حاضر ہوتا ہے' ایئرپورٹ پر قوانین سے ہٹ کر پروٹوکول مل جاتا ہے' بینکوں سے قرضے لیں تو بھی معاف ہو جاتے ہیں' بڑے سرکاری افسروں کے گھروں میں دھڑلے سے سرکاری گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں ' دفتروں کے مالی' چپڑاسی اور ڈرائیور ورغیرہ صاحب لوگوں کے گھروں میں ڈیوٹی کرتے ہیں' صاحب کے لوگوں کے بچوں کو اسکول اور کالج چھوڑنا ' صاحب لوگوں کی اہلیہ محترمہ کو کہیں ڈراپ کرنا ہو تو سرکاری گاڑی اور ڈرائیور حاضر ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے رپورٹ جاری کی تھی اور بتایا تھا کہ پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات کا حجم کئی ارب ڈالر ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر سب سے زیادہ مراعات حاصل کر رہا ہے۔ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ ان پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔بڑے جاگیردارکل آبادی کا ایک فی صد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فی صدکے مالک ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان میںجاگیرداروں' کارپوریٹ مالکان کی نمایندگی سب سے زیادہ ہے۔ روحانی گدی نشین اور دینی شخصیات بھی ان کی حمایت کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی سرکاری سبسڈیز اور مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب طبقات کو ملنے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں۔
میرا خیال ہے کہ آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ میں کیا بقراتی کر رہا ہوں 'اس لیے عزت اسی میں ہے کہ آپ کے صبر کا امتحا ن نہ لوں اور اپنے قلم کو خاموشی سے دراز میں رکھ لوں۔