دھاندلی کا مقدمہ

ویسے بھی عمران خان دوسرے لیڈران کی طرح اپنے غصے اور اپنی پسند کو فوراً پالیسی میں تبدیل کرنے کے ماہر ہیں ...

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

ISLAMABAD:
تمام جذبات کو پرے رکھ کر اپنی رائے اور ترجیح کو موقوف کر کے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے حالیہ بیانات کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ انھوں نے اپنے لیے خود سے ایک بڑا چیلنج تخلیق کر دیا ہے ۔ جس میڈیا گروپ کو انھوں نے انتخابات کی دھاندلی اور اس کے ساتھ ملے ہوئے مختلف الزامات کا نشانہ بنایا وہ کل تک ان کا منظور نظر تھا ۔ ویسے بھی عمران خان دوسرے لیڈران کی طرح اپنے غصے اور اپنی پسند کو فوراً پالیسی میں تبدیل کرنے کے ماہر ہیں۔ چوں کہ دوسری جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف میں بھی خوشامدی ٹولے کا راج ہے ۔ لہذا اس طریقہ کار کے مضر اثرات ان کی نظر سے ہمیشہ ہی اوجھل رہتے ہیں۔ بہر حال اب ایک خاص طرز عمل اپنا کر عمران خان نے خود پر یہ ذمے داری ڈال دی ہے کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو ثابت کریں۔

اور وہ عدالت اور اس کا سابق چیف جسٹس جو انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد ان کی تعریف سے تقریبا ہر روز مستفید ہوتا تھا اس مبینہ دھاندلی میں ان کے کردار کی وضاحت بھی کی جائے۔ ویسے عمران خان نے الیکشن کے نتائج سامنے آنے سے پہلے اپنے نمایندگان اور امیدواروں کی آراء کی روشنی میں اسپتال میں سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا تھا ۔ مگر وہ پچھلے ایک سال سے دھاندلی کرنے والوں کے بارے میں کچھ مخمصے کا شکار رہے ہیں۔ کبھی ضلعی انتظامیہ کو مورد الزام ٹھراتے ہیں تو کبھی نچلے درجے کی عدالت کے افسران کو ۔ کبھی فوج کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں اور کبھی ان عبوری حکومت کے نمایندگان کی طرف جنہوں نے یہ انتخابات کرائے۔

آج کل وہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کر رہے ہیں۔ عمران خان کو اپنی باتوں کو با وزن بنانے کے لیے کم از کم اتنا انتظام کرنا ہو گا کہ وہ دھاندلی کرنے والوں کے بارے میں مستقل مزاج رہیں۔ اس مستقل مزاجی سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ خا ن صا حب کسی ایک خا ص ادارے یا شخص کے پیچھے لٹھ لے کر لگ جائیںاورآئو تا ئو دیکھے بغیر دما دم مست قلندر دھنا ئی شروع کر دیں۔یہ تو وہ اس وقت بھی کر ہی رہے ہیں۔مطلب اس کا یہ ہے کہ پا کستا ن تحر یک انصاف کو دماغ لڑ ا کر تحقیق کے ذریعے اس سازش کو بے نقاب کر نا ہوگا جو اس کے نز دیک عوام کی رائے کی چوری کا با عث بنی۔اس سازش کا طر یقہ کار کیا تھا اور اس میں کس نے کیا کردار کس طر ح ادا کیا؟ان سو الو ں کے جو ابات سامنے لائے بغیر انتخابا ت میںدھا ندلی کا الزام ویسے ہی رہے گا کہ جیسے ثبوت کے بغیر الزام ہوتا ہے۔


یعنی کم وقعت اور کم وزن۔ یہا ں پرمیںیہ وضاحت کر دوں کہ میں نے کبھی دھاندلی کے امکا ن کو رد نہیں کیا۔کوئی صحافی جس نے آدھے درجن کے قریب انتخابی عمل کو قریب سے دیکھا ہو ایسے کسی امکان کو رد نہیں کر سکتا۔دھا ندلی اس ملک میں باقاعدہ سائنس بن چکی ہے۔اس کے استادو ں کا آغاز پٹو اراور اختتا م لاٹھی گولی کی سرکار پر ہوتا ہے۔قومی خزانے سے تنخو اہ لینے والی افسر شاہی اس سائنس کے پرچوں کی ترتیب اپنے ہاتھوں سے طے کرتی ہے اور باقی ماندہ کام پسند یدہ انتظا میہ کے عبوری سربراہ تما م دلجمعی سے سر انجا م دیتے ہیں۔ دھاندلی کا امکان اس وقت زیا دہ قوی ہوجاتا ہے کہ جب چڑی باز اہم عہدوں پر بر اجمان ہو جائیں۔ 2013کے انتخابات میں بدعنو انی ،بے قاعدگی اور دھاندلی کے وہ تمام عناصر موجود تھے جو نتا ئج پر اثر انداز ہوسکتے تھے۔

