زرد قوم جاپانی

جاپان ایک چھوٹا لیکن نہایت منظم و مربوط ملک ہے یہ ایشیا کی سب سے بڑی صنعتی مملکت بھی ہے ۔۔۔


Shehla Aijaz May 07, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: دنیا بھر میں پھولوں سے سب سے زیادہ محبت کرنیوالی قوم جاپانی ہے جو صدیوں سے اس عشق میں گرفتار ہے، پھولوں سے محبت کرنیوالے منفرد نین نقش اور مضبوط اعصاب کے مالک یہ لوگ انتہائی منظم اور ثابت قدم ہیں۔ ان کے ڈسپلن سے تو پوری دنیاواقف ہے ہی لیکن پہلے سونامی اور پھر اس کے بعد2011 کے بد ترین زلزلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے جس طرح اس قوم نے مقابلہ کیا اور ہمت استقامت کے ساتھ اپنے اخلاق و اقدار کا دامن تھامے رہے نبٹتے رہے اس کی مثال حالیہ دنیا میں ملنا مشکل ہے۔

جاپانی ثقافت میں سدا بہار تناور درختوں کا رواج ہے جو ان کی مذہبی تعلیم کے مطابق ہے اسی طرح پھولوں کی افزائش و تراش خراش اور سجاوٹ کا تعلق بھی مذہبی نوعیت تک کا ہے، ایکا بانا نے اس طرز میں مزید جدت پیدا کی اور اسے باقاعدہ آرٹ کی ایک شاخ بنا دیا جس میں نہ صرف پھول بلکہ جھاڑیوں اور کانٹوں کے علاوہ بھی مختلف قسم کی اشیا سے سجاوٹ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ پھولوں سے گھروں کو سجانا وہاں کی روایت ہے، بچپن میں کہانیوں میں آپ نے بھی یقیناً نیلے گلاب کے پھولوں کو پرستان سے لانے کی مہم جوئی ضرور پڑھی ہوگی، لیکن تناکا اور اس کے ساتھی ریسرچرز نے نیلے گلاب کے پھولوں کی افزائش کو ممکن کر دکھایا اور اس کج فہم مہم میں چودہ برس صرف کر ڈالے، تناکا پوشی کازو جو اس ترقیاتی پروجیکٹ کے انچارج تھے۔

1991میں اس تجربے میں پہلی بار کامیاب ہوئے وہ اسے بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں، بلیو روز کو انھوں نے ''اپلاز'' (تحسین و آفرین) کا نام دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پھولوں کی زبان میں اسے ''آپ کا خواب سچ ہو سکتا ہے'' کہا جاتا ہے۔ معمولی نقائص کے بعد بالآخر 2004 میں نیلا گلاب منظر عام پر آیا اور اس ناممکن گلاب کی فروخت 2009 میں شروع کی گئی۔ ذرا سوچیے جو لوگ پھولوں سے اس قدر محبت کرتے ہیں وہ انسانوں کے متعلق کس طرح سوچتے ہوں گے۔

دوسری جنگ عظیم میں جاپان اپنے اتحادیوں کے ساتھ کامیابی کے نزدیک تھا اور جب ان کی فتح قریب نظر آنے لگی تو 6 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور 9 اگست 1945 کو اس کے دوسرے بڑے شہر ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا دیا گیا۔ یہ ایٹم بم ایک کے بعد ایک انسانیت کے چہرے پر ایسا بد نما داغ بن گئے ہیں جس کی یادیں آج بھی پورے جاپان کے وجود پر نقش ہیں۔ آج جاپان اپنی دوسری جنگ عظیم کے سب سے بڑے دشمن امریکا کے ساتھ نہایت مہذبانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہے اس کا مطلب نہ تو کوئی ڈر نہ خوف ہے بلکہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا کی پالیسی جڑی ہوئی ہے۔ اگر جاپان اپنے غموں کو لیے بیٹھا رہتا تو اتنی بڑی ناکامی کے بعد آج جاپان کا نام بھی نہ ہوتا وہ دنیا کے کسی کونے پر ایک عام سی کمزور ریاست ہوتا، لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور آج بھی ایشیا کے عظیم ممبرز میں جاپان کا ایک بڑا مقام ہے۔

جاپان ایک چھوٹا لیکن نہایت منظم و مربوط ملک ہے یہ ایشیا کی سب سے بڑی صنعتی مملکت بھی ہے پہلے ایٹم بم کا زخم پھر حالیہ سونامی جیسی آفت اور پھر سیلاب نے جاپان کے لوگوں کی ہمت و استقامت پر اثر نہیں ڈالا انھوں نے مل جل کر ان قدرتی آفات کا مقابلہ کیا جاپان کے حالیہ زلزلے کے بعد رہائش اور کھانے پینے کے علاوہ سردی سے بچنے کے لیے لحاف اور گرم کپڑوں کی بھی قلت تھی۔ لیکن وہاں کے لوگوں خاص کر دکانداروں کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے انھوں نے اپنی اشیا کی قیمتیں نہ صرف کم کردیں بلکہ اپنی دکانوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے باکس رکھ دیے جس پر لکھا تھا ''آپ کو جو چیز چاہیے بغیر پوچھے لیجیے اور اس کے لیے جو رقم دے سکتے ہیں۔

