کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
عمران خان کا اصلی المیہ یہ ہے کہ موصوف نے جب کل وقتی سیاست کا ارادہ باندھا تو بہت سارے گفتار کے غازی ان کے ۔۔۔
عمران خان کا اصلی المیہ یہ ہے کہ موصوف نے جب کل وقتی سیاست کا ارادہ باندھا تو بہت سارے گفتار کے غازی ان کے اتالیق بننے کے جنون میں مبتلا ہو گئے۔ ان سب کا خیال تھا کہ کرکٹ کا یہ سپر اسٹار ایک بھولا بھالا انسان ہے۔ لوگوں سے فاصلہ رکھتا ہے۔ انگریزی میڈیم ہے اور ہماری سیاست کی باریکیوں اور حرکیات سے ناواقف۔ گفتار کے ان غازیوں کو اپنی ذہانتوں کے بھرپور اطلاق کے ذریعے عمران خان میں سے ایک ''لیڈر نکالنا'' ہو گا۔ جنرل ضیاء کے طویل دورِ اقتدار میں مستقل سیکریٹری اطلاعات رہنے والے جنرل مجیب الرحمن ہمیشہ اس بات پر بضد رہے کہ وہ میڈیا کے استعمال کے ذریعے نفسیاتی جنگ لڑنے کے بہت بڑے ماہر ہیں۔
مرحوم کی یہ ''مہارت'' مگر اس وقت ان کے کوئی کام نہ آئی جب محمد خان جونیجو نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان فرما دیا کہ ''مارشل لاء اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے''۔ ان دنوں پاکستانیوں کو خبریں صرف پاکستان ٹیلی وژن کے خبرنامے کے ذریعے ملاکرتی تھیں۔ نو بجے کا خبرنامہ اس حوالے سے سب سے اہم مانا جاتا تھا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کی ٹی وی Coverage دیکھنے کے لیے اپنے گھر میں موجود ٹی وی سیٹ کو On کیا تھا تو نو بجے کے خبرنامے میں ان کے مارشل لاء والے اعلان کا ذکر نہ تھا۔ گرین فون اٹھا کر انھوں نے وجوہات جانیں اور فوری طور پر جنرل صاحب کو OSD بنانے کا حکم صادر فرما دیا۔
مجیب صاحب نے سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر ٹکے رہنے کے لیے جنرل ضیاء تک پہنچنا چاہا۔ وہ مگر ان کی ''درد بھری داستان'' سننے کو بھی تیار نہ ہوئے۔ جونیجو مرحوم کے بعد کئی وزیر اعظم آئے اور گھر بھیج دیے گئے۔ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی مجیب الرحمن صاحب کی مہارتوں سے فائدہ نہ اٹھانا چاہا۔ اپنی صلاحیتوں کی ناقدری کے ان دنوں میں بالآخر انھوں نے عمران خان کا بیرم خان بن جانے کی ٹھان لی اور میرے جیسے صحافیوں کو مسلسل اس بات پر قائل کرتے رہے کہ بالآخر پاکستان کے چمن میں ایک ''دیدہ ور'' پیدا ہو گیا ہے۔ جنرل صاحب اپنے دریافت کردہ ''دیدہ ور'' کی اُڑان سے پہلے ہی مگر اس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ مگر ہمارے ہاں ان کے بعد 24/7 چینلز آ گئے اور ان کے راتوں رات Celebrity بنے اینکرز۔ ان اینکرز کی اکثریت بہت دیر تک عمران خان کو نظرانداز کرتی رہی۔
مگر پھر لاہور میں اکتوبر 2011والا جلسہ ہو گیا۔ ہمارے اینکرز کو نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی ''باریوں'' والی بات بہت پسند آئی۔ ان کی اکثریت دل و جان سے عمران خان کو ایک نئی Product کے طور پر Launch کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں مشغول ہو گئی۔ ٹیلی وژن کی اسکرین پر میں بھی آتا ہوں۔ ذات کا مگر رپورٹر ہوں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ شدید قنوطی بھی ہو رہا ہوں۔ پھر مرحوم عباس اطہر کے حکم کی تعمیل میں یہ کالم لکھنا بھی شروع ہو گیا۔ شاہ صاحب نے مجھے اپنی ''ذرا ہٹ کے بات'' کرنے کی عادت بھی وراثت کے طور پر دینے کی شفقت فرمارکھی تھی۔ سنجیدگی سے عمران خان کی سیاست کا جائزہ لیتے ہوئے ''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیںآئی '' والا ورد کرنا شروع ہو گیا۔
