ایک اور غلطی
جب آپ اپنی کسی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں اور اپنی اس ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں اور پھر ۔۔۔
کیا آپ کو کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اگر ایسا ہے تو آپ کو مبارک ہو اس ناکامی کے ذریعے آپ کو ایک ایسی غلطی معلوم ہو گئی ہے جسے دوبارہ نہ کرنے کے ذریعے آپ کا میابی حاصل کر سکتے ہیں۔ بے شمار غلطیاں کرنے کے بعد عظیم سائنس دان ایڈیسن نے کہا تھا ''اب ہمیں ایک ہزار غلطیوں کے متعلق علم ہو چکا ہے جن کے ذریعے ہم کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور اب ہم ان امور کے زیادہ قریب آ چکے ہیں جن کے ذریعے ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔''
جب آپ اپنی کسی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں اور اپنی اس ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ دوبارہ کو شش کرتے ہیں تو پھر بالآخر آپ شکست کو شکست دے دیتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اپنی ناکامیوں سے سبق سکھ لیا ہے اور آج پاکستان کو انھوں نے ایک درست سمت میں گامزن کر دیا ہے تو معاف کیجیے گا آپ بھی بے شمار غلطیوں کے بعد ایک اور شرمناک غلطی کر رہے ہیں ہماری سیاسی قیادت اپنی ناکامیوں کی راکھ سے کامیابی کو جنم دینے میں اب تک مکمل ناکام رہی ہے۔ اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ مکمل ناکامی سے دو چار ہو چکے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
یہ بات نہ مان کے ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے آپ پر ہر گز ظلم نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ظلموں کی بارش اب بار پھر عوام پر کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور خو شحال ممالک ماضی میں مکمل ناکامی سے دو چار رہے ہیں ان ممالک کے عوام کے حالات زندگی سن کر پڑھ کپکپی چڑھ جاتی ہے۔ لیکن ان کے رہنمائوں، فلسفیوں، مفکروں نے تاریخ کھنگال ڈالی پھر وہ سبق ڈھو نڈ نکالا کہ کس طرح اپنے بدترین حالات کو شرمناک شکست سے دو چار کیا جا سکتا ہے پھر وہ سبق بار بار پڑھا اور اپنی قوموں کو بھی پڑھایا کہ تمام ترقی اور خو شحالی کے پیچھے صرف ایک ہی راز چھپا ہوا ہے اور وہ راز یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو کھڑا کر دو ملک خو د بخو د کھڑا ہو جائے گا۔
ملکی تجارت کو فروغ دے دو روپیہGenerate کرو زراعت کو ترقی دو ٹیکسوں کا نیٹ ورک بڑھا دو ملک سے کرپشن، کمیشن کا مکمل خاتمہ کر دو تمام ملکی معاملات میں میرٹ لاگو کر دو۔ تعلیم کو فروغ دو، گائوں گائوں بجلی، گیس، پانی پہنچا دو سٹرکو ں کا جال بچھا دو۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کردو۔ صحت کی سہو لیات شہر شہر گائوں گائوں میسر کر دو ملک کے تمام افراد کو کا موں پر لگا دو صنعتوں کا چاروں طرف جال بچھا دو۔ پھر دیکھو کس طرح ترقی اور خوشحالی تمہارے قدم چومتی ہے لیکن یہ سبق آخر سمجھائیں تو کس کو سمجھائیں ملکی سقراط نے عدالت میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا مجھے تو معلوم ہے کہ مجھ میں دانش و حکمت تھوڑی نہ بہت سرے سے ہے ہی نہیں۔
پھر آخر دیوتا پے تھیا کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ میں سب انسانوں سے زیادہ دانش مند ہوں بہرحال وہ دیوتا ہے جھوٹ تو بول نہیں سکتا یہ تو اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ بہت غور کرنے کے بعد اس بات کو آزمانے کا ایک طریقہ سمجھ میں آیا میں نے سو چا کہ اگر مجھے کوئی اپنے سے زیادہ دانش مند آدمی مل جائے تو اس قول کے خلاف ایک دلیل ہاتھ آ جائے گی اور میں اسے لے کر دیوتا کے سامنے جا سکوں گا میں اس سے کہوں گا دیکھو یہ شخص مجھ سے زیادہ دانشمند ہے تم نے تو کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ دانشمند ہوں چنانچہ میں ایک شخص کے پاس گیا جو دانش مند مشہور تھا اور اسے ٹٹولا اس کا نام بتانے کی ضرورت نہیں۔