اس باکس میں ڈال دیجیے'' دکانداروں کی اس قسم کی اعلیٰ ظرفی اگر ہمارے اپنے دیس میں ہوتی تو لالچ اور حرص میں لوگوں میں دھکم پیل، مار پیٹ ہو جاتی لیکن وہاں لوگوں نے صرف اپنی ضرورت کی چیزیں لیں اسی طرح عام شہریوں نے اپنے گھروں کے باہر رضائیاں گدے وغیرہ رکھ دیے کیوں کہ ٹوکیو شہر میں روزانہ تقریباً پچاس لاکھ کے قریب لوگ آتے ہیں جو یہاں اپنی ملازمتیں اور دیگر کام کرتے ہیں اس شہر کی اپنی آبادی ایک کروڑ ہے، لیکن زلزلے کی وجہ سے تمام نظام درہم برہم ہوگئے، سڑکیں برباد ہو گئیں یوں ایک کروڑ کا شہر پچاس لاکھ مزید لوگوں کے بوجھ اور تکالیف میں گھر گیا اس رونے پیٹنے اور دکھ درد میں انھوں نے چل کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما نہ کوئی شور نہ پکار نہ بد انتظامی سب صبر و شکر سے منظم رہے اور شہر بھر میں درستگی کے انتظام ہونے لگے یوں رفتہ رفتہ نظام زندگی بحال ہوتا گیا، انتہائی دشواری اور دقت میں بھی وہ قطاریں بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔

دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے انھوں نے سبق سیکھ لیا کہ جنگ اور دہشت گردی اس دنیا کے سکھ چین اور امن کے دشمن ہیں اس سے انسان دکھوں میں گھر جاتا ہے، انھوں نے خوب محنت کی، خوب کمایا اور آج بھی وہ ان ملکوں کی امداد میں پیش پیش رہتے ہیں جو غربت اور غربت اور جہالت کے اندھیروں میں گھرے ہوتے ہیں، پاکستان میں بھی انھوں نے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ پاکستان سے بھی بہت سے لوگ جاپان کمانے کے لیے جاتے ہیں وہ وہاں کی مہنگائی کا رونا بھی روتے ہیں لیکن خوب کماتے بھی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ایک کھانے کی پلیٹ کئی سو روپے میں دستیاب ہوتی ہے لیکن اسی لحاظ سے وہاں تنخواہوں کا معیار بھی ہوتا ہے۔

پچھلے برس جاپان امریکا کے ساتھ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے مسئلے پر ایک ساتھ بیٹھا تھا حالانکہ ایک زمانے میں وہ خود امریکا کی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ جاپان، چین اور کوریا زرد اقوام کہلائے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں سورج کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جاپان میں ایشیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے اسی لیے اسے ابھرتے سورج کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے، چودہ سو برس پہلے مدینہ سے یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ جب اسلام کمزوریوں کا عنوان بنے گا تو اقوام زرد عروج پائینگے اور اس کا عروج بھی بالآخر عظمت و رفعت اسلام کا عنوان بنے گا۔ علماء کا اس حوالے سے قرآن میں یاجوج ماجوج دو اقوام کے حوالے سے غالباً اسی جانب کیا گیا ہے۔

زمانہ بدل رہا ہے، لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے، تحقیق اب نئے نئے دروا کر رہی ہے، کیا سچ ہے کیا جھوٹ، سب کچھ ایک کے بعد ایک کھلتا جا رہا ہے بہت سی سچائیاں تو سامنے آ کر اپنے وجود کی شناخت کرا چکی ہیں لیکن بہت سی سچائیوں کو انتہائی بے ڈھنگے پن سے آلودہ کر کے بہت کچھ چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے، شاید کہ اب وقت قریب آ رہا ہے کہ عظمت و رفعت کے عنوان کہاں سے کہاں تک چلے گئے۔ ہم اپنے آپ کو پیدائشی مسلمان سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن اپنی ذمے داریوں کو بھولتے جا رہے ہیں، ہمارے مذہب کا ڈسپلن، اصول و ضوابط اب دوسرے اختیار کر رہے ہیں، ایک ایسا منظم مذہب ہمیں دستیاب ہے لیکن ہم اکتائے سے ہیں، اس کوفت اور اکتاہٹ سے نکل کر اپنے ارد گرد دیکھیے بہت کچھ بدل رہا ہے اب، ہم کب اپنی لائن پر آئیںگے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