مساوی سلوک
میاں شہباز شریف کی خوبیوں کے تو سبھی لوگ قائل اور معترف ہیں اُن کی کارکردگی کا معیار اور ترقی و خوشحالی سے ۔۔۔
ISLAMABAD:
موجودہ وفاقی حکومت کے بارے میں عام اور جنرل تاثر یہی بنتا جا رہا ہے کہ اِس کی تمام ترجیحات صرف پنجاب ہی سے متعلق ہیں۔ بیشتر بڑے بڑے نئے منصوبوں کے لیے بھی صرف پنجاب ہی کو منتخب کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم نے اب تک جو اہم غیر ملکی دورے کیے ہیں اُن میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کو ضرور شامل کیا گیا ہے جب کہ باقی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو تکلفاً بھی ساتھ جانے کی پیشکش نہیں کی گئی۔ جس سے ملک کے دیگر صوبوں میں پہلے سے موجود احساسِ محرومی مزید گہرا اور بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک چھوٹے صوبے کی جانب سے اِس بارے میں اپنے تحفظات کے اظہار کے باجود کہ صرف ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کو اپنے غیر ملکی دوروں میں شامل کرنے سے چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں احساسِ محرومی یقینا بڑھے گا۔ میاں صاحب نے اتنی اہم بات سنی ان سنی کر دی یا اِسے لائقِ ا عتناء بھی نہ سمجھا اور اپنے حالیہ دورہِ برطانیہ میں میاں شہباز شریف کو ایک بار پھر اپنے ساتھ لے گئے۔ میاں شہباز شریف کِس حیثیت میں اِن غیر ملکی دوروں کے وفود میں شامل کیے جاتے ہیں اِس کا کوئی مدلل اور تسلی بخش جواب خود میاں نواز شریف کے پاس بھی نہ ہو گا۔
پاکستان کو اگر اگلے چند سالوں میں ایک ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو تمام صوبوں پر مشتمل سارے ملک ہی کو بنانا ہو گا۔ صرف ایک صوبے کو ترقی دیکر یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان چار اکائیوں پر مبنی ایک مملکت کا نام ہے۔ کسی چھوٹے صوبے کو نظر انداز کر کے اِس ملک کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے یہاں ایک بڑے صوبے کے خلاف چھوٹے صوبوں میں جو تعصب اور نفرت پہلے سے پروان چڑھ رہا ہے ایسے اقدامات سے اُس میں مزید شدت پیدا ہوتی جائے گی۔ صوبہ پنجاب میاں شہباز شریف کی قیادت میں گزشتہ کئی سالوں سے تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے جب کہ دیگر تینوں صوبے اپنے یہاں کی دہشت گردی اور بد امنی کی وجہ سے ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کرنے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
اور جس کی بدولت اِن تینوں صوبوں اور پنجاب کے درمیان ایک واضح خلیج اور فرق نمایاں ہو تا جا رہا ہے۔ پنجاب اِس وقت دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ دونوں میاں برادران کی توجہ کا مرکز صرف پنجاب ہی دکھائی دے رہا ہے۔ اِس کے برعکس دیگر صوبوں میں اُن کی توجہ برائے نام ہی ہے۔ سندھ کے بڑے شہر کراچی ہی کو لے لیجیے۔ یہاں تقریباً دس ماہ سے ایک سست رفتار ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتائج ہنوز تسلی بخش نہیں ہیں۔ کراچی ہمارا انڈسٹریل ہب ہے۔ ملک کے ساری درآمد برآمد کا تعلق ابھی تک یہاں کی قدیم بندرگاہ سے ہی ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ میاں صاحب اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر پہلے اِس شہر کے حالات بہتر بنانے پر توجہ دیتے، کیونکہ جب تک یہاں امن قائم نہیں ہو گا اُن کا پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔
الیکشن کے فوراً بعد اپنے دورہِ کراچی کے موقعے پر اُنھوں نے یہاں میٹرو بس چلانے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن اُن کا یہ منصوبہ کراچی کی بجائے راولپنڈی چلا گیا۔ اُنھیں منتخب ہوئے تقریباً ایک سال بیت چکا ہے۔ اب وہ کراچی میں اپنے اِس منصوبے کے وعدے کو دہرانے سے بھی کتراتے نظر آتے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کِس قدر مفید اور فعال ثابت ہو گا اِس کا تو ابھی کسی کو پتا نہیں ہے۔ جب کہ وہاں اُس کی مخالفت مختلف الخیال حلقوں کی جانب سے بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ کِس قدر حیران کُن بات ہے کہ جہاں میٹرو بس کی چنداں ضرورت نہیں اور جہاں کے لوگ ہی اُس منصوبے کے شدید مخالف ہوں وہاں تو یہ ہر صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچایا جا رہا ہے اور جہاں اِس سروس کی بہت شدید ضرورت ہو وہاں اِس جانب کوئی توجہ ہی نہ ہو۔
میاں شہباز شریف کی خوبیوں کے تو سبھی لوگ قائل اور معترف ہیں اُن کی کارکردگی کا معیار اور ترقی و خوشحالی سے متعلق اُن کے خیالات اور ویژن کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔ وہ اپنے طور پر بھی کئی غیر ممالک کا دورہ کر کے اپنے صوبہء پنجاب کے لیے خوب امداد حاصل کر تے رہے ہیں۔ لہٰذا میاں صاحب کو اُنھیں اپنے ہمراہ لے جانے کی بجائے دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ساتھ لے جانیکی فکر کرنی چاہیے۔ وفاقی حکومت پر ایک صوبے کی چھاپ لگنے کے تاثر کو زائل کرنے اور چھوٹے صوبوں میں بڑھتے ہوئے احساسِ محرومی کو دور کرنے کی اِس وقت بہت ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو پانی سر سے گزر جائے اور پھر اصلاح کا موقعہ بھی نہ رہے۔
پنجاب اِس ملک کا بہت بڑا صوبہ ہے۔ ملک کی 55 فیصد آبادی پر مشتمل اِس صوبے کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہے اِس ملک کا حکمراں بنا دے۔ میاں صاحب کو چونکہ گزشتہ الیکشن میں اِسی صوبے سے بھاری مینڈیٹ ملا تھا اگر وہ اِسی صوبے کی خدمت کر کے اِس احسان کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں تو یہ دوسرے صوبوں کے ساتھ سراسر نا انصافی کے مترادف ہو گا۔ صوبہ پنجاب کی خدمت کے لیے اکیلے شہباز شریف ہی کافی ہیں۔ اگر وفاقی حکومت بھی صرف ایک صوبے کی خدمت میں جُت جائے گی تو باقی پاکستان کا کیا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں سرائیکی صوبے کی تشکیل کے لیے جو کام شروع کیا گیا تھا اور جس کی منظوری کے لیے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بہاولپور صوبہ بھی بنانے کی شرط رکھی گئی تھی وہ کام الیکشن کے بعد سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔
اب کوئی کوشش نئے صوبے بنانے کی غرض سے نہیں کی جا رہی ہے۔ حالانکہ میاں صاحب کے لیے بہتر یہی ہے کہ یہ کام اُنہی کے ہاتھوں سے ہو جائے ورنہ بعد میں آنے والی حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق اِس معاملے کو طے کریگی ۔ چھوٹے صوبوں کے احساسِ محرومی کو کم کرنے کے لیے پنجاب کی اِس قدر وسعت اور وفاق پر اثر انداز ہونے والی حیثیت کو تقسیم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ کام ابھی بھی نہ کیا گیا تو پھر ممکن ہے آیندہ آنے والے دنوں میں یہ سارے ملک کے لیے ضرر رساں اور خطرناک ہوگا۔
مزید براں میاں صاحب کو وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی جناب عابد شیر علی کو بھی اشتعال انگیز بیانات دینے سے روکنا چاہیے۔ چھوٹے صوبوں پر بجلی چوری جیسے الزامات لگانے سے یہ مسئلہ ہر گز حل نہیں ہو گا بلکہ مزید گھمبیر ہو جائے گا۔ اور اِ ن بیانات سے صوبوں کی درمیان باہم اتفاق و اتحاد کی بجائے نفاق و اشتعال پرورش پائے گا اور ہمارا ملک اِس وقت اِس کا متحمل ہر گز نہیں ہو سکتا۔ میاں نواز شریف کو مذکورہ بالا تمام باتوں پر خاص توجہ دیکر اُنھیں درست اور صحیح سمت میں لے جانا ہو گا۔ عدم توجہی اور تاخیری حربوں سے کچھ وقت تو گزارا جا سکتا ہے لیکن ایک وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ملکی وحدت و سالمیت کے اِن اہم معاملات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے۔