وہ ایک سیاسی لیڈر تھا جسے میں نے امتحان کے لیے چنا تھا اس سے باتیں کرنے کے بعد مجھے یہ رائے قائم کرنی پڑی کہ حقیقت میں وہ دانشمند نہیں ہے اگر چہ بہت سے لوگ اسے دانشمند سمجھتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے میں نے اسے یہ سمجھانا چاہا کہ وہ اپنے کو دانشمند سمجھتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے غالباً ہم دونوں میں سے ایک کو بھی کسی اچھی اور معقول چیز کا علم حاصل نہیں ہے مگر اس سے میں پھر بھی بہتر ہوں اس لیے کہ وہ کچھ نہیں جانتا مگر سمجھتا یہ ہے کہ جانتا ہے اور میں نہ کچھ جانتا ہوں اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ میں جانتا ہوں اس چھان بین کا نتیجہ یہ نکلا میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کی سب سے زیادہ سمجھ داری کی شہرت ہے۔ وہی سب سے زیادہ بے وقوف ہیں اور جو لوگ معزز نہیں ہیں وہ حقیقت میں ان سے بہتر اور زیادہ دانشمند ہیں۔
سقراط کی تقریر ہماری سیاسی قیادت پر پوری اترتی ہے۔ ورنہ ہماری سیاسی قیادت کے یہ طور طریقے نہ ہوتے جو انھوں نے اپنا رکھے ہیں۔ اور اپنے آپ کو سقراط سے بھی زیادہ دانشمند اور سمجھ دار سمجھے بیٹھے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے کیا دانشمند اور سمجھ داروں کے یہ لچھن ہوتے ہیں کہ و ہ اپنی معیشت کو سنبھالنے کے بجائے قرض پہ قرض لے کر ملک چلا رہے ہوں جس ملک کے لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اس ملک کے ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، وزراء، مشیر، معاون خصوصی کے اخراجات کروڑوں روپے روز ہوں جی ہاں کروڑوں روپے روز ضایع کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان سب کے دیگر اخراجات پر بھی کروڑوں روپے روز ضایع ہو رہے ہیں یہ ہیں غریب ملک کے امیر ترین حکمران اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عوام کا سب سے بڑا خیر خواہ کہتے ہیں۔
حالانکہ حکومت میں آنے کے بعد وہ سب سے پہلا کام عوام کو بھولنے کا ہی کرتے ہیں آپ ذرا 2103کے عام انتخا بات کے دوران ہماری سیاسی قیادت کی عوام کے سامنے کی گئی تمام تقرریں ملاحظہ فرما لیں۔ آپ کو سب کے سب عوام کے غم میں ہلکان ہوئے ملیں گے۔ بس آنسو نکلنے کی دیر ہے۔ ادھر دوسری طرف آپ ذرا ایک عام معزز پاکستانی سے ملک و قوم کو درپیش مسائل سے نکالنے کا راستہ پوچھ کر دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ اسے ملک و قوم کو در پیش عذابوں سے نکالنے کے تمام راستے معلوم ہیں کہ جن کے ذریعے پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خو شحال ملک بن سکتا ہے۔ تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک عام معزز پاکستانی ہماری سیاسی قیادت سے زیادہ دانشمند اور سمجھ دار ہے۔ لیکن کیا کر سکتے ہیں کہ ملک کے تمام دانشمند اور سمجھ دار لوگوں میں سے کوئی بھی حکومت میں شامل نہیں ہے اور بے وقوفوں سے دانشمندی اور سمجھ داری کی توقع کرنا بھی بڑی بے وقوفی ہے ۔
جب آپ اپنی کسی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں اور اپنی اس ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ دوبارہ کو شش کرتے ہیں تو پھر بالآخر آپ شکست کو شکست دے دیتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اپنی ناکامیوں سے سبق سکھ لیا ہے اور آج پاکستان کو انھوں نے ایک درست سمت میں گامزن کر دیا ہے تو معاف کیجیے گا آپ بھی بے شمار غلطیوں کے بعد ایک اور شرمناک غلطی کر رہے ہیں ہماری سیاسی قیادت اپنی ناکامیوں کی راکھ سے کامیابی کو جنم دینے میں اب تک مکمل ناکام رہی ہے۔ اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ مکمل ناکامی سے دو چار ہو چکے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
یہ بات نہ مان کے ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے آپ پر ہر گز ظلم نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ظلموں کی بارش اب بار پھر عوام پر کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور خو شحال ممالک ماضی میں مکمل ناکامی سے دو چار رہے ہیں ان ممالک کے عوام کے حالات زندگی سن کر پڑھ کپکپی چڑھ جاتی ہے۔ لیکن ان کے رہنمائوں، فلسفیوں، مفکروں نے تاریخ کھنگال ڈالی پھر وہ سبق ڈھو نڈ نکالا کہ کس طرح اپنے بدترین حالات کو شرمناک شکست سے دو چار کیا جا سکتا ہے پھر وہ سبق بار بار پڑھا اور اپنی قوموں کو بھی پڑھایا کہ تمام ترقی اور خو شحالی کے پیچھے صرف ایک ہی راز چھپا ہوا ہے اور وہ راز یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو کھڑا کر دو ملک خو د بخو د کھڑا ہو جائے گا۔