میرا نکتہ پھر بھی یہ رہا ہے کہ خد شہ ثبو ت نہیں ہوتا۔پاکستان تحر یک انصاف کو ان حلقو ں میں سے چند ایک کو خود منتخب کرکے تحقیق کر نی چاہیے تھی جہا ں ان کی نظر میںد ھاندلی کے ذریعے اندھیر نگری مچائی گئی تھی۔تحریک انصاف کو اپنے الزامات کی حدیں مقرر کر نے کی ضرورت تھی جو انہو ں نے پوری نہیں کی۔پنجا ب میں چند ایک حلقوں کے نتائج میں گڑ بڑ کو بنیاد بنا کر تما م انتخابی عمل کو فضو ل قرار دینا خطر ناک سیا سی طرز عمل ہے جس کے نتا ئج خطرناک ہو ں گے اور وہ بھی ایسے خطر ناک کہ اُن کو سنبھا لنا شاید تحر یک انصاف کی اسطا عت میں نہ ہو۔حلقوں میں دھاندلی کی فریاد اس وقت بہر حال مکمل طور پربے لگام ہے۔عمران خان کو اب سینیٹ میں ہونے والے انتخابی عمل پر بھی شدید اعتر اضا ت ہیں جو اس سے پہلے ان کی طر ف سے بھی واضح انداز میں سامنے نہیں آئے تھے۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں بھی عمران خان کی رائے یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔یقینا اگر تبدیلی فکر کے پیچھے نئی معلومات ہیں تو اُن کو سامنے لانے میں کسی قسم کا تامل نہیں کر نا چاہیے۔کوئی فرد عوام کے مفادات سے زیادہ اہم نہیں۔اگر سابق چیف جسٹس نے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے انتخابات کے نتا ئج یکسر تبدیل ہوگئے ہو ں تو اُن کو شواہد کے طور پر پیش کیاجانا چاہیے تاکہ ریکارڈ بھی درست رہے اور انصاف بھی ہو۔بدقسمتی سے عمران خان اور اُن کی جماعت نے اس راستے کو نہیں اپنایا جس کی وجہ سے آج کل ان کا ہر بیان شد ید تنقید کی زد میں نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ انھو ں نے تما م انتخا بی عمل کو پنجاب میں مبینہ گڑ بڑ تک محدود کر دیا ہے۔

جو واردات کر اچی میں ہوئی ا س کا ذکر بھی نہیں ہوتا، نہ ہی یہ مانا جاتا ہے کہ خیبر پختو نخو اہ میں بھی ویسی بے ضا بطگیوں کا امکان ہوسکتا ہے جن کے بارے میں تحریک انصاف پنجاب کے حوالے سے بات کر تی ہے۔حلقہ 47درہ آدم خیل سے تحریک انصاف کے منتخب رکن قیصر جمال کے انتخاب پر الیکشن ٹرائی بینول کا فیصلہ اس پہلو کی نشا ندہی کر تاہے۔جو عمران خان کی دھاندلی کے مقدمے سے یکسر غائب ہیں۔سیا سی طور پر تحریک انصاف کا 11مئی کو احتجاج زیادہ قابل قبول اور مقبول ہوتا اگر ''انتخابات چرانے'' کے الزام کا عوامی مقدمہ طریقے،سلیقے اور باقاعد لائحہ عمل کے ساتھ دائر کیا ہوتا۔اب احتجاج کا اسٹیج تو تیار ہے مگر اہتمام کے مقاصد کسی حد تک غیر واضح ہیں۔11مئی کے احتجاجی مظاہرے کے چند ایک مسائل اور بھی ہیں جن پر عمران خان اپنی موجودہ جذباتی کیفیت میں شاید توجہ نہ دے رہے ہوں۔ان اہم اور قابل ذکر پہلو ئوں کا احا طہ کل کے کالم میں کیا جائے گا۔
Load Next Story