کراچی اہلخانہ کی موجودگی میں نامعلوم شخص گھر کے سربراہ کو قتل کرکے فرار
اہلیہ نے ملزم کو فرار ہوتے دیکھا، جس نے چہرہ ڈھانپ رکھا تھا، شبہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پولیس نے تحقیقات شروع کردی
کورنگی کے علاقے میں اہل خانہ کی موجودگی میں نامعلوم شخص گھر کے سربراہ کو چھری کے وار سے قتل کرکے فرار ہوگیا۔
پولیس کے مطابق بھٹائی آباد میں بیوی اور تین بچوں کی موجودگی میں گھر کے سربراہ کو گلے اور سینے پر چھری کے وار کرکے قتل کردینا ایک معما ہے، ملزم گھر کے اندر کیسے داخل ہوا، باآسانی فرار بھی ہوگیا ۔اہلیہ نے ملزم کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا تاہم چہرہ نہ دیکھ سکی۔ بہت جلد اس معمے کو انویسٹی گیشن پولیس حل کر لے گی۔
زمان ٹاؤن کے علاقے کورنگی بھٹائی کالونی شمیم مسجد کے قریب مکان نمبر F/92 میں تیز دھار آلے کے وار سے قتل کیے گئے شخص کی لاش پک اپ میں ڈال کر کورنگی میں واقع انڈس اسپتال لے جائی گئی، جہاں سے موت کی تصدیق کے بعد پولیس کارروائی کے لیے ایمبولینس کے ذریعے لاش کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔
ترجمان کراچی پولیس کے مطابق مقتول کی شناخت 41 سالہ مبشر اقبال ولد محمد اکبر کے نام سے کی گئی ، جس کے چھوٹے بھائی مظفر اقبال نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مبشر اقبال کے 3 بیٹے ہیں ، اور بڑے بیٹے کی عمر 13 سال ہے۔ مبشر گھروں میں رنگ و روغن اور فرنیچر پر پالش کا کام کرتا تھا جب کہ آبائی تعلق پنجاب کے علاقے ساہیوال سے تھا، گزشتہ 30 سال سے زائد عرصہ سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں ۔
مقتول کا بڑا بھائی جاوید اقبال فوڈ انسپکٹر ہے جو پہلے کراچی میں تھا، تاہم اب اس نے اپنا تبادلہ لاہور کروا لیا ہے۔ واقعے سے متعلق مظفر اقبال نے مزید بتایا کہ وہ دونوں بھائی ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ بدھ کی شب تقریباً 8 بجے وہ کام سے واپس آئے تھے۔ دونوں کی رہائش ایک ہی عمارت میں الگ الگ گھر میں ہے۔ دونوں اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔
رات تقریباً 12 بجے جب وہ اپنے موبائل فون میں مصروف تھا کہ شور شرابے کی آواز سنائی دی، جس پر اس نے باہر کی طرف دیکھا تو اسے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ دوبارہ اسے اپنی بھابھی کی چیخ و پکار سنائی دی، جس وہ فوری طور پر بالائی منزل پر واقع بھائی کے گھر پہنچا تو دروازے کی باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر جب اندر کمرے میں گیا تو اس کا بھائی چارپائی سے گر کر فرش پر خون میں لت پٹ پڑا تھا ۔
انہوں نے بتایا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے فوری طور پر قریبی رہائشی اپنے بھانجے علی کو فون کر کے بلایا ۔ علی نے ایکسپریس کو بتایا کہ جب وہ اپنے ماموں مبشر اقبال کے گھر پہنچا تو ماموں خون میں لت پت پڑے تھے۔ اس نے گراؤنڈ فلو پر رہنے والے کچھ لڑکوں کو بلایا تو وہ نہیں آئے۔
اسی دوران اس نے ایمبولینس بلائی جو آدھے گھنٹے تک نہیں پہنچی۔ بعد ازاں اس کے چھوٹے ماموں نے مبشر اقبال کو چادر میں لٹا کر بمشکل نیچے پہنچایا اور نجی سوزوکی پک میں ڈال کر اسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی موت واقع ہوچکی ہے ۔
مظفر اقبال نے بتایا کہ واقعے کے وقت بھائی کمرے میں چارپائی پر اور بھابھی بچے صحن میں سوئے ہوئے تھے ۔اس کی بھابھی نے اسے بتایا کہ اس نے ایک ملزم کو گھر سے باہر بھاگتے ہوئے دیکھا، جس نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا ۔
زمان ٹاؤن پولیس نے مقتول کی لاش پولیس کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دی ۔ پولیس کو قتل کے معاملے پر شک و شبہات ہیں، کیوں کہ ملزم گھر کے اندر کیسے داخل ہوا اور وہ صحن سے ہوتا ہوا کمرے میں گیا، جہاں اس نے مبشر اقبال کے گلے اور سینے پر تیز دھار آلے سے وار کیا۔ اس دوران خاتون خانہ کی آنکھ نہیں کھلی، جب ملزم فرار ہو رہا تھا تو ان کی اس وقت آنکھ کیسے کھلی ؟۔ پولیس مقدمہ درج کرنے کے بعد گھر والوں کے بیانات اور دیگر شواہد کی روشنی میں تحقیقات کررہی ہے۔