ملکی تجارت کو فروغ دے دو روپیہGenerate کرو زراعت کو ترقی دو ٹیکسوں کا نیٹ ورک بڑھا دو ملک سے کرپشن، کمیشن کا مکمل خاتمہ کر دو تمام ملکی معاملات میں میرٹ لاگو کر دو۔ تعلیم کو فروغ دو، گائوں گائوں بجلی، گیس، پانی پہنچا دو سٹرکو ں کا جال بچھا دو۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کردو۔ صحت کی سہو لیات شہر شہر گائوں گائوں میسر کر دو ملک کے تمام افراد کو کا موں پر لگا دو صنعتوں کا چاروں طرف جال بچھا دو۔ پھر دیکھو کس طرح ترقی اور خوشحالی تمہارے قدم چومتی ہے لیکن یہ سبق آخر سمجھائیں تو کس کو سمجھائیں ملکی سقراط نے عدالت میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا مجھے تو معلوم ہے کہ مجھ میں دانش و حکمت تھوڑی نہ بہت سرے سے ہے ہی نہیں۔
پھر آخر دیوتا پے تھیا کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ میں سب انسانوں سے زیادہ دانش مند ہوں بہرحال وہ دیوتا ہے جھوٹ تو بول نہیں سکتا یہ تو اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ بہت غور کرنے کے بعد اس بات کو آزمانے کا ایک طریقہ سمجھ میں آیا میں نے سو چا کہ اگر مجھے کوئی اپنے سے زیادہ دانش مند آدمی مل جائے تو اس قول کے خلاف ایک دلیل ہاتھ آ جائے گی اور میں اسے لے کر دیوتا کے سامنے جا سکوں گا میں اس سے کہوں گا دیکھو یہ شخص مجھ سے زیادہ دانشمند ہے تم نے تو کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ دانشمند ہوں چنانچہ میں ایک شخص کے پاس گیا جو دانش مند مشہور تھا اور اسے ٹٹولا اس کا نام بتانے کی ضرورت نہیں۔
وہ ایک سیاسی لیڈر تھا جسے میں نے امتحان کے لیے چنا تھا اس سے باتیں کرنے کے بعد مجھے یہ رائے قائم کرنی پڑی کہ حقیقت میں وہ دانشمند نہیں ہے اگر چہ بہت سے لوگ اسے دانشمند سمجھتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے میں نے اسے یہ سمجھانا چاہا کہ وہ اپنے کو دانشمند سمجھتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے غالباً ہم دونوں میں سے ایک کو بھی کسی اچھی اور معقول چیز کا علم حاصل نہیں ہے مگر اس سے میں پھر بھی بہتر ہوں اس لیے کہ وہ کچھ نہیں جانتا مگر سمجھتا یہ ہے کہ جانتا ہے اور میں نہ کچھ جانتا ہوں اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ میں جانتا ہوں اس چھان بین کا نتیجہ یہ نکلا میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کی سب سے زیادہ سمجھ داری کی شہرت ہے۔ وہی سب سے زیادہ بے وقوف ہیں اور جو لوگ معزز نہیں ہیں وہ حقیقت میں ان سے بہتر اور زیادہ دانشمند ہیں۔
سقراط کی تقریر ہماری سیاسی قیادت پر پوری اترتی ہے۔ ورنہ ہماری سیاسی قیادت کے یہ طور طریقے نہ ہوتے جو انھوں نے اپنا رکھے ہیں۔ اور اپنے آپ کو سقراط سے بھی زیادہ دانشمند اور سمجھ دار سمجھے بیٹھے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے کیا دانشمند اور سمجھ داروں کے یہ لچھن ہوتے ہیں کہ و ہ اپنی معیشت کو سنبھالنے کے بجائے قرض پہ قرض لے کر ملک چلا رہے ہوں جس ملک کے لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اس ملک کے ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، وزراء، مشیر، معاون خصوصی کے اخراجات کروڑوں روپے روز ہوں جی ہاں کروڑوں روپے روز ضایع کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان سب کے دیگر اخراجات پر بھی کروڑوں روپے روز ضایع ہو رہے ہیں یہ ہیں غریب ملک کے امیر ترین حکمران اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عوام کا سب سے بڑا خیر خواہ کہتے ہیں۔
حالانکہ حکومت میں آنے کے بعد وہ سب سے پہلا کام عوام کو بھولنے کا ہی کرتے ہیں آپ ذرا 2103کے عام انتخا بات کے دوران ہماری سیاسی قیادت کی عوام کے سامنے کی گئی تمام تقرریں ملاحظہ فرما لیں۔ آپ کو سب کے سب عوام کے غم میں ہلکان ہوئے ملیں گے۔ بس آنسو نکلنے کی دیر ہے۔ ادھر دوسری طرف آپ ذرا ایک عام معزز پاکستانی سے ملک و قوم کو درپیش مسائل سے نکالنے کا راستہ پوچھ کر دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ اسے ملک و قوم کو در پیش عذابوں سے نکالنے کے تمام راستے معلوم ہیں کہ جن کے ذریعے پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خو شحال ملک بن سکتا ہے۔ تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک عام معزز پاکستانی ہماری سیاسی قیادت سے زیادہ دانشمند اور سمجھ دار ہے۔ لیکن کیا کر سکتے ہیں کہ ملک کے تمام دانشمند اور سمجھ دار لوگوں میں سے کوئی بھی حکومت میں شامل نہیں ہے اور بے وقوفوں سے دانشمندی اور سمجھ داری کی توقع کرنا بھی بڑی بے وقوفی ہے ۔