میرے ورد کا جواب ٹویٹر اور فیس بک پر بہت ''نفیس اور شائستہ'' الفاظ اور تصویروں سے ملا۔ میں اس کے ردعمل میں مزید ضدی اور قنوطی ہو گیا۔ میرے عمران خان کی سیاست کے بارے میں اس بہت ہی عیاں رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت سے قارئین نے ای میل وغیرہ کے ذریعے فرمائش کی ہے کہ میں اس کالم میں 11 مئی کو عمران خان کی جانب سے چلائی تحریک کا تجزیہ لکھوں۔ میں لیکن خوب جانتا ہوں کہ ایسے پیغامات بھیجنے والوں کو ''تجزیے'' سے زیادہ ''چسکے'' کی تلاش ہے۔ فرمائشی کالم لکھنے کی مجھے عادت بھی نہیں۔ ویسے بھی عمران خان کا اب اپنے چند جید ''اتالیقوں'' سے پنجابی والا ''متھا'' لگ چکا ہے۔ بہتر ہے کونے میں بیٹھ کر تماشہ دیکھوں وہ بھی غالبؔ کی طرح ''ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا'' والے رویے کے ساتھ۔
ویسے بھی گزشتہ ہفتے کی شب میں ایک کھانے پر موجود تھا۔ وہاں دو ایسے افراد بھی مدعو تھے جن کا دھندا اور پیشہ ورانہ مہارت پاکستان کی برآمدات سے متعلق ہے۔ وہ دونوں اس بات پر اسحاق ڈار صاحب سے بہت ناراض تھے کہ ڈالر کی قدر کو ہر صورت پاکستانی سو روپوں سے کم رکھنے کے جنون میں ہمارے ضدی اور محنتی وزیرخزانہ نے ملک کے غیر ملکی منڈیوں میں مال بیچنے والے کاروباری حضرات کا ''کباڑہ'' کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان اس ضمن میں سوتی کپڑے سے بنی مصنوعات برآمد کرنے والے محسوس کر رہے ہیں۔
بجلی کے بحران کی وجہ سے وہ پہلے سے ملے Orders کے مطابق اشیاء تیار کرنے میں بہت دقت محسوس کر رہے تھے۔ بجلی کی مسلسل فراہمی کے بغیر وہ مزید آرڈرز والی طلب کو پورا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اپنی موجودہ صلاحیت کے عین مطابق پہلے سے موجود Orders کو پورا کرنا انھیں جُوئے شِیر لانے کے مترادف دِکھ رہا ہے اور اس کے ساتھ مزید یہ دُکھ کہ اب ان کی برآمدات کی پاکستانی روپوں میں قدر بڑھنے کے بجائے گھٹ چکی ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں۔
میں اقتصادی معاملات کے بارے میں تقریباََ جاہل واقعہ ہوا ہوں۔ سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ نواز شریف صاحب کی Core Constituency صنعت کار اور تاجر حضرات ہیں۔ موصوف وسطی پنجاب کے اصلی تے وڈے نمایندے بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوتی کپڑے اور اس کی مصنوعات کے اصل مرکز فیصل آباد کے صنعت کار ڈالر کی قدر کم ہونے پر پریشان ہیں تو ڈالر کی کم قیمت کے بارے میں دوسرے کونسے صنعت کار خوش ہیں۔ میری طرح کے عام آدمی کو 98 یا 99 روپے کے بدلے ایک ڈالر ملنے کی حقیقت سے کوئی فائدہ ہوتا اپنی روزمرہّ زندگی میں تو محسوس نہیں ہو رہا۔ